اسلام اور ہم

اسلام ایک فطری دین ہے ۔اس کی ساری کی ساری تعلیمات فطرت کے عین مطابق ہیں۔اگر اس کی تعلیمات کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سی ایسی باتیں ذہن میں پیدا ہوتی ہیں جن سے اسلام کی حقانیت واضح ہوتی ہے۔ مثلاً یہ تعلیمات کسی عام آدمی کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہو سکتیں، اگر یہ کسی عام آدمی کی سوچ کا نتیجہ ہوتیں تو لازم ہے کہ اِن میں بہت ساری خامیاں ہوتیں اور ان پر عمل کرنے میں کسی نہ کسی نقصان کا اندیشہ بھی لازمی جزہے۔ جس طرح بسنت اوراس قسم کے دیگر تہوار انسان کے اپنے من گھڑت ہیں ان میں فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان اور وقت کا ضیاءبھی بہت ہوتا ہے۔ اسی طرح انڈیا کے ایک علاقے میں میلے لگتے ہیں جہاں کسی لڑکے کو کوئی بھی لڑکے پسند آگئی تو وہ اُسے اسی وقت اپنی بیوی بنا لیتا ہے اس میں لڑکی کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔ اسطرح پتہ نہیں کتنی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کردی جاتی ہیں ۔اِدھر پاکستان جیسے اسلامی ملک کے کچھ علاقوں میں بہن یا بیٹی کی شادی قرآن کے ساتھ کردینا جو کہ سراسر غیر شرعی اورانتہائی ظالمانہ اقدام ہے۔ یہ توصرف چند ایک مثالیں تھیں ان کے علاوہ اور بھی بہت سی خرافات ہیںجو معاشرے کیلیے کسی ناسور سے کم نہیں۔ لیکن اسلام نے ہر قسم کی فضول رسومات کا ردّ کرتے ہوئے ایک ایسا پاک صاف نظام دیا ہے ، جس کی تعلیمات مکمل اورہردور اور ہرموسم میں کار آمد ہیں ۔ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام میں رہنمائی موجود نہ ہو۔ اس لحاظ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔

آج ہم نے اپنی زندگیا ں اسلام کے مطابق ڈھالنے کی بجائے انگریزوں اور ہندوﺅں کی خود ساختہ اور بے کار قسم کی خرافات کے مطابق ڈھال لی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم یعنی اُمتِ مسلمہ دنیا میں حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب اس مسلم قوم کا دنیا میں رعب و دبدبہ تھا۔ ہرطرف مسلم خوشحال تھے ، لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہم اس قدر ذلت و خواری کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں ہم ذلیل ہو رہے ہیں۔ دن بدن ملک میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام ہو رہا ہے ، آئے دن ہم پر ڈرون کی شکل میں اٹیک کیے جارہے ہیں جو ہم نا چاہتے ہوئے بھی برداشت کررہے ہیں ۔ جس دن ملک میں ڈرون حملہ ہوتا ہے سن کر دِل خون کے آنسو روتا ہے ، پتہ نہیں دل سے کتنی قسم کی بددعائیں درندہ صفت امریکی و نیٹو فورسز اور عصرِحاضر کے بے حس حکمرانوں کیلیے نکلتی ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ ۔۔۔۔ ہماری اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔

آج ہم حکمرانوں کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ کیا کبھی سوچا ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں ،ہمارے اعمال کیسے ہیں ، یہاں تو بس وہ ہی اچھا ہے جس کے ہاتھ کچھ نہیں یا جس کے اختیار میں کچھ نہیں باقی سب کے سب ایسے ہیں کہ جس سے جتنا ہو سکے وہ بے ایمانی ، کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی وغیرہ میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حصہ ڈال رہا ہے(اللہ تعالی کے نیک اور برگزیدہ بندے جن کی تعداد بہت کم ہے وہ اس بات سے بری ہیں ، کیوں کہ اُنہوں نے اللہ عزوجل کی رضا کو اپنی رضا بنا لیا ہوتا ہے)۔

چند دن پہلے میں مریدکے سے لاہور کی طرف سفر کررہا تھا۔ ویگن میں چندسوار بیٹھے مسٹر ذرداری کو گالیاں دے رہے تھے کہ ذرداری چو ر ہے، وہ بے ایمان ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے وغیرہ۔ اتنے میں ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے کنڈیکٹر نے کرایا لینا شروع کیا تو ہر سوار سے پانچ روپے زیادہ وصول کیے ، چاہے وہ کہیں بھی اُترے اسے مطلوبہ کرائے سے پانچ روپے زیادہ ہی دینے پڑے کیوں کہ اس دن سی ۔این۔جی کی لوڈ شیڈنگ تھی اور گاڑی میں گیس ہی چل رہی تھی نا کہ پٹرول ، فلنگ اسٹیشن والوں نے لوڈ شیڈنگ کا فائد اُٹھاتے ہوئے چوری چھپے اِن کو گیس دی اور وہ بھی کچھ مہنگی جب باری آئی گاڑی والوں کی تو اُنہوں سے اُس کے کہیں زیادہ عوام سے بٹور لیے۔ یہ ایک عام سا واقعہ تھا ناجانے دن میں کتنی بار دہرایا جاتا ہے، دراصل بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہر بندہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق معاشرے کی خرابی میں حصہ ڈال رہا ہے تو پھر ذرداری تو ملک کا صدر ہے اور اُس کی حیثیت کا اندازہ لگائیں اِس حساب سے اس کاحصہ کتناہونا چاہیے۔

جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے : جیسی قوم ہو گی اُس پر ویسے ہی حکمران مسلط کر دیے جائیں گے۔

اب غور کریں کہ اگر ذرداری بہت برا ہے تو ہم کتنے اچھے ہیں۔ چنانچہ خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمرابنِ خطاب رضی اللہ عنہ کا بہت مشہور قول کہ ” دنیا میں سب سے آسان کام دوسروں پر نقطہ چینی اور سب سے مشکل کام پنی اصلاح کرنا ہے“۔ اسی لیے سب سے پہلے ہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔اور ”کو ئی اچھا ئی کرے یا نہ کرے لیکن مجھے اچھائی ہی کرنی ہے“ بس یہی سوچ ہونی چاہیے اسی پر عمل کرنا چاہیے، جب سب لوگ ایسے ہو جائیں گے تو دیکھنا ہمارا ملک کیسے ترقی کرے گا، ہم کو کسی حکمران کو گالیاں بھی نہیں دینی پڑیں گی، اور مسلم قوم اپنی کھوئی ہوئی عزت و مقام پا لے گی۔ لیکن ایسا صرف اُسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی مرضی کو اللہ عزوجل کی مرضی کے تابع کردیں ، اپنی زندگیاں اسلام کے ہردور اور ہر موسم میں کارآمد اصولوں کے مطابق کر لیں نا کہ اپنی بنائی ہوئی خرافات کے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے آپ اپنی حالت بدلنے کا
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 62810 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Islam aur hum - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Islam aur hum and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Islam aur hum.