مسکراتے چمنستانوں کو اجڑنے سے بچائیں

یہ 2008کی بات ہے جب محمد احمد اپنی فیملی کے ساتھ خوش وخرم زندگی بسر کررہاتھا۔تین بیٹوں اوردو بیٹیوں کے ہمراہ اس کی زندگی نہایت حسین اور پر مسرت انداز میں گزررہی تھی ۔مسائل تو تھے پرو سائل کی کمی نہ تھی ،خداکا دیا سب کا کچھ تھا ۔دین ودنیا دونوں سے ان کا آنگن آباد وشاد تھا ۔ایک بیٹاڈاکٹر اوردو انجینئر تھے ،ایک بیٹی ایف ایس سی اور ایک میٹر ک میں پڑھ رہی تھی اور خود محمد احمد ملک کے باعزت ادارے میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہوکر ریٹائر آفیسر کالقب سجائے گھر میں بچوں کی تربیت کرر ہا تھا ۔پور ا گھر انہ نیک سیر ت اورشریعت پرمکمل عمل پیر اتھا۔ اہل ِمحلہ محمد احمد کی تعظیم تو کرتے ہی تھے ساتھ ساتھ اس کے بچوں کی معصومیت اورخداترسی کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ،خود محمد احمد بھی اپنی اولا د سے بے حد خوش اور مطمئن تھا۔یوں زندگی کا پہیہ سکون او رآسانی سے چل رہاتھا کہ ایک دن وہ آفت منڈھ لائی کہ سب ہو ا ہوگیا سکون رہا نہ چین ۔آفت اس قدر ہولناک اورناقابل برداشت تھی کہ محمد احمد کیا بلکہ پوری فیملی کودن میں چین آتا تھا نہ رات کو قرار ملتا۔آفت کا پس ِمنظر دل خراش اور دل دہلانے والا ہے ۔ہوا یوں کہ محمد احمد کے گھر میں نہ موبائل فون کی بہتات تھی نہ کیبل اور ٹی وی کا تصور تھا بس گھر میں یا تو محمد احمد کے پاس موبا ئل تھا یا پھر بیٹوں کو یہ سہولت میسر تھی ،گھر میں پی ٹی سی ایل تھا جوصر ف سننے کی حد تک کا رآمد تھا ۔ نت نئے انداز میں ملک دشمن عناصر کی شاطرانہ چالیں اورقوم کے معصوم پھولوں اورکلیوں کومرجھادینے والی زہریلی ہواﺅ ں کا محمد احمدکے گھر والوں پرذرہ برابرتک اثر نہ تھا لیکن سچ ہے یہ بات کہ ”جب ہواچلتی ہے تو سب کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے “بروں کو دیکھتی ہے نہ معزز اورپاک طینت لوگوں کی شرافت اورشرم وحیا کا لحاظ کرتی ہے بس ہر کسی کو ضر ور مس کرتی ہے ۔اس زہریلی ہوا کے گرم تھپیڑوں کی زدمیں محمد احمد کی بڑی بیٹی جو ایف ایس سی کی طالبہ تھی آگئی ۔کالج میں غلط صحبت کااثر یہ ہوا کہ وہ فون پر محبت کے گن گانے لگی اوررفتہ رفتہ گھر سے چکمہ دے کر اس جھوٹی محبت میں” حقیقی رنگ بھرنے “شریروں کے سامنے جلوہ افر وز ہونے لگی ۔جھوٹی محبت کے افسانوں میں اس قدر گرفتار ہوئی کہ اپنے ارمانوں کو پورا کرنے کی خاطر اپنوں کوچھوڑ کر غیروں کے دامن کو تھام لیا ۔پھر کیا تھاہر سو بازگشت سنی سنائی جانے لگی اس افسانے کی اور جو بیتی محمد احمد اور ان کے اہل ِ خانہ پر اسے قلم بھی زیب ِ قرطاس کرنے سے قاصر ہے۔

سچ کہتے ہیں خداترس ،ماہرنباض اوروقت شناس کہ” جلبِ منفعت دفعِ مضرت سے بہتر ہے “۔وہ نفع ہی کیاجو نقصان کا سبب بنے ،اس پانی کاکیا فائدہ جو بجھائے پیاس بجھانے کے اَنگ اَنگ کو گرمادے اور پیاسا کردے ۔ سائنس وٹیکنالوجی کی کرشماتی اورحیر ت انگیز کامیابیوں سے زندگیوں کو سکون وراحت تو ملا ہی ہے پر جو نقصانا ت اور فساد برپا ہوئے اس کا خمیازہ معاشر ہ اور افراد سبھی بھگت رہے ہیں ۔موبائل فونزہوں یاٹی وی اورکیبلز ،کمپیوٹر ہوں یا جدیدذرائع ابلاغ غر ض ہر ایک سائنسی ایجاد کے فوائد ہیں مگر جو نقصانا ت ہیں وہ فوائد سے بڑھ کرہیں ۔صرف موبائل فون کے نقصانات اور فوائد پر تجزیہ اوررائے لی جائے تونقصانا ت کے حق میں مثبت رائے کا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ہم میں سے ہر کوئی اس حقیقت کو دل وجان سے تسلیم کر تاہے کہ موبائل فون سے زندگیوں اورمعاشروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے ۔قوم کے ہنستے پھول اور مسکراتی کلیاں اس ناسور کی گرویدہ ہوکر خوشبودیناچھوڑ گئے ہیں ۔ محمداحمد جیسے سینکڑوں لوگ ہیں جن کے گھروں کا راحت وسکون اس ناسور کی وجہ سے غارت ہوا، سینکڑوںآدم کے بیٹے اورحواکی بیٹیاں ہیںجو اس آفت کا شکار ہوکر اپنے دامن کو تارتار وداغدارکر چکے اورکررہے ہیں ۔لیکن ہم آئے روزاقتدارکے پجاریوں کی ملک دشمن اور مفاد پرست پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں اورمصنوعی بحرانوں کے خلاف سڑکوں پر ریوڑوں کی طرح اپنے ہی ہاتھوں لگائے ہوئے چمن کو اجاڑنے میں بے فائدہ وقت اوردولت لٹاتے ہیں مگر اس ناسور اور اس کی کمانڈکرنے والوں کے خلاف بولتے ہیں نہ سوچتے ہیں اور نہ سڑکیں بلاک کرتے ہیں ۔آج تک کبھی گھنٹوں گھنٹوں کے پیکج نکالنے والوں کے خلاف کسی نے آوزتک بلندنہیں کی، کسی نے اتنے سستے ترین کال ریٹس (جو دنیاکے دیگر ملکوں میں باالکل نہیں ہیں )اورسمیں فروخت کرنے والوں کے خلاف دولت اوروقت صرف نہیں کیا۔حکمران ہوں یا سیاستدان، عدلیہ ہویا ماہر قانون دان،تاجربرادری ہو یاوکلاءبرادری،صحافی برادری ہویا قوم کے معمارتیار کرنے والے اساتذہ واہل ِادب کسی نے ان ہتھکنڈوںکو لگام دینے کے لیے کوئی خاطر خواہ سرسری و عملی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے آج آدھی سے زیادہ قوم مغرب اوراہل مغرب کی سوچ ،فکر اور ناپاک منصوبوں کواپنے ہی ہاتھوں سے پور ا کررہی ہے اور اپنی آزادی کو گروی رکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سمارہی ۔پاکستان میںدس کروڑ سے زائد افراد ان ازلی دشمنوں کے اِس مکروہ دھندے میںجکڑے ہوئے ہیں۔امیر ہویا غریب ،نوجوان ہو یا بوڑھا ،مرد ہویا عورتیں سبھی موبائلزکے سحرمیں مبتلا ہیں ۔کاروباری حضرات موبائل استعمال کریں تو سمجھ میں آتا ہے مگر طالب علم ،طالبات اور بے سمجھ بچوں کے ہاتھوں میں ان کا آنا عقل سے بالاتر ہے ۔

عید پر کچھ نہ کرنے والوں نے اچھاکام کیاتو صاحب فراست لوگوں نے بھی ان کوداد دی ۔حجام کے بیٹے ہوں یا مزدور کے ،کام اچھے توسبھی کرسکتے ہیں کیونکہ فطرت سلیمہ ہر کسی کو خدا نے دی ہے۔یقیناوہ لوگ جو ہمیشہ ملک کے باعزت افراد اور اداروں پر تنقید اور الزام دھرتے رہے انہوں نے جو بیان دیابھلے وہ کچھ دنوں اور مفاد کے لیے تھا لائق تحسین اور قابل داد ہے۔پری پیڈسمیں بندکرنے کا اعلان واقعی مسیحاکی طرف سے عقلمندی اوردانشمندی پر مبنی تھا۔تبھی کہا محترم حاصل تمنائی نے: بننے والا تھا سمًِ قاتل وہ سِم کو جب ہی تو جام کر ڈالا
محوِ حیرت ہوں کیوں مسیحا نے
عقلمندی کا کام کر ڈالا

پری پیڈ سمیں بند کرنے کے جہاں فائد ے ہیں وہیں نقصانات بھی ہیں لیکن یہ سچ ہے چاہے کسی کو کڑو ا کیو ں نہ لگے کہ حکومت کا یہ اقدام معاشرے کی اصلاح میں ممد ومعاون ہوگا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ملک کے 90 فیصد افراد پری پیڈ کنکشن استعمال کرتے ہیںاورپوسٹ پیڈکنکشن سے غریب کی غربت میں اضافہ ہوگا مگر ا س حقیقت کونظر انداز کرنا بھی نا انصافی ہوگی کہ ملک میں سب سے زیادہ بگاڑ و فساد،جھوٹ ،بد امنی ،لڑائی جھگڑے ،بے راہ روی اور جنسی تسکین کے لیے اسباب بھی انہی کنکشن کے ذریعہ فراہم ہوتے ہیں اورذریعہ بھی یہی سمیں بنتی ہیں ۔ حکومت نے صرف دہشت گردی کے پہلو کو مدِ نظررکھتے ہوئے یہ اعلان کیاتھا لیکن اس کے علاوہ بہت سے ایسے پہلو ہیں جو اس اعلان بلکہ اس کے عملی نفاذ کے لیے ناگزیرہیں،کیونکہ نوجوان جو قوم کا سرمایہ ہیںجن کے سہارے ملک کی عمارت کھڑی ہے، جن کے افکار اور سوچ سے یہ وطن ترقی کرسکتاہے ،اَن گنت مسائل سے چھٹکارا مل سکتاہے قوم کے اس سرمایہ کویہ ”گھن “سب سے زیادہ کھوکھلا کر رہاہے ۔اس کے علاوہ محمد احمد جیسے ہنستے مسکراتے چمنستانوں کواجڑنے سے بچانے کے لیے بھی اس اقدام واعلان کاعملی نفاذ وقت کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن !درد رکھنے والوں کی دردمند آواز سنے تو کون سنے؟افسوس صد افسوس! جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں اس وقت تک ہمارے عزائم اور حوصلوں کو ماندکرنے والی یہ خبرپھیل چکی ہے ”کہ صرف غیرقانونی سمیںبند کی جائیں گی “اوریہ خبر ا پنے پیچھے یہ پیغام چھوڑگئی کہ محترم ابن ِ حجام کے منہ سے نکلے ہوئے پھول استروںکے وار سے زیادہ تیزہیں اور ان پھولوں سے مہک کی بجائے ناامیدی اورمفادپرستی کی بو آتی ہے ۔خبردار!نہیں ہے دور اندیش وہ جو اس زبان سے جاری ہونے والے کلمات پر بے دھڑک اور اندھا اعتماد کرلے کیوںکہ ان لوتھڑوں پر اعتبار کرنا خام خیالی اور خیالی پلاﺅ سے کم نہیں ہے۔

اب وقت ہے جاگنے کا ،قوم کو سدھارنے کا،یہ فیصلہ اب ہم نے کرنا ہے کہ ہم محمد احمد جیسے کتنے چمنستانوں کی آبیاری کرتے ہیں ،کتنے گھروں کو اجڑنے سے بچاتے ہیں ؟یہ ذمہ داری بھی ہم پر ہے کہ ہم قوم کے اس سرمایہ کو دیمک سے بچاتے ہیں یا ان دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.