قلم میں بڑی طاقت ہے ۔یہی سوچ کر
مجھے بھی کالم لکھنے کا شوق ہوگیا مگر لکھنے سے ڈرتا تھا کہ کہیں کوئی غلطی
کر دی تو میرا مذاق نہ بنے۔ یہی سوچ رہا تھاکہ اتنے میں لائٹ آگئی اور میں
نے اپنا پی سی آن کیا اور فیس بک کھولا ۔ میری نظرفیس بک پر پاکستان کے
نامور کالم نویس اور اخبار کے چیف ایڈیٹرپر پڑی جنہوں نے شاید غلطی سے مجھے
ایڈ (Add)کرلیاتھا۔ وہ فیس بک پر آن لائن تھے میں نے ان سے سلام دعا کی ۔اس
کے بعد ان کے سامنے اپناموقف کھل کر پیش کیا ۔ میں نے ان کو بتایا کہ مجھے
لکھنے کا شوق ہے اور میںنے ایک کالم لکھا ہے برائے مہربانی اسے چیک کردیں
کہ آیا یہ کسی اخبار یا آن لائن نیوز پیپر کے مطابق ہے کہ نہیں؟ انہوں نے
مجھے جواب دیا کہ مجھے میل کردیں۔ میں نے وہ کالم ان موصوف کومیل کردیا اس
کے بعد میں انتظار کرتارہا کہ شاید وہ چیک کرکے مجھے واپس میل کریںمگر ایسا
نہ ہوا ۔ اس کے بعد میں صبح ، دوپہر اور شام آن لائن رہتا کہ شاید ان سے
ملاقات ہواور میں پوچھو ان سے مگر وہ سب بے سود رہا۔آخر تنگ آکر اپنے بڑے
بھائی کو چیک کرایا جو کہ اکثر اخبارات اور رسائل میں لکھتے رہتے تھے کہ
میں کالم لکھنا چاہتا ہوں میرا کالم دیکھ لیں ۔ انہوں نے کالم چیک کیا، کچھ
ایڈیٹنگ کر کے مجھے دیا اور میری بڑی حوصلہ افزائی کی ۔ میں نے اللہ کا نام
لیکر اس کو نیوز پیپر اور دو آن لائن نیوز پیپرز کو بھیج دیا۔ جب میرا کالم
شائع ہوا تو مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میرا کالم بھی اخبار میں چھپ گیاہے۔ مگر
مجھے اس سے زیادہ دکھ اس وقت ہوا جب موصوف سے فیس بک پر بات ہوئی ۔میں نے
ان کو سلام کیا انہوں نے جواب دیا اس کے بعد تو انہوں نے میرے کسی بھی سوال
کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔
اس کے بعد میں نے باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کردیے ۔ اب میری کوشش تھی کہ
میں کسی کالمسٹ یونین، کونسل ، کلب یا ایسوسی ایشن میں ممبرشپ حاصل کروں۔
اس کوشش میں میرا کئی لوگوں سے رابطہ ہوا مگر ان کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے
کوئی ماں اپنے سوتیلے بچوں سے کرتی ہے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی جونیئر
کالمسٹ ان سینئر کے برابرہو۔ انہوں نے مجھ سے سوال پوچھے کہ کون سے
نیوزپیپر میں لکھتے ہو ؟ جس پیپر کا نام لیں اس کو ہی چھوٹا اخبار بول دیتے
۔ میں بہت مایوس ہوا ۔ اس دوران اتنا ضرور تھا کہ میرے چند کالم نویسوں کے
ساتھ تعلقات بن گئے تھے مگر وہ کالم نویس نئے لکھنے والوں کے ساتھ شفقت سے
پیش آتے تھے۔ان میں وہ تعصب نہیں تھاجو شروع میں مذکور سینئرز میں تھا اور
جو صرف اپنے آپ کو پاکستان کے نمبر 1کالمسٹ سمجھتے ہیں۔جن سینئر کالمسٹ کا
میں ذکر کر رہا ہوں وہ واقعی پاکستان کے مشہور ومعروف پیپر ز میں لکھتے ہیں۔
پھر یوں بھی ہوا کہ میرے کالم زرد صحافت کی نظر ہونے لگے ۔ چند اخبارکے
ایڈیٹرز نے میرے کالم چرا کر اپنے نام سے لگا دیے تو کسی نے ایدیٹر کی ڈاک
میں پرنٹ کردیے۔جب ان سے گلہ کیا تو بولے یہ آئی ٹی بوائے کی غلطی سے ہو
جاتا ہے لیکن غلطی وہ جوایک بار ہو اور جو بار بار ہو وہ غلطی نہیں بلکہ
شرارت ہے ۔
میں نے یہ بات جب اپنے دوست نما بھائی فیصل علوی سے کی تو انہوں نے مشورہ
دیا کہ ہمیں اپنے تحفظات کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا چاہیے ۔ میں
نے انہیں بتایاکہ میں کافی کالمسٹ گروپس میں شامل ہونے کی کوشش کرچکا ہوں
لیکن ان کا رویہ میرے لیے ناقابل برداشت ہے ۔پھرعلوی بھائی نے چند دن بعد
مجھے فون کیا اورپوچھا کہ کیوں نا ہم خود کالمسٹ کی ایسوسی ایشن بنالیں
تاکہ ہم کسی کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کا باعث بنیں ؟ انہوں نے
”کالمسٹ کونسل آف پاکستان “کے نام کی تجویز دی ۔ اور اس کا چیئر مین کا
حقدار غازی شاہد رضا علوی کو بنا یا گیا پھر اس سلسلے میں سب سے پہلے میں
نے اپنے محسن دوست امتیاز علی شاکر سے رابطہ کیا تو انہوںنے کہا کہ یہ ایک
انقلابی قدم ہوگا۔ باہمی مشاورت کے بعد ینگ کالم نویسوں میںسینئر کالمسٹ
ایم اے تبسم سے رابطہ کیا اوراس کے بعدکالمسٹ کونسل آف پاکستان کے چیئر مین
غازی شاہد رضا علوی کی مشاورت سے مرکزی باڈی کا اعلان کردیا۔جس کے چیئر مین
غازی شاہد رضا علوی ،ایم اے تبسم ا صدر ،عقیل خان سینئر نائب صدر ،امیتاز
شاکر نائب صدر ، فیصل علوی جنرل سیکرٹری ، وسیم نذر چیئر مین ایکشن کمیٹی
،ذیشان انصاری انفارمیشن سیکرٹری ، ساحر قریشی کو فنانس سیکرٹری اور
پروفیسر رفعت مظہر کو خواتین ونگ کا صدر نامزدکردیا گیا۔ الحمد للہ ان
لوگوںکی انتھک محنت اور کوششوں سے آج کالمسٹ کونسل آف پاکستان کی جڑیں
پاکستان کے قریہ قریہ ، شہر شہر میں پھیل چکی ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ اب
اس کی انٹرنیشنل باڈی بھی تشکیل دی جا چکی ہے جس کے صدر کفایت حسین کھوکھر
(یو اے ای)اور جنرل سیکرٹری اکرم اعوان(سعودی عرب)ہیں۔ ان کی محنت سے اب
بیرون ممالک کے کالمسٹ سی سی پی کو جوائن کررہے ہیں۔
اس کالمسٹ کونسل کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کسی سیاسی جماعت یا وڈیرہ کی
پابند نہیں۔ اس کے اغراض و مقاصد میں سب سے پہلے اپنے نئے لکھنے والوں کی
حوصلہ افزائی کرنا اور ان کی مدد کرناہے ،ان کی حوصلہ شکنی نہیں ۔ اس کے
ساتھ ساتھ یہ نہ صر ف معاشرتی برائیوں کو ہدف تنقید بناتی ہے بلکہ خوبیوں
کو بھی اجاگر کرتی ہے ۔ تنقید برائے تنقید نہیں کرتے بلکہ تعمیری تنقید
کرتے ہیں۔ آج کالمسٹ کونسل کے ممبران کے پاکستان کے تمام اخباروں میں کالم
شائع ہورہے ہیں۔ ان کا نصب العین پیسہ نہیں بلکہ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی
ہے۔ کالمسٹ کونسل میں مکمل جمہوریت ہے ۔ان کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں
اور نہ ہی کسی کا ذاتی ایجنڈا ہے ۔ آج سی سی پی کا ہر ممبر اپنے اپنے علاقے
کی ناسور برائیوں کی نشاندہی اپنے قلم کی طاقت سے کرکے حاکم وقت کو بتاتا
ہے۔
اصل فیصلہ توقارئین کے ہاتھ میں ہے کہ وہ بتائیں کہ کالمسٹ کونسل اپنے ملک
اور عوام کی خدمت کرر ہی ہے یاوہ خدمت کررہے ہیں جو پیسے کی خاطروطن دشمن
لوگوںکی زبان بولتے ہیں۔ ملک کی عزت داؤ پر لگاتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ اللہ
تعالیٰ اس کونسل میں شامل اورنئے شامل ہونے والے لوگوں کو ملک و قوم کی
ترقی کے لیے حق کی بات لکھنے کی توفیق دے (آمین)- |