ناوابستہ تحریک کی تہران کانفرنس

26تا 31اگست 2012 کو تہران میں ”ناوابستہ تحریک کی 16ویں چوٹی کانفرنس “ عنوان سے ایک روائتی بین اقوامی سیاسی میلہ کا انعقاد ہواجس میں 120ممالک نے شرکت کی۔ 24ممالک کے صدور، 3شاہان مملکت ، 8وزرائے اعظم اور 50ممالک کے وزرائے خارجہ نے اس میں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ اس تحریک کا قیام 1961میں اس وقت ہوا تھا جب دنیا سوویت یونین اور امریکا کے تحت دو خیموں میں بٹی ہوئی تھی اور ان دونوں سُپر پاورس کے درمیان ایک دوسرے کو نیچادکھانے کےلئے سرد جنگ جاری تھی۔ کشمکش کے اس ماحول میں یوگوسلاویہ کے صدر جوزف ٹیٹو کو یہ سوجھی کہ ایک بلاک ایسا بنایا جائے جو ان دونوں خیموں کے بین بین رہ کر اپنے مفادات کی نگرانی کرے۔ اس نظریہ کو ہند کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو، انڈو نیشیا کے صدر سوکارنو، گھاناکے صدر عنکرومہ اور مصر کے مطلق العنان صدر کرنل عبدالناصر کی تائید حاصل ہوگئی اور یہی پانچ ممالک اس تحریک کے اساسی رکن بنے۔ ان پانچ ممالک میں کون کتنا ناوابستہ تھا، ایک لمبی بحث ہے ،البتہ جو بات بلا ادنا تردد کہی جاسکتی ہے وہ یہ جواہر لال نہرو کے علاوہ باقی تمام لیڈروں کا مزاج اور انداز آمرانہ تھا ۔ 1991 میں سوویت یونین کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اورکمیونسٹ انقلاب کا سحر ٹوٹ جانے کے بعد یہ دنیا ایک قطبی ہوکررہ گئی اور صحیح معنوں میں ناوابستہ تحریک کی وہ بنیاد ہی معدو م ہوگئی جس پر اس کا قصر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود تحریک سے وابستہ ممالک کی لیڈروں کی ہرسال اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کو ساتھ نیویارک میں رسمی بیٹھک ہوتی ہے۔ ہر تین سال بعد چوٹی کانفرنس کا بھی انعقعاد ہوتا ہے جس کو ”سیاسی میلے“ سے زیادہ اہمیت نہیںدی جاتی۔ بالفاظ دیگرعالمی امور پر اس تحریک کا کوئی قابل ذکر اثر نظر نہیں آتا۔(اس کا ایک اساسی رکن یوگوسلاویہ خوش شکست و ریخت کا شکار ہوگیا اور کئی حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ان میں سے کوئی بھی ملک اس تحریک کا رکن نہیں ہے۔) لیکن بہر حال یہ اہمیت اپنی جگہ ہے اس کے جھنڈے تلے مختلف عالمی لیڈروں کو باہم مل بیٹھنے کا موقع مل جاتا ہے۔۔

زیر تبصرہ کانفرنس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس کا انعقادایران میں ہوا جواسلامی انقلاب کے بعد سے بیرونی سازشوں اور امریکا و اسرائیل کے نشانے پر ہے۔ کانفرنس کےلئے دارلخلافہ تہران کے بڑے حصے کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔ پانچ دن کی عام تعطیل کردی گئی اور کہیں سے سرکار مخالفوں کی ہنگامہ آرائی کی کوئی خبر نہیں آئی ۔ یہ تہران حکومت کی بڑی کامیابی ہے، ورنہ ہند کی طرح صہیونی ایجنٹ وہاں بھی کچھ کم نہیں جو قومی وقار و مفاد کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں۔ عالمی سطح پر اس کانفرنس کی بدولت ایران کو جو تشہیر زرائع ابلاغ کے ذریعہ ملی وہ اسرائیل اور امریکا کو یقینا کھٹکی ہوگی۔شاید یہی وجہ ہے کہ عالمی زرائع ابلاغ میں اس کی خبریں کچھ زیادہ نمایاں نہیں ہوئیں۔ حیرت کی بات یہ ہے انقلاب اسلامی جمہوریہ ایران کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے افتتاحی خطاب کے بڑے حصے کو عالمی میڈیا نے قرارواقعی اہمیت نہیں دی۔ وجہ اس کی سوائے اس کے اور کیا ہوگی کہ اس میں اسلام کے امن عالم اور بھائی چارے کے آفاقی پیغام کو دوہرایا گیا تھا۔ ” اسلام ہم کو یہ سکھاتا ہے کہ رنگ، نسل اور خطہ کے فرق کے باوجود سارے انسان ایک ہی فطرت پر پیدا ہوئے ہیں۔ یہ فطرت ان میں نفس کی پاکیزگی،عدل و انصاف، بھائی چارہ، باہم التفات، معاونت اور صلہ رحمی کا تقاضا کرتی ہے۔ انسان کی اس آفاقی فطرت کو اگر گمراہیوں سے بچالیا جائے تو یقینا یہ وحدانیت اور اللہ کی حقیقت کا وجدان کراتی ہے۔‘

امام محترم نے بلاتردد فرمایا،”یہ اعتقاد ایسے معاشروں کے قیام کی بنیاد بن جانے کی صلاحیت سے سرفراز ہے جو سچے معنوں میں آزاد، عزت نفس سے سرشار اور حقیقی ترقی و انصاف کی شاہ راہ پر گامزن ہوں اور یہی وہ مشترکہ اور عالمی سچائی ہے جو تمام ممالک کے درمیان اپنے تمام تر ظاہری اختلافات وفاصلوں کے باوجود قدر مشترک اور باہم تعاون کی بنیاد بن سکتی ہے۔ “ امام خامنہ ای نے فرمایا،” جب عالمی تعاون ایسی بنیاد وںپر قائم ہوگا تو ممالک کے درمیان تعلقات خوف،دھمکیوں ، لالچ، ایک طرفہ مفادات یا دھوکہ دہی پر مبنی معاہدات یا قائدین کی ذاتی اغراض پر استوار نہیں ہونگے بلکہ مشترکہ فائدے اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ انسانیت کی بنیادوں پر استوار ہونگے۔“

رہبراسلامی جمہوریہ ایران کا یہ خطاب ، جس کے چند اقتباس اجمالاً پیش کئے گئے،اس قابل ہے کہ اس پر دنیا توجہ دے۔ ان میں عالمی امن کے اس پیغام کی گونج ہے جو رحمت عالم ہادی اعظم ﷺ نے اپنے دور کے حکمرانوں کو دیا تھا۔ اس خطاب کہ اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ کسی مسجد یا بارگاہ کے ممبر سے نہیں بلکہ ایک عالمی پلیٹ فارم سے دیا گیا جس کو 120ممالک کے رہنماﺅں نے سنا۔ دور حاضر میں ایسے مواقع شاذ ہیں جب کسی مسلم رہنما نے کامل ایقان کے ساتھ کسی عالمی پلیٹ فارم سے اسلام کے آفاقی پیغام کی پکار لگائی ہو۔ ایرانی رہنما نے جس عالمی نظام کی طرف دعوت دی ہے ،دنیا کے موجودہ ایک قطبی نظام سے ، جس کے مرکز میں امریکا اوریوروپ کی سامراجی طاقتیں ہیں، سراسر مخالف ہے۔

نیوکلیائی اسلحہ حرام ہے
ایران کے رہنما نے نیوکلیائی اسلحہ پر بھی اسلام کا موقف صاف کیا۔ انہوں نے کہا اسلامی جمہوریہ ایران نیوکلیائی، کیمیائی اور اسی طرح کے اجتماعی ہلاکت خیز حربوں کا استعمال شدید اور ناقابل معافی گناہ تصور کرتا ہے۔ اسلام ہرگز اس طرح کے حربوں کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے ” مشرقی وسطٰی کو نیوکلیائی اسلحہ سے پاک خطہ“ بنانے کے اپنے نظریہ کو پھر دوہرایا، لیکن مضبوطی کے ساتھ یہ وضاحت بھی کردی کہ پر امن مقاصد کےلئے نیوکلیائی ایندھن کی پیداوار ہر ملک کا حق ہے اور ایران اپنے اس حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ یہ ایک اصولی موقف ہے مگر کیونکہ اس کی زد میں اسرائیل کا خفیہ نیوکلیائی اسلحہ کا ذخیرہ بھی آجاتا ہے اس لئے امریکا اور اس کے حلیف ممالک اس کو سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ دراصل اسرائیل ، امریکا اور اس کے حلیفوں کو موقف یہ ہے بدترین تباہ کن اسلحہ رکھنے اور بنانے کا حق صرف ان کو ہی حاصل ہے ،کسی دیگر ملک ، خصوصاً مسلم ملک کویہ حق نہیں کہ و ہ اسلحہ سازی کی صنعت میں خود کفیل ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہندستان نے کامیاب نیوکلیائی تجربہ کیا تھا تب امریکا ہندستان کے پیچھے پڑ گیا تھا اور اس پر بہت ساری پابندیاں لگادی تھیں۔ اس سچائی کے باوجود افسوس یہ ہے کہ ہند نے ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پابندیوں کی تائید کردی حالانکہ بشمول امریکا ،دنیا یہ تسلیم کرتی ہے ایران نیوکلیائی اسلحہ سازی کی صلاحیت سے برسہا برس دور ہے۔ یہاں یہ یاددہانی کرانی ہوگی کہ ایران کے خلاف امریکا اور اس کے حواریوں کی لام بندی کااصل سبب ایران کی نیوکلیائی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کا اسلامی انقلاب کے بعد امریکا کے دباﺅ کو قبول کرنے سے انکار ہے۔( ایران اگر جزوی طور سے بھی 1951 سے قبل کی اس پوزیشن کو بحال کرنے پر آمادہ ہوجائے جس میں ایران کے تیل کنووں پربرطانیہ کا تسلط تھا اور جس کو ویزر اعظم مصدق نے قومیا لیا تھا، جس کے بعد ایک سازش کے تحت ان کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، تو امریکا اور اس کے حواری ایران کی نیوکلیائی پیش رفت کا ذکر بھی نہیں کریگا۔ ساری لڑائی تیل کےلئے ہے۔ اسی لئے عراق کی جنگ ہوئی ،اسی لئے لیبیا میں تختہ پلٹ ہوا۔ ) بہر حال امام خامنہ ای نے دنیا کو یاد دلایا ہے کہ اجتماعی ہلاکت خیزی کے اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ امریکا کے پاس ہے۔ امریکا ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس نے دوسری جنگ عظیم میںاپنی شکست کو فتح میں بدلنے کےلئے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر نیوکلیائی بموں سے حملہ کرکے لاکھوں شہریوں کو موت کی نیند سلادینے کی انسانیت سوز حرکت کی تھی۔ اس کو یہ اخلاقی حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے ملک پر انگلی اٹھائے اور امن کا نقیب بنے۔

مصری صدر مرسی کی شرکت
تہران کانفرنس کی ایک اہم بات یہ رہی ہے کہ اس میں مصر کے صدر محمد مرسی نے بھی شرکت کی اور ان کو صدر احمدی نژاد نے اپنے پہلو میں جگہ دی۔تقریبا تین دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مصر کے کسی صدر نے ایران کا دورہ کیا۔ان کی تقریر پر عالمی میڈیا نے خاص طور سے اس لئے توجہ دی ہے کہ انہوں نے اپنے میزبان کے موقف کے خلاف شام کے صدرحافظ الاسد کے مخالفین کی تائید کا اعلان کیا۔ انہوں نے اسی کے ساتھ فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ بھی اظہاریگانگت کیا۔ تہران سے پہلے انہوںنے چین کا دورہ کیا۔ صدر مرسی کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی تھی کہ انکا پہلا غیر ملکی دورہ تہران کو ہوگا مگر انہوں بجا طور پر حرمین شریفین میں حاضری اور عمرے کی سعادت کو ترجیح دی اور سعودی عر ب کے شاہ ان کے پہلے غیر ملکی میزبان بنے۔ان کے اس دورے کو سیاسی طور پر بھی اہمیت دی گئی۔ تہران کے دورے سے یقینا مصر ایران رشتوں میں استواری کی راہ کھلی ہے مگر ساتھ ہی صدر مرسی نے یہ پیغام بھی دیدیا ہے کہ وہ ایک آزدانہ خارجہ پالیسی پر چلیں گے اور اپنی ترجیحات خود طے کریں گے۔البتہ انہوں نے جس وقت سعودی عرب کا دورہ کیا وہ صرف نام کے صدر تھے اور جملہ اختیارات پر سابق وزیر دفاع فیلڈ مارشل طنطاوی کی قیادت میں سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کا قبضہ تھا۔ تہران کے دورے کے وقت فوجی ٹولے کی بالادستی کا باب ختم ہوچکا ہے اورمرسی مصر کے باختیار صدر ہیں۔

وزیر اعظم ہند کے شرکت
ہندستان کیونکہ ابھرتی ہوئی ایک عالمی اقتصادی طاقت ہے اور اس تحریک کا اساسی ممبر بھی ہے اس لئے یہ مناسب ہی تھا کہ وزیر اعظم خود اس میں شریک ہوں ۔ ان کی شرکت کو زیادہ اہمیت اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ انہوں نے ایران کے صدرجناب احمدی نژاد سے دوطرفہ اور عالمی امور پر الگ سے ملاقات کی ۔ رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے بھی ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ملاقات کا موقع دیا اور اس ملاقات میں صدر احمدی نژاد خود موجود رہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایران ہند کے ساتھ اپنے رشتوں کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تبادلہ خیال مفید رہا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اور خارجہ سیکریٹری رنجن متھائی بھی تہران میں موجود تھے اور انہوں نے ایران افغانستان ہندستان مشترکہ سہ فریقی ملاقات میں اہم علاقائی ،تجارتی اور سیکیورٹی امورپر تبادلہ خیال کیا۔ یہ ملاقاتیں موجودہ عالمی پس منظر اور ایران کے خلاف امریکا کی مہم جوئی، افغانستان سے ناٹو کے انخلا کے بعد علاقائی صورت حال، ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کی جدید کاری، جس سے افغانستان کے لئے ہی نہیں بلکہ روس اور وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کےلئے ہند کے تجارت کے فروغ میں بڑی مدد ملیگی وغیرہ امور پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔اس طرح وزیر اعظم ہند کا یہ دورہ محض ناوابستہ تحریک کی چوٹی کانفرنس میں شرکت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس کی ہند کےلئے دوررس سفارتی اور تجارتی اہمیت تھی۔

ملک کے وزیراعظم کے ایسے اہم غیر ملکی دورے کے موقع پر ہونا یہ چاہئے تھا کہ اپوزیشن کی پارٹیاں بھی قومی مفاد میں ان کے ہاتھ مضبوط کرتیں، مگر افسوس کا مقام ہے ان کے اس دورے کے بھنک ملتے ہی ”قوم پرست “بھاجپا نے ”وزیراعظم استعفا دو “ کی رٹ لگانی شروع کردی ۔ہم صرف گمان ہی کرسکتے ہیں کہ اس خاص موقع پر بھاجپا کی یہ مہم کس کے اشارے پر یا کس کی خوشنودی حاصل کرنے کےلئے تھی؟ صہیونیوں سے بھاجپا لیڈروں کی قلبی دوستی کوئی راز نہیں۔ پارٹی کے لیڈر اکثر تل ابیب کا دورہ کرتے رہتے ہیں اور یہ دورہ ایک دو دن کا نہیں بلکہ ہفتوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس گمان کو اس امر واقعہ سے تقویت حاصل ہوتی ہے تہران دورے سے وزیر اعظم کی واپسی کے بعد بھاجپا کے موقف میں نرمی کے اشارے ملے ہیں، گویا گرمی خاص اس مقصد کےلئے تھی کہ دورہ تہران کے موقع پروزیر اعظم کو کمزور کیا جائے۔ لیکن یہ خوش آئند بات ہے اس سیاسی دباﺅ کے باوجودڈاکٹر سنگھ نے تہران کا دورہ کیا اور دوطرفہ رشتوں کو تقویت پہنچائی۔تہران میں انہوں نے وزیر اعظم نے پاکستان کے صدر آصف زرداری سے تبادلہ خیال کیا۔اس ملاقات میں ان کے صاحبزادے بلاول بھی موجود رہے۔ اس طرح کی ملاقاتیں یقینا مسائل کے حل اور تعلقات کی بہتری میں معاون ہوتی ہیں۔ مسٹر زرداری اس موقع پر وزیر اعظم کو دورہ پاکستان کی دعوت کا اعادہ کیا۔ ہمارا خیال ہے اگر مگر کے بجائے ڈاکٹر من موہن سنگھ کو ننکانہ صاحب اور اپنے آبائی گاﺅ ں گاہ ہو آنا چاہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.