انسان چاہے اُس کاتعلق کسی ذات ،رنگ
یا نسل سے ہو جب وہ بولتا ہے تبھی اُس کی شناخت اُس کے حسن ِحقیقی ،تعلیم
اور مشن کو ظاہر کرتی ہے ۔اِسی طرح جب ایک نسل اپنی دوسری نسل کو اپنا دین
،عقیدہ ،روایات،الہامی علوم ،تہذیب و تمدن،تاریخ،ثقافت و کلچر،زبان وبیان
اور اپنے ہیروز کے کارناموں کی دلچسپ اور حقیقی داستانیں سناتی اور حکایتیں
منتقل کرتی ہے تو اُس عمل کو بھی تعلیم اور مشن ہی کہا جاتا ہے ۔یہ تعلیم
دینے والا اگر دل جمعی ،باقاعدہ سوچ و بچار اور سنجیدگی سے دینے لگے تو
یقینااِس کے فوائدو ثمرات اُس کی منشاءواُمنگوں کے مطابق ہی نکلتے ہیں ۔اِس
تعلیم میں سب سے اہم رول اُستادکا ہوتا ہے ۔وقت کے ساتھ اِس استاد کی ہیئت
بھی بدلتی چلی گئی اور باقاعدہ منصوبہ بندیوں کے تحت ایسے عوامل کا چناﺅ
کیا جانے لگا جن سے تعلیم سے لے کر مشن تک کوآسانی سے پھیلایا جانے
لگا۔اپنے نظریات کے فروغ کے لئے نئے نئے طریقے اخذ کئے جانے لگے ۔انسانی
زندگی گاﺅںسے شہر تک پہنچ گئی ۔خط کی جگہ موبائل فون ،ٹیکسٹ میسج اور ای
میل نے لے لی ۔تلوار کو ٹینک ،ڈرون اور ایٹم بم نے سنبھال لیا۔اونٹون کے
سفر سے بات خلا میں پرواز کرتے بوئنگ تک جا پہنچی ۔بلکل اسی طر ح ٹاٹ پر
بیٹھ کر پڑھنے اور پڑھانے سے بات انٹرنیٹ اور آن لائن اکیڈمی تک ایک طویل
سلسلہ چل پڑھا۔
آج 6ستمبر ہیں ۔یہ دِن بحیثیت ِ مسلمان اور ایک سچا پاکستانی ہمارے لئے
انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔6اور 7ستمبر کے دِن اپنے ہیروز کو یاد کیا جاتا
ہے ۔اُن کی خوبصورت یادوں کے پردے چاک کئے جاتے ہیں۔انہیں سلام ِ عقیدت پیش
کیا جاتا ہے ۔میڈیا میں اُن ہیروز پر خصوصی پروگرام کئے جاتے ہیں ۔اخبارات
میں ایڈیٹوریل صفحات میں اُن کو خاص نمایاں کیا جاتا ہے ۔خصوصی ایڈیشن
،کالم ،مضمون اور فیچر لکھے جاتے ہیں ۔سیمنار اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں
۔ 6اور 7ستمبر یعنی اپنے ہیروکو سلام کرنے کے لئے پرگرام منعقد کئے جارہے
ہیں ۔”لیکن“ ابھی سے ایک پرائیویٹ چینل پرایک اینکرنے ایک سلجھے اور پڑھے
لکھے نوجوان اور ایک قادیانی نوازسیاستدان اور چند میراثیوں(گلوکاروں)کے
ساتھ پروگرام کیا جس میں اکثر بات پاکستان کے ہیروزپر کی گئی ۔
ایسے وقت میں یہ پروگرام کرنایقینا معنی خیز ہے ۔یہ وقت تو اُن ہیروز کو
سلام کرنے کا تھا۔بلا شبہ 6اور7ستمبر کے ہیروز سے تمام اہل اسلام اور
خصوصاً پاکستانیوں کی محبت وارادت مندی سب پر عیاں ہیں ۔کسی مراثی اور
”لنڈے“اور ”بُچے “کو یہ حق قطعاً نہیں پہنچتا کہ وہ تمام عقیدت مندوں کی
عقیدت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کوئی انحرافی پروگرام کرے ۔نہ ہی کسی ایسے
شخص کو نمائندگی اور اظہار ِ خیال کا حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ ان” مشترکہ“
قومی ہیروز کو سلامِ عقیدت کے بجائے اِن کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار ترجمان
بن کر کرے ۔ایسے وقت میں یہ پروگرام بھی کیا جاسکتا تھاکہ کہاں گئی وہ
ریاست جس میں ہمارے لوگوں نے قربایناں دے اس میں سلامتی اور استحکام کو
پامال نہیں ہونے دیا تھا ۔پاکستان کے خلاف کسی بھی نوع کی سازش کے خلاف
قربانی دے کر سدِباب کیا تھا۔شطرنجی سیاست کے جھمیلوںمیں میں قومی ہیروز کو
اپنے اپنے تماشوں ،بکھیڑوں اورشعبدوںسے دور رکھا جائے ۔قوم کے نوجوان بچوں
کے ذہنون کو منتشرکرنے کے بجائے یہ بتایا جائے کہ 6ستمبر1965کو جوش و جنون
کی چنگاریاں اُٹھیں تھیں اور انہوں نے لاہور جم خانہ میں رقص کا خواب
دیکھنے والوں کی نیندیں کو غارت کر دیا تھا۔کڑی آزمائش میں کھڑی قوم کو
اپنی صلاحیتوں سے ایمانی غیت و حمیت سے کھڑا رہنے اور نہ جھکنے کا پیغام
دیا تھا۔جن کا نام لے کر آج ہم بھی اپنا سر فخر سے بلند اور قد بڑا کرنے کی
کوشش کرتے ہیں ۔اُن شہدا کا اور 6ستمبر کا پیغام بھی یہی ہے کہ ایسے دنوں
میں گوئیوں کے بجائے قوم کے مسقبل کو دیکھتے ہوئے ماضی کے سبق سے روشناس
کرایا جائے ۔
موجودہ گورنمنٹ کو 7ستمبر کے حوالے سے خوشی سے مزیدجھومنا چاہئے کہ ان کے
ماضی میں ایک لیڈر ہی نہیں بھٹو جیسا سچا عاشق جس نے قادیانیوں کو ؑیر مسلم
اقلیت قراردلوایا تھا۔اُس دن بھٹو صاحب کی اس عظیم کاوش کو سد سلام کیا
جانا چاہئے ۔”لیکن“اِس کے برعکس اُس پروگرام میںدیگر ہیروز کے ساتھ ساتھ
بھٹو صاحب کو بھی ”ملائیت“کا” تمغہ“دیا گیا۔خوشگوار حیرت تو یہ ہوئی اُس
پروگرام میں جن جن لوگوں کے نام لئے گئے وہ خود اپنے ماضی سے تائب ہو کر
اِس حال کی زندگی پر خوش ہیں ۔جنید جمشید گلوکاری سے پرہیزگاری کے اس سفر
کو خود کے لئے ایک بہت بڑی سعادت سے کم نہیں سمجھتے مگر اِن موصوف کو اب
اُن کا یہ طرزِ مسلمانی اچھا نہیں لگتا ۔انضمام الحق کا تبلیغی بھائیوں کے
ساتھ انضمام بھی انہیں ناگوارگزرتا ہے اور وہ اس کا اظہار بڑی ”فکر مندی
“سے کر رہے تھے ۔پاکستانی قوم جیسی دوسری قوم شاید ہی کوئی ہوجو بہادر بھی
ہے مگر اپنی بد قسمتی کے فیصلے بھی خود ہی تشکیل دیتی ہے ۔یہ قوم بھی اِن
”لنڈے اور بُچے “قسم کے اینکروں سے امید وابستہ کرتی ہے کہ یہ ہمارے قومی
ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کریں گے ۔
عقابوں کی طرح چمگادڑوں کا بھی ایک جہان و پرواز ہے ۔کوئی اندھیرے میں شمع
سے نفرت تو کوئی اپنے طاق میں شمع جلائے رکھتا ہے ۔کوئی حدی اور مرثیہ خواں
ہوتاہے ۔کوئی فساد کے اندھیرے میں خوش توکسی کو بلا کااعتماد اور سحر کی
امید ہوتی ہے ۔کوئی شب کی تاریکی کا کتناہی حکمران کیوں نہ بنا رہے مگر
دیکھا گیا ہے کہ صبح کاذب سے صبح صادق کا نور پھوٹتا ہے ۔شاید محشر
بدایوانی نے اسی لئے کہا تھا ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہو گی ،وہ دیا رہ جائے گا |