زکوٰة اسلام کاایک اہم رکن ہے۔اس
کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے82مقامات
پرنماز کے ساتھ زکوٰة ادا کرنے کا حکم دیااور جہاں جہاں صرف زکوٰة ادا کرنے
کا حکم فرمایاہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔شاہکارِ دستِ قدرت مصطفی جانِ رحمت ﷺ
نے زکوٰة کو اسلام کی بنیاد قرار دیا۔ چنانچہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔”اسلام
کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اللہ کی وحدانیت اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنا، نماز قائم کرنا، زکوٰة دینا، حج کرنااور
ماہِ رمضان کے روزے رکھنا“۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا
:”تمہارے اسلام کاپورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مال کی زکوٰة اداکرو“۔
اورحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے رواےت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم پر ایمان لایا اس پر لازم ہے کہ اپنے مال کی زکوٰة ادا کرے۔ (ترمذی،
ابن ماجہ ) طبرانی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رواےت کی ہے کہ حضور
اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ کو چھ چیزوں کی ضمانت
دے، میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں، راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ وہ
چھ چیزیں کیا ہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: نماز، زکوٰة، امانت، شرمگاہ، شکم اور زبان۔حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیںکہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس آیا
اور عرض کرنے لگا کہ سرکار مجھے ایسا عمل بتا دیں جو مجھے جنت میں داخل کر
دے۔ حضور علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ”اللہ کی عبادت کر، کسی کو اس کا
شریک نہ کر، نماز قائم کر اور زکوٰة ادا کر “۔ (برکاتِ شریعت،ص280)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیوں کے سردار اور ہم غلاموں کے آقا و
مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور فرمایا ” قسم ہے اس کی جس کے
قبضہ قدرت میں میری جان ہے“۔ اس کو تین بار فرمایا پھر سر جھکا لیا تو
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی سر جھکا لیا اور رونے لگے۔
معلوم نہ ہو ا کہ آپ نے کس چیز پر قسم کھائی ہے پھر حضور انورصلی اللہ علیہ
وسلم نے سر مبارک اٹھالیا ،چہرہ پُر نور پر خوشی کے آثار تھے اور ارشاد
فرمایا:جو بندہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہے، رمضان کے روزے رکھتا ہے اور اپنے
مال کی زکوٰة دیتا ہے اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے اس کے لئے جنت کے دروازے
کھول دئیے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جا۔
(ایضاً،ص281)ابو داﺅشریف میں حضرت حسن بصری علیہ الرحمہ سے مروی ہے کہ حضور
اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:زکوٰة دے کر اپنے مالوں کا مضبوط قلعوں میں کرلو
اور صدقہ و خیرات سے اپنے بیماروں کا علاج کرو اور خدا کی بارگاہ میں دعا
اورگڑگڑانے سے ہر قسم کی بلاﺅں کا استقبال کرو۔(ماہنامہ
اشرفیہ،2008،ص25)معلوم ہواجس مال کی زکوٰة ادا کر دی جاتی ہے وہ مال ضائع
اور برباد ہونے سے محفوظ ہوجاتا ہے اور جس مال کی زکوٰة نہیں دی جاتی ہے اس
کے ضائع ہونے کا خطرہ ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے۔چنانچہ امیرالمومنین حضرت عمر
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا:خشکی
اور تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکوٰة نہ دینے ہی سے تلف ہوتا
ہے۔(طبرانی)حضرت عبداللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تین کام ایسے ہیںجنہیں کوئی انجام دے لے تو یقینا
اسے ایمان کامزہ مل جائے(۱)صرف اللہ جل شانہ کی عبادت کرے(۲)اور یہ اچھی
طرح جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں(۳)اور ہر سال خوش دلی سے اپنے
مال کی زکوٰة ادا کرے(اسے اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھے)اور اس میں (جانوروں کی
زکوٰة)بوڑھاجانور یا خارشی جانور یا مریض یا گھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ
متوسط قسم کا دے کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہترین مال کا مطالبہ نہیں کرتا
لیکن گھٹیا مال کا بھی حکم نہیں دیتا۔(ابوداﺅد شریف،ص223)اس حدیث پاک سے
معلوم ہوا کہ اللہ پاک ہم سے بہت عمدہ مال کا مطالبہ نہیں کرتا مگر گھٹیا
مال بھی درست نہیں بلکہ درمیانی مال ادا کرنا چاہئے جیسا کہ حدیث شریف میں
مذکور ہے۔اللہ پاک ہمیں احکامِ اسلام پر تا حیات عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین |