رمشاء مسیح کیس ....حقائق کیا ہیں ؟

اسلام آباد کے نواحی علاقے میرا جعفر کارمشاءمسیح کیس وقت کے ساتھ ساتھ ایک انٹرنیشنل ایشو بن گیا ہے ۔ یہ کیس وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا جا رہا ہے اور اس وقت اس نے بالکل ایک نئی صورتحال اختیار کر لی ہے ۔ اس معاملے میں دجالی میڈیا کی طرف سے پیش کی جانے والی خبروں اور رپورٹس کے ذریعے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو چکا اس لیے ہم نے اس واقعہ کی حقیقت اور اصلیت جاننے کی ٹھانی اور فیض محمد ،شہزاد عباسی ،تنویر اعوان اورعاشق الٰہی پر مشتمل ایک ٹیم کی شکل میں اس اسلام آباد کے نواح میں واقع میرا جعفر جا پہنچے ۔میرا جعفر کے مقیم بہت خوفزدہ تھے اورابتداءوہ اس حوالے سے قطعی لاعلمی کا اظہار کر رہے تھے اور اس موضوع پر بات کرنے کے لیے آمادہ ہی نہیں تھے لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے بولنا شروع کیااور بہت سے بکھرے ہوئے سچ سامنے آنے لگے ۔

ہوا یوں کہ میرا جعفر کی مسجد کے بالکل قریب واقع ایک کھلی جگہ میں اٹھارہ سوال نوجوان لڑکی رمشاءمسیح نے قرآنی قاعدے کے اوراق نذر آتش کیے ۔ان اوراق کو جلتا دیکھ کر آہستہ آہستہ لوگ جمع ہوئے ،معاملہ قریبی مسجد کے امام خالد جدون اور معززین علاقہ تک پہنچا ،رفتہ رفتہ لوگ جمع ہو گئے،جن میں بچے بڑے اور مرد عورتیں سب شامل تھے ۔رمشاءمسیح کے اہل خانہ بالخصوص اس کی ماں نے لوگوں سے معافیاں مانگنا شروع کردیں کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے اسے معاف کر دیا جائے اس موقع پر رمشاءاور اس کی ماں سمیت کسی نے بھی انکار نہیں کیا کہ رمشاءنے یہ حرکت نہیں کی ۔اس طرح کے مواقع پر عمومالوگ جذبات قابو میں نہیں رکھ سکتے اور اگر خدانخواستہ کسی پر اس قسم کی حرکت کا جھوٹا الزام بھی لگا دیا جائے تو اس کو جان سے مار ڈالا جاتا ہے یا زد وکوب کیا جاتا ہے اور بدترین تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے جبکہ یہاں تو رمشاءمسیح نے سرعام مقدس اوراق نذرآتش کیے تھے،وہ اس کے ماں تسلیم کر رہے تھے کہ ان سے یہ غلطی ہوئی ہے اس کے باوجودمیر اجعفرکے مکینوں میں سے کسی نے اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا، کسی نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا ۔ اس کا تما م تر کریڈیٹ خالد جدون کو جاتا ہے جس کے پاس منبر ومحراب بھی تھا ،مسجد کا لاوڈسپیکر بھی تھا ،لوگوں میںاس کا اثرورسوخ بھی تھا لیکن اس نے” پکڑو ! مارو! جلاو !“ قسم کا کوئی آرڈر جاری نہیں کیا ۔کسی نے رمشاءمسیح یا اس کے گھرانے پر ہاتھ تک نہیں اٹھایا ،کسی نے اس کو گالی تک نہیں دی ،کسی نے قانون ہاتھ میں نہیں لیااور نہ ہی لوگ کسی قسم کی زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ انہوں نے فوری طور پر یہ معاملہ پولیس کے نوٹس میں لایا،رمشاءمسیح اور شہید مقدس اوراق پولیس کے حوالے کیے اور بال پولیس اور پاکستانی عدلیہ کے کورٹ میں ڈال دی ۔اس کے بعد پولیس اور عدلیہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے میں کیا کرتے ہیں ؟اس پر کیا ایکشن لیتے ہیں ؟س کے بارے میں کیا تحقیقات کرتے ہیں ؟یہ سوال بھی پولیس سے متعلق ہے کہ رمشاءمسیح ایک بچی تھی یا لڑکی ؟وہ کمسن تھی یا نوجوان ؟اس کا دماغی توازن درست تھا یا نہیں ؟اور ان اوراق کی حیثیت کیا تھی؟ کیا قرآنی قاعدہ قرآنی آیات کے مجموعے کا نام ہوتا ہے یا محض عربی کے بے ترتیب حروف کا ؟اس سوال کا جواب اہل علم سے معلوم کر کے ان کی رائے لے لی جاتی ۔اگر سچ مچ رمشاءکمسن اورنابالغ ثابت ہو جاتی ،اس کا دماغی توازن درست نہ ہونے کے شواہد مل جاتے ،اہل علم ان اوراق کو قرآنی آیات کے اوراق نہ مانتے تب تو قصہ ہی ختم ہو جاتا اوراگر ایسا کچھ نہ ہوتا تو رمشاءمسیح کے خلاف قانون کے مطابق فیصلہ ہوتا لیکن یہاں کیسا قانون ؟کون ساضابطہ ؟ کس قسم کی غیر جانبدرانہ تحقیقات ؟یہاں جب بھی اس قسم کا واقعہ رونما ہوتا تو ایک جذباتی سا ماحول بن جاتا ہے۔ہر طرف سے بے پر کی اڑائی جاتی ہیں ،جب بھی اس قسم کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار کمر بستہ ہو کر میدان عمل میں کود پڑتے ہیں ۔شیخوپورہ کی آسیہ ہو یاجنوبی پنجاب کی مختاراں مائی ....رمشاءمسیح ہو یا سوات میں تراشی گئی کوڑوں کی کہانی کی کردار” مظلومہ ‘ ‘.... مغرب کی پروردہ این جی اوز کے لیے یہ سب سونے کی چڑیاں ثابت ہوتی ہیں ،وہ اس موقع کو اپنا حق نمک ادا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ڈالرز چھنکنے لگتے ہیں اور” برداشت برداشت“ کی مالا جپنے والے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔رمشاءمسیح کیس ہی لے لیجیے اس کیس میں این جی اوز کی کٹ پتلیوں سے لے کر ان کے پشت پناہوں تک سب نے آسمان سر پر اٹھا لیااور دجالی میڈیا نے اس معاملے میں جھوٹ کی تجارت شروع کر دی۔ اس معاملے میں کوئی مذہبی شخصیت فریق بنی ، نہ کسی مذہبی جماعت نے جلوس نکالا جب کہ دوسری طرف ”روشن خیالوں“ ،برداشت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والوں ،اور صرف مختاراں مائیوں ،آسیاؤں اور رمشاؤں کے حقوق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔جب اس معاملے پر بہت پریشر پڑا ،بہت شور وغل ہو ا تو انصاف ،غیر جانبداری ،تحقیقات سب کچھ پس منظر میں چلا گیا اور ایک ایسا ماحول بنا دیا گیا جس کی وجہ سے منظر نامہ ہی بدل گیا ۔

اسی دوران حیرت انگیز طور پر حافظ زبیر نامی ایک شخص اس معاملے میں داخل ہوا اور اس نے امام مسجد خالد جدون سے انتقام لینے کی ٹھانی ۔ہم میرا جعفرمیں حافظ زبیر سے ملنا چاہتے تھے لیکن زبیر نہ مل سکا ،ہم نے اہل علاقہ سے معلوم کیا تو انہوں نے بعض چشم کشاءانکشافات کیے ۔ان میں سے سب زیادہ قابل ذکر بات یہ تھی کہ حافظ زبیر کی خالد جدون سے پہلے ہی کوئی کھٹ پٹ چل رہی تھی۔ اس نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے خالد جدون کو سبق سکھانے کی کوشش کی ۔اس کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ مسئلہ اس حد تک چلا جائے گا ۔ان کی اندر ہی اندر جو تلخیاں اور جھگڑے تھے ان کے تصفیے کے لیے مستال شریف والے پیر صاحب تشریف لائے ان کے سامنے یہ بات آئی کہ خالد جدون اور زبیر کے مابین نزاع اس وقت شروع ہوا جب زبیر نے نکاح کی فیس ففٹی ففٹی کرنے کا تقاضا کیا جسے خالد جدون نے رد کر دیا۔چنانچہ کافی بحث مباحثے کے بعد پیر صاحب نے بظاہر یہ معاملہ رفع دفع کر دیا لیکن پھر نجانے کب اور کیسے زبیر کس کے ہاتھ چڑھا اورمعاملہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ؟

میرا جعفر میں سروے کے دوران ہماری نظر ایک” مولوی صاحب“ پر پڑی ۔ہم نے انہیں دور سے آواز دے کر روکا۔ اس واقعے پر بات کرنا چاہی تو وہ جل دے گئے اور انہوں نے قطعی طور پر لاعلمی کا اظہا ر کیا۔وہ ہم سے رخصت ہو کر جب دور چلے گئے تو محلے کے کچھ لڑکوں نے بتایا کہ یہ اس مسجد کے سابق امام ہیں جو پندرہ بیس سال یہاں امام رہے اورحافظ زبیر ان کا شاگرد ہے ۔ہم نے بڑی مشکل سے میراجعفر کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں سے سراج الدین نامی ان مولوی صاحب کو ڈھونڈ نکالا جو اس مسجد کے سابق امام تھے اور حافظ زبیر نے جن کے پاس حفظ کیا تھا ۔ہم انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے الفاظ کے تانے بانے بھی بنتے رہے جن کے ذریعے انہیں کوئی بات کرنے پر آمادہ کر سکیں چنانچہ جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی تو ہم نے انہیں مانوس کرنے کے لیے ایسی باتیں کیں اور ایسا دوستانہ انداز اختیار کیا کہ وہ ہم سے بات کرنے پر آمادہ ہو گئے ۔ انہوں نے اپنی بات کا آغاز ہی یہاں سے کیا کہ ”جو اپنے استاذ کا نہیں وہ کسی کا نہیں “پھر انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ حافظ زبیر نامی وہ شخص کس قبیل کا آدمی ہے ؟میرا جعفر کی مسجد کے سابق امام سراج الدین نے بتایا کہ زبیر نے خالد جدون کو مجھ سے میل ملاقات تک سے روکنے کی کوشش کی تھی اور یہی وہ ناخلف شخص ہے جس کی وجہ سے پندرہ بیس سال اس مسجد میں خدمات سرانجام دینے کے باوجود نہ صرف یہ کہ مجھے مسجد سے بے دخل کر دیا گیا بلکہ یہاں پر قائم مدرسہ بھی بند کر دیا گیا جس سے اس نے حفظ مکمل کیا تھا ؟ان کا سوال تھا کہ زبیرکے نام کے ساتھ لگے ہوئیے لفظ حافظ کی طرف نہ جائیں بلکہ اس کے بارے میںصرف یہ تحقیق کر لی جائے کہ اس کے مشاغل اور ذرائع آمد ن کیا ہیں ؟

ہم نے میرا جعفر کے لوگوں کو عجیب خوف وہراس کے عالم میں پایا ،وہ ابتداءمیں تو اس موضوع پر بات کرنے سے گھبرا رہے تھے اور سچی بات یہ ہے صرف ایک زبیر نہیں جس انداز سے اس بستی کے لوگوں کے سامنے خالد جدون کو نشان عبرت بنایا گیا اور جس انداز سے پولیس کے ”سلطان راہی“ آکر اس گاؤں میں بڑھکیں لگاتے اور میڈیا والے جس قسم کی عدالتیں لگاتے ہیں ، رنگ برنگے گوروں اور این جی اوز کے لوگوں نے جس طرح اس گاؤں پر یلغار کر رکھی ہے اب اس گاؤں والوں سے کچھ بھی کہلایا جا سکتا ہے لیکن اگر تسلی اور اہتمام سے تحقیق کی جائے اور سچ جانے کی کوشش کی جائے تو رفتہ رفتہ وہی لوگ کھلتے ہیں اور سارے سچ بولتے چلے جاتے ہیں ۔

میرا جعفر کے مکین بار بار ایک ہی سوال دہراتے ہیں کہ رمشاءمسیح کی اصلی اور موجودہ تصویر کیوں نہیں دکھائی جا رہی وہ ایک نوجوان لڑکی ہے لیکن اسے مسلسل ایک بچی کے روپ میں کیوں پیش کیا جا رہا ہے ؟....ا ن کا دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ اٹھارہ انیس سال کی جوان لڑکی ہے لیکن اس کی عمر کے بارے میں مسلسل جھوٹ کیوں بولا جا رہا ہے؟....اس کے علاوہ بھی اس معاملے میں کچھ سوالات ہیں مثلاً اس معاملے کا تیسرا سوال یہ ہے کہ اس لڑکی کا اگر دماغی توازن درست نہیں تو اس نے کبھی تو اس بستی میں پاگلوں والی کوئی حرکت کی ہوتی ،کسی کو پتھر مارا ہوتا ،گھر میں چیخ وپکار کی ہوتی ،اپنا گریبان چاک کیا ہوتا لیکن ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوااور قرآن کریم کے اوراق اس کا ہدف کیوں بنے؟.... اس قضیے کا چوتھا سوال یہ ہے کہ رمشاءمسیح ایک کرسچن لڑکی ہے اس کے گھر میں ظاہر ہے کہ بائبل یا نصرانیت سے متعلق کوئی اور مقدس اوراق ہوں گے اس نے ان میں سے کوئی چیز نذر آتش کیوں نہ کی قرآنی اوراق ہی کو کیوں جلایا ؟....اس کیس کے حوالے سے پانچواں سوال یہ ہے کہ جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت رمشاء کی ماں اور تمام اہل ِخانہ نے کیوں اس کا جرم تسلیم کر کے سب گاؤں والوں سے معافی مانگی،جب رمشاءاور اس کا پورا خاندان اس کی جرم تسلیم کرتے رہے تو آج اس کا سارا ملبہ کالد جدون پر کیوں ڈالا جا رہا ہے اور رمشاءکو بے گناہ اور بے قصور ثابت کرنے کی سعی کیوں ہو رہی ہے ؟.... چھٹا سوال یہ ہے کہ اس وقت مسجد میں صرف زبیر ہی نہیں بلکہ چھے سات دیگر لوگ بھی اعتکاف بیٹھے تھے جن میں سے بعض سے ہم نے ملاقات بھی کی وہ سب وہی کہانی کیوں بیان نہیں کر رہے جو زبیر بیان کر رہا ہے؟ ....ساتواں سوال یہ ہے اس گاو ¿ں میں کرسچن برسوں سے مقیم تھے لیکن آج تک کسی مسلمان نے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی اب رمشاءکیس کی آڑ میں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کا ڈھنڈورہ کیوں پیٹاجا رہا ہے ؟....آٹھواں سوال یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات میں پولیس اور عدلیہ کو آزادانہ ،منصفانہ اور غیر جاندرانہ فیصلوں اور تحقیق وتفتیش کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی اور ایک طوفان کیوں برپا ہو جاتاہے جس کی وجہ سے پریشر میں آکر فیصلے کیے جاتے ہیںاور ملزم یا ملزمہ کو بچانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟....نواں سوال یہ ہے کہ ایسے تمام لوگ جو این جی اوز کے ملازم یا مہرے ہیں وہی کیوں اس قسم کے معاملات میں اچھل کود کرنے لگتے ہیں اور برساتی مینڈکوں کی طرح اچانک کہاں سے نمودار ہو جاتے ہیں ؟....دسواں سوال یہ ہے کہ اسلام پر قائم ہونے والے اس ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے نام پر مسلم اکثریت کو مسلسل پریشاں اور ہراساں کرنے کا سلسلہ کیوں جاری ہے اور پتھر باندھ کر کتوں کو کیوں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے؟

یاد رہے کہ اس سارے معاملے میں کسی کا بھی مقصود نہیں کہ رمشاءمسیح کو ہر قیمت پر قصور وار ٹھہرایا جائے یا اس کو سزا دی جائے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہر قسم کے پریشر اور پروپیگنڈے سے بالاتر ہو کر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروائی جائیں اور آزادانہ اور منصفانہ فیصلہ کیا جائے اور اس واقعے کی آڑ میں ایک مرتبہ پھر انسداد توہین رسالت کے قانون اورشعائر اسلام اور مقدس ہستیوں کے احترام کے ضابطوں کو ہدف تنقید بنانے سے اجتناب ہی برتا جانا چاہیے۔ امریکا سمیت بیرونی طاقتوں کی ہمارے داخلی ، اندرونی اور مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت کا سلسلہ بند ہونا چاہیے اوراین جی اوز کی بے لگام بیگمات کو اس قدر کھل کھیلنے کا موقع بہر حال نہیں ملنا چاہیے خصوصاً مذہبی جماعتوں اور شخصیات کو اپنی بے حسی اور غفلت پر کچھ تو غور کرنا چاہیے....کہیں ایسا نہ ہو کہ لمحوں کی خطاؤں کی صدیوں سزا بھگتنی پڑے۔
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 10 Articles with 11544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.