مجموعی طور پرکائنات میں ازل سے
دو گروہ باہم مدمقابل اور صف آراچلے آرہے ہیں۔یہ دونوں گروہ اہل ِ حق اور
اہل ِباطل کے نام سے معروف اور سرگرم ہیں ۔دنیا میں جتنی تنظیمیں اور
تحریکیں مختلف ناموں کے ساتھ مختلف مقامات پر اپنے مقاصد کے حصول کی جنگ
لڑرہی ہیں یا اپنے نظریہ کی تبلیغ کررہی ہیں ان سب کی ڈوریاں ان دوگروہوں
سے باالواسطہ یا بلاواسطہ ملتی ہیں۔یہ ایسے گروہ ہیں جو مال ودولت بھی
رکھتے ہیں اور افرادی طاقت بھی ،ان کے پا س ایسے ایسے جیالے ہیں جو ایک
آواز پر پلک جھپکنے سے پہلے اپنا مال ودولت اورقیمتی جانوں کو اپنے نظریہ
اورعقیدے پر قربان کردیں ۔ان دونوں گروہوں کی سوچ ،فکر ،عمل ،نظریہ
اورعقیدے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ایک گروہ خداکا عَلم بلند کرنے کی خاطر
دعوت ِحق کا اعلان کرتاہے تو دوسر ا دنیامیں باطل کی اجارہ داری کی خاطر
زمین وآسمان ایک کردیتاہے ۔ہرگروہ اپنے نظریہ اورافکار کاپرچار مخصوص طریقہ
اورمخصوص انداز میں کرتاہے اوراپنے حلقہ احباب وپیروکاروں کو وسعت دینے کے
لیے کئی کئی جتن اٹھاتاہے ،اَن گنت مصائب اورطرح طرح کی تکالیف برداشت
کرتاہے ۔
یہ دوگروہ آج بھی اپنی مخصوص سوچ وفکراور نظریہ کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ اہل
ِباطل بڑھتی ہوئی اسلام کی حقانیت کے ہوتے ہوئے بھی اپنی تمام تر توانائیاں
اسلا م اور اسلام چاہنے والوں کے خاتمے پر اندھادھند صر ف کررہاہے ،اور اہل
ِحق باوجود تنگدستی ،تنگ حالی اورافلاس کے ان کے مذموم عزائم کو نہ صر ف نا
کارہ بنارہے ہیں بلکہ ان کی سرکوبی کی خاطر ہرجگہ اورہرطریقہ سے دلیرانہ
انداز میں مقابلہ بھی کررہے ہیں۔اسلام اوراہل اسلام کے خلاف باطل کی مکروہ
سازشیں نئی نہیں، بلکہ ہر آن اور ہرلمحے وقت کی کروٹوں کے ساتھ ساتھ بدلتی
رہتی ہیں ۔اہل باطل کبھی اسلام کے پیامبر ﷺ کی پاک رسالت کوچھیڑکر نبوت پر
ڈاکہ ڈالنے کی ناپاک جسارت کرتے ہیں تو کبھی شعائر اسلام کی سرِعام تضحیک
کرتے ہیں ،کبھی مسلمانوں کے معبدخانوں کی آبروریزی کرتے ہیں تو کبھی
مسلمانوں کو تہہ وتیغ کردیتے ہیں۔یہ گندی ،غیراخلاقی اوربزدلانہ حرکتیں
کبھی بذات ِخود کرتے ہیں تو کبھی اپنے خود کاشتہ نمک خور ،ضمیر فروش پودوں
سے کرواتے ہیں ،اور خود ان کے پیٹ میں آگ سے زیادہ خطر ناک ناپا ک جراثیم
بھر بھر کر ان کی پشت کو مضبوط کرتے ہیں۔باطل کایہ بزدلانہ طرزوعمل آپ ﷺ کی
بعثت سے چلاآرہاہے ۔باطل ہرزمانہ میں نت نئے انداز سے مسلمانوں کو زک
پہچانے کے لیے نئے نئے طریقہ ایجاد کرتے رہے اور کررہے ہیں،لیکن اہل حق نے
ہرمشکل وقت میں ان باطل پرست قوتوں کی یلغاراورمکروہ سازشوں کابھر پور
طریقہ سے دفاع کیااورہرجگہ ان کو ہزیمت سے دوچارکیا ۔
1857ءکی جنگ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کومزید کمزور کر نے کے لیے
کفار نے طرح طرح کے حربے استعمال کیے ۔ایک طرف مسلمانوں کے رہن سہن ،نظا م
تعلیم اور معاشرتی واخلاقی اقدارکو پامال کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمانا
شروع کیے تو دوسری طرف مسلمانوںکے عقائد بگاڑنے کے لیے ملت ودین فروشوں کے
ٹولے کھڑے کردیے ۔اپنے مکروہ عزائم اورناپاک منصوبوں کوپایہ تکمیل تک
پہنچانے کے لیے 1883ءمیںاسلام کو پارہ پارہ کرنے اورامت مسلمہ کو انگریز کی
غلامی میں دھکیلنے کے لیے باطل نے ایک نیا کھیل کھیلا ۔گروہ ِ باطل انگریز
جس نے صدیوں ہندوستان پرحکومت کرنے والے مسلموں کا قتل عام کیا اور
بزورطاقت ان کے مال ودولت کو لوٹا ،خوشحالی اورآزادی جیسی نعمت کو چھینا
،اب اس نے اپنی تمام تر توانا ئیاں مسلمانوں کے مثالی اتحاد واتفاق
اوریگانگت کو ریزہ ریزہ کرنے پر صر ف کرنا شروع کردیں تاکہ ہمیشہ ہمیشہ یہ
قوم غلامی کے بوجھ تلے زندگی گزارے ۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے
مختلف حربوں اورطریقوں سے اسلام اوراہل اسلام پر وار کئے ،کبھی بدعات کے
سرچشمہ لوگوں کو اہل حق کے خلاف کفرکے فتوے دینے کے لیے میدان کارزارمیں
لاکھڑا کیا تو کبھی جہادکو ختم کرنے کی خاطر اورمسلمانوں کے اجماعی عقائد
کو بگا ڑنے کے لیے قادیانیت جیسے غلیظ فتنہ کو مضبوط کیا ۔انیسویں
اوربیسویںصدی کا خطرناک فتنہ فتنہ قادیانیت تھا ،لیکن الحمدللہ! اہل حق نے
جہاں دیگر فتن کی سرکوبی کر کے اسلام کی خدمت کی وہیں اس فتنہ کا بھی خوب
ڈٹ کر مقابلہ کیااوربالآخرپون صدی پر مشتمل اس جدوجہد کو 7ستمبر 1974ءکے دن
سرخروئی ملی ۔
قادیانیت کاگروہ باطل کاخود کاشتہ پودہ تھا جس کومرزاغلام احمد قادیانی نے
پر وان چڑھایا ،اس ملعون نے 1883ءسے مختلف دعوے کیے،کبھی مثل مسیح کا دعوی
کرتا توکبھی مجد د اورمہدی ہونے کا،ان دعوںکی تردید کے لیے اسی وقت سے
علماءحق میدان عمل میں نکل پڑے تھے ،یہاں تک کہ بعض اہل بصیر ت علماءنے اس
پر کفر کا فتوی بھی جاری کیا۔1901ءمیں اس ملعون نے نبوت کاجھوٹا دعوی کیا
تو پورے ملک کے تمام مکاتب ِفکر کے علماءنے اس پر کفر کے فتوے جاری کیے
اوراس ناسور کودفن کرنے کے لیے عملا میدان میں نکل پڑے۔ چونکہ اس ناپاک
گروہ کی پشت پناہی انگریز کررہاتھاجس سے مسلمانوں کو شدید نقصان ہورہاتھا
تو علماءنے ضرورت محسوس کی کہ اس فتنہ کا عوامی سطح پر محاسبہ کیاجائے
،چنانچہ محدثِ کبیرعلامہ انورشاہ کشیمیری ؒ نے اپنے ہونہار شاگردوں کو اس
محاذ پر سرگرم کیا اوراس فوج کی سپہ سالاری کے لیے اپنے فرمانبردار شاگرد
سیدعطاءاللہ شاہ بخاری کو منتخب کیا۔انہو ں نے 1930ءمیں حضرت احمد علی
لاہوری ؒ کی انجمن خدام الدین کے سالانہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا”کہ
عطاءاللہ شاہ بخاری نیک بھی ہیں اوربہادر بھی ،قادیانیت کے خلاف ان کی ایک
تقریر ہماری کئی تصانیف پر بھاری ہے ۔قادیانیت اسلام کے خلاف سب سے بڑافتنہ
ہے ،اس کی سرکوبی کے لیے میں عطاءاللہ شاہ صاحب کو”امیر شریعت“منتخب کرکے
ان کی بیعت کرتاہوں۔“بس پھرکیا تھا ،پانچ سوعلماءنے شا ہ صاحب کے ہاتھ پر
تحفظ ختم نبوت کے لیے بیعت کی اور اپنا امیرشریعت منتخب کیا۔مجلس احرا رکا
قیام بھی علامہ انورشاہ کشمیری ؒکے حکم پرہوا۔ اس کے بعد شاہ صاحب کی معیت
میں علماءکرام نے اپنی زندگیاں اس عقیدے کے تحفظ کے لیے وقف کردیں اور رات
دن اس فتنہ کا تعاقب کیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان کے طول وعرض میں
قادیانیت ایک گالی کی علامت بن گیا۔
پاکستان میں 1953ءکی تحریک تحفظ ختم نبوت قادیانیت کے عوامی محاسبے کی ایک
تاریخ ساز جدوجہد تھی۔اس تحریک میں جنرل اعظم کے حکم پر دس ہزار فدائین ختم
نبوت کے سینے امپورٹد گولیوں سے چھلنی کیے گئے ۔ختم نبوت کے پروانے ایک
کرکے فداہوتے گئے مگرشمع ختم نبوت کی لومدہم نہ ہونے دی ۔باالآخرخون سے لت
پت یہ تحریک 1974ءمیںنتیجہ خیز بن کر ظاہرہوئی ،سات ستمبر شام ساڑھے چار
بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اوپر تلے قومی اسمبلی اورپھر سینٹ کے اجلاس ہوئے
جس میں دواہم اورسنہری ترامیم کے ذریعہ قادیانیت کی جڑوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے کاٹ دیاگیا ،اورآئین میں منکرین ِختم نبوت مرزائیوں کے دونوں گروہ جن
میں قادیانی اورلاہوری گرو پ شامل تھا کو غیرمسلم اقلیت قراردے دیا۔یہ
فیصلہ سناکر تاریخ کے صفحات پرایسے نقوش ثبت کردیے گئے جس پر ہمیشہ
فخرواطمینان کا اظہار کیاجائے گا (انشاءاللہ)۔ اس فیصلہ کے بعد قادیانیوں
کو قانونی طورپر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جسد سے کاٹ کر الگ کردیاگیاا
وران کے لیے شعائر اسلام کا استعمال ممنوع قراردے دیا گیا۔اب نہ وہ اپنے
معبدخانوں کو مساجد کہہ سکتے ہیںاورنہ ان پر مینار بنا سکتے ہیں، اپنے آپ
کو مسلمان لکھ سکتے ہیں ،نہ کہہ سکتے ہیں ،یہ سب کچھ اس تاریخ ساز دن کے
تاریخ ساز فیصلہ کے بعد ہوا۔
زندہ اورجیتی جاگتی اقوام کی تاریخ میں کچھ لمحات ،واقعات اتنے معتبر اور
محترم ہوتے ہیں جو ان کے وقار ،عزت وتوقیر اور فخر کی علامت ہونے کے ساتھ
ساتھ ان کی سلامتی اوراستحکام کو دوام بخشنے کا سبب بن جاتے ہیں ،آنے والی
نسلوں کے لیے مشعل ِراہ بن جاتے ہیں ۔پاکستان بھی زندہ قوم ہے ،اس کے بھی
تاریخی لمحات اورواقعات ہیں جن کو پورے ذوق وشوق اورجذبہ سے منایا جاتاہے
اور فخرکیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم چودہ اگست کو یوم آزادی مناتی ہے،چھ
ستمبر کو یوم ِدفاع مناتی ہے اور28مئی کو یوم تکبیر بھی مناتی ہے ۔ان کے
علاوہ بھی ایسے لمحات ،واقعات ہیں جو یادگاربھی ہیں اور تاریخ ساز بھی
،جوقابل ِذکر بھی ہیں اورقابل ِفخر بھی ،جو ملکی سلامتی واستحکام کاذریعہ
بھی ہیں اور امن وامان قائم رکھنے کاسبب بھی ،یہ واقعات بھی منانے
چاہئیںلیکن بدقسمتی سے ان واقعات اورلمحات سے اکثر لوگ ناواقف اورغافل رہتے
ہیں اوریہ لمحات اورایام روایتی انداز سے گزرجاتے ہیں جن سے سبق
سیکھاجاتاہے، نہ آئندہ آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے اوردشمن کامقابلہ
کرنے کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نئی نسل ان واقعات سے نا
آشنارہتی ہیں جس سے ملک وملت کا نقصان ہوتاہے۔
سات ستمبر بھی یاد گارلمحات، واقعات اور اہمیت کاحامل ہے لیکن اس کی اہمیت
اورپس منظر سے اکثرلوگ ناواقف ہیں ۔یہ فدائین ِ ختم نبوت کے خون کے رنگ
لانے کا دن ہے ،یہ وہ دن ہے جب پون صدی کی جدوجہد اورمحنت کارگرہوئی
اوراسلام اورپاکستان کے دشمنوں کو ملک کی حدود سے بے دخل کیاگیا۔یہ دن ر ب
کے حضور سجدہ ریز ہونے کا دن ہے کیوں کہ اس دن اہل ِحق کو فتح مبین ملی
اورگروہ ِباطل اپنی تما م تر کوششوں کے باوجو د ذلت ورسوائی کا شکار ہوا۔یہ
دن قوم کو بھولا ہوا سبق یادلاتاہے اوراسلاف کی دی ہوئی قربانیوںکی یاد
تازہ کراتاہے تاکہ قوم بھی ان کے نقش قدم پر چلے اور موجودہ فتنوں کا قلع
قمع کرنے کے لیے متحداورکمر بستہ ہوجائے ۔فتوحات کی بقاءاسی وقت برقرار
رہتی ہے جب اس کی قدر دانی کی جائے ورنہ ناقدری قوموں کوشکست وریخت کے
کھنڈرات بنادیتی ہے ۔اس دن کے توسط سے ہمیں عزم کرنا چاہئے اسلام اورملک کے
خلاف برسرپیکار دشمنوں کو ماربھگانے کااورفتنوں کوبے نقاب کرنے کا،تاکہ
اسلاف کا دیا ہواخون رائیگاں نہ جائے اور ان کی روحیں تڑپنے نہ پائیں،بس
یہی تقاضا ہے ”یوم فتح مبین “کا۔ |