کان میں اچانک ڈگ ڈگ کی آوازآنے
پر میں نے اِدھر ادھر دیکھا تو سامنے ایک طرف ہجوم سا نظر آیا ڈگ ڈگی کی
آواز کے ساتھ میں ہجوم کی جانب بڑھنے لگا اورقریب پہنچنے پر دیکھا تو پتا
چلا کہ مداری بندر کا تماشہ دکھا رہا ہے ۔ جسے دیکھ کر بچے تو بچے بڑے بھی
کافی لطف اندوز ہورہے ہیں ۔مداری بڑی ذہانت و مہارت کے ساتھ بندر کو
سیکھائے ہوئے کرتب لوگوں کو دکھا کر سب سے اپنی داد وصول کررہا تھا۔میں یہ
سب بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور بندر کو دیکھ کر حیرت زدہ تھا کہ کس طرح
ایک بندر اپنے مالک کے ایک اشارے پر وہ سب کچھ کرنے کو تیا رتھا جس سے وہ
شائقین کو خوش کر کے اپنے مالک کے لئے روزی روٹی کا بندوبست کر سکے۔لیکن
پھر سوچا شاید اسی طرح جیسے اس ملک کی عوام اپنے خود ساختہ بنائے ہوئے آقاﺅں
کے لئے روزی روٹی کا ذریعہ بنتے ہیں اور ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں بغیر اس
کی پرواہ کئے کہ یہ صیح ہے یا غلط ۔ اگر وہ بولیں دن تو دن ہے اگر وہ بولیں
رات تو رات ہے بھلے دل اس بات سے اختلاف رکھتا ہو لیکن اپنے لیڈر کی بات کو
آسمانی صحیفہ سمجھتے ہوئے اسکو من و عن تسلیم کرنا ہے ۔ میں ابھی انہی
سوچوں میں گم تھا کہ تماشہ ختم ہو گیا۔ تماشہ ختم ہونے کے بعد مداری نے
اپنا سامان سمیٹنا شروع کیاجو کہ چند منٹوں میں اچھی خاصی دھاڑی لگا چکا
تھا ۔ہجوم ختم ہوا تومیں مداری کے قریب گیا اور اسے مخاطب کر تے ہوئے بولا
تمھا رابندر کافی سمجھدار ہے تمھاری اچھی کمائی ہوجاتی ہے اس سے ۔ مداری
میری اس بات پر مسکرایا اور بولا سمجھدار نہیں سادہ ہے جناب تب ہی تو ہمارے
لیے روزی روٹی کا ذریعہ ہے جس دن اس کی سمجھدانی میں سمجھ آگئی اُس دن یہ
خود کمائے گا اور ہمیں نچائے گا یہ کہے کر وہ مجھے گھورتا ہوا ڈگ ڈگی بجاتا
آگے کی طرف چلتا بنا۔میں اسکی یہ بات سن کر حیران رہے گیا اور سوچنے لگا اس
کا دماغ تو بالکل اس ملک کے سیاست دانوں کی طرح چلتا ہے۔ جو اپنی قوم سے
اتنے مخلص ہیں کہ وہ اس ملک کو پتھروں کے دور میں نہیں لے جانا چاہتے بلکہ
ایک جدیدترقی یافتہ دور میں لے جانے کے خواں ہیں بھلے اس جدید ترقی یافتہ
دور میں بجلی نہیں ہے تو کیا ہوا پانی نہیں ہے تو کیا ہواگیس نہیں تو کیا
ہوا ہم رہے لیں گے ہمیں تو اب انکا عادی ہوجانا چاہیے65 سالہ تجربہ کیا کم
ہوتا ہے۔اگر سی این جی / پیٹرول نہیں ہمارے ملک میں توایسی کون سی قیامت
آجانی ہے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے یہ چیزیں کب تھیں تب بھی تو لوگ جی رہے
تھے ۔ہمارے حکمرانوں نے ہمیں پتھر کے دور میں جانے سے تو بچالیا سوچیں اگر
ہم پتھروں کے دور چلے جاتے تو کیا ہوتا ہمارا ۔۔ہم کس طرح اپنی زندگی
گزارتے یہ توبھلاہو ہمارے سیاستدانوں کا کہ انھوں نے ہمیں پتھروں کے دور
میں جانے سے بچالیا ۔آج ہم ایک ترقی یافتہ ملک میں نہ سہی کم ازکم ترقی
یافتہ دور میںتوجی رہے ہیں ۔آج ہم ایٹمی طاقت ہیں کوئی ہماری سرحدوں کو
چھوکر تو دیکھے ہاں یہ الگ بات ہے کہ محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ ہمارے
حکمراں محبت میں سب کچھ جائز سمجھ بیٹھے ہیں اور انکے آقا جنگ میں سب کچھ
جائز سمجھ بیٹھے ہیں اور اس طرح محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے کا محاورہ
اس قوم پر فٹ کر کے جو کھیل کھیلا جارہا ہے اس کے نتائج قوموں پر کیا ہونگے
کسی کو کچھ فکر نہیں۔ویسے سیاست دان بھی کیا کریں ہماری عوام کے ہی حال
نہیں ہیں 65 سالوں سے آمریت زدہ ذہنوں میں جمہوریت ڈھونڈتے آرہے ہیں ملک کی
ترقی خوشحالی ڈھونڈتے آرہے ہیں اور سچ پوچھیں تو اپنے آپ کو مصیبت زدہ کہنے
والی یہ قوم آج بھی انہی کی متلاشی نظر آتی ہے۔
آزمائے ہوﺅں کو پھر آزمانے کا جی چاہتا ہے....
دل اپنا پھر جلانے کو جی چاہتا ہے
کھیلتے رہے ہیں جو تقدیرسے ہماری
انہی سے دل بھیلانے کو جی چاہتا ہے
بیت گیا عرصہ صدیاں بھی بیت جائیں گی
کہے لو جس کوجو کہنے کا جی چاہتا ہے
کبھی میں سوچتا ہوں ہم کب بڑے ہونگے
اب تو وقت کا بھی ختم ہونے کو جی چاہتا ہے۔ |