4ستمبر کو عالمی یوم حجاب
منایا گیا۔پاکستان میں اس سلسلے میں ساری کاوشیں جماعت اسلامی نے کی
تھیں۔جو لوگ کام کرتے ہیں ان کو اس کاکریڈٹ بھی دینا چاہیے۔یوم حجاب کے
حوالے سے جماعت اسلامی کے شعبئہ خواتین محترمہ سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ اور
محترمہ ڈاکٹررخسانہ جبین صاحبہ کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا خاص طور پر فیس بک
اور ٹویٹرپر کام کرنے والے بھائیوں اور دوستوں نے بھرپور مہم چلائی۔دو ہفتے
قبل ہی اس مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔27رمضان المبارک کو ملی یکجہتی کونسل
کے زیر اہتمام ہالیڈے ان ہوٹل اسلام آبادمیں یوم القدس اور یوم پاکستان کے
حوالے سے منعقدہ تقریب میں سابق ایم این اے اورصدر ویمن اینڈفیملی کمیشن
جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ کا 4ستمبرکو منائے جانے
والے عالمی یوم حجاب کے حوالے سے ایک خط بھی تقسیم کیا گیا تھا۔عید الفطر
کے بعد جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ کی طرف سے
جماعت کے تمام ذمہ داران کو یوم حجاب کے سلسلے میں لکھا گیا سرکلربھی نظر
سے تھا۔ بلا شبہ محترمہ سمیحہ راحیل قاضی صاحبہ کی سربراہی میں عالمی یوم
حجاب کیے حوالے سے پاکستانی میڈیا مہم میں نمایاں اور کامیاب رہی ہے۔وزیر
اعظم راجہ پرویز اشرف اور ان کی اہلیہ خاتون اول نصرت پرویز سے ایوان
وزیراعظم اسلام آباد اور گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ اور ان کی اہلیہ سے
لاہور گورنر ہاﺅس میںہونے والی ملاقاتیں بڑی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔پھر خاص
طور پر 4ستمبر کو تمام قومی اخبارا ت نے یوم حجاب کے حوالے سے خصوصی ایڈیشن
شائع کیے تھے۔جن میں ہمارے افراد کے مضامین اور تحریریں شامل تھیں۔کئی
اخبارات نے اداریے اور ادارتی نوٹ بھی لکھے ہیں۔جبکہ کئی کالم نگاروں اور
دیگر لکھاریوں نے بھی عالمی یوم حجاب کے حوالے سے کالم مضامین اور تجزیے
بھی لکھے ہیں۔اس دن ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں
مظاہرے ہوئے اور سیمینارز بھی منعقد کیے گئے۔الیکٹرانک میڈیا پر بھی عالمی
یوم حجاب کی خبریں نمایاں رہیں۔
راقم الحروف نے عالمی یوم حجاب کے حوالے سے اس مہم کے دوران یہ بات خاص طور
پر نوٹ کی تھی کہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف ٬ایم کیو ایم اور مسلم لیگ
(ن)کے لوگ بھی خاصے سر گرم رہتے ہیں ٬مگر افسوس کہ 4ستمبر کے عالمی یوم
حجاب کے ضمن میں انہوں نے کوئی سر گرمی نہیں دکھائی۔باقی جماعتوں اور
تنظیموں سے وابستہ افراد تو ویسے بھی ذاتی تشہیر اور مخصوص مفادات سے آگے
سوچتے بھی نہیں ہیں۔اس قسم کے دینی ایشوز اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل سے
وہ بالعموم لا تعلق ہی رہتے ہیں۔اسی طرح کچھ فرقہ وارانہ ذہنیت اور متشدد
رویوں کے حامل افراد اپنے مخصوص عقائد اور نظریات کی تبلیغ اور دوسروں کو
لعن طعن کرنے میں ہی لگے رہتے ہیں۔سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک بڑی تعداد
نوجوانوں کی ہے۔ان کی اکژیت کو دنیا اور خاص طور پر ملک و ملت کو درپیش
مسائل اور معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن اور
اپنے ہی حال میں مست رہتے ہیں ۔عشقیہ شعروشاعری ٬عورتوں کی عریاں اور نیم
عریاں تصاویر کی نمائش٬ اپنی مخصو ص سوچ اور جوانی مستانی کے حوالے سے ہی
زیادہ تر پیغامات کے تبادلے کرتے نظر آتے ہیں۔کاش یہ سارے افراد کسی مثبت
سوچ٬ صالح فکر اوراچھے عمل کی طرف راغب ہو جائیں ٬جس سے ملک و ملت کو بھی
کوئی فائدہ پہنچ سکے۔
امریکا اپنے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی اور
تسلط چاہتا ہے۔جن جن ممالک ٬ اقوام٬ تنظیموں ٬مذا ہب حتیٰ کہ افراد کو بھی
اپنے راستے میں رکاوٹ سمجھتا ہے ٬ان سب کو کچلنا اور عبرت کا نشان بنانا اس
کا مشن اور ہدف بن چکا ہے۔اپنے مخصوص مقاصد کو حاصل کرنے اور خواہشات کی
تکمیل کے لیے کبھی تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو استعمال کیا جاتا ہے ا
ور کبھی نہایت ہی ڈھٹا ئی سے تمام عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کر اور
انسانی حقوق کی پامالی کرتا ہوا ٬ عسکری قوت کے بل بوتے پر دوسرے ملکوں پر
حملہ آور ہوتا ہے ۔ بنیادی انسانی حقوق اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے میں
نام نہاد مہذب یورپی ممالک بھی امریکا کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔عراق ٬افغا
نستا ن ٬اور لیبیا کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔اب شام کے گرد گھیرا تنگ کیا
جا رہا ہے ۔ایران کے خلاف تو برسوں سے دانت پیسے جا رہے ہیں ٬حتیٰ کہ
امریکا اور یورپ کا لے پالک اور بغل بچہ اسرائیل بھی امریکا اور یورپ کی شہ
پر ایران کو آئے دن حملے کی دھمکیاں دیتا چلا آرہا ہے۔پاکستان تو مسلسل
نشانے پر ہے۔ڈرون حملے٬افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے اندر مسلح حملے
٬سی آئی اے اور دیگر امریکی اور یورپی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے اندر دہشت
گردی پھیلانے اور حالات خراب کرنے میں پیش پیش رہتی ہیں ۔ریمنڈ ڈیوس کا
واقعہ اس کی ایک واضع مثال ہے۔اسی طرح بلوچستان میں امریکی مداخلت کا
اعتراف حکومت پاکستان کے اعلی عہدیدار کئی بار کر چکے ہیں۔مگر امریکا کا
کھل کر نام لینے یا احتجاج کرنے سے ڈرتے ہیں۔افسوس کہ امریکا کے ساتھ مختلف
سطحوں پر ہونے والے مذاکرات٬ بات چیت اور ملاقاتو ں میں بھی اس مسئلہ کو
نہیں اٹھایا جاتا۔
امریکا اور اس کے اتحادی یورپی ممالک نے اسلام اور مسلمانوں کو اپنا خاص
ہدف اور نشانہ بنایا ہوا ہے۔مسلم ممالک کو سائنس و ٹکنالوجی ٬عسکری قوت اور
خود کفالت کی طرف بڑھنے سے ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوششیں کی جاتی
ہیں۔مسلم ممالک کو اپنے زیرباراور محتاج رکھنے کے لیے طرح طرح کے حربے
استعمال کیے جاتے ہیں ۔کہیں نام نہاد دوستی وتعاون اور کہیں امداد اور ترقی
کے نام پر مسلم ممالک کے معاملات میں مداخلت اور اپنی اجارہ داری قائم
رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔اگر یہ سلسلے ناممکن ہوں تو پھر دھونس اور
طاقت کا استعما ل کیا جاتا ہے۔مختلف حیلوں ٬بہانوں سے خود سر اور سرکش
ممالک کو زیردام لانے اور سبق سکھانے کے لیے اقوام متحدہ کے ذریعے سے طرح
طرح کی پابندیاں لگوائی جاتی ہیں۔اس کے علاوہ عالمی اداروں اور تنظیموں کی
طرف سے بھی دباﺅ ڈلوایا جاتا ہے۔غرضیکہ امریکی غلا می قبول نہ کرنے والے
ممالک کو ہر طرح سے نقصان پہنچانے ٬ ہراساں کرنے اور ڈرانے کی کوششیں کی
جاتی ہےں۔اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تہذیب ٬ ثقافت اورمختلف اسلامی
شعائر کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔کبھی قرآن مجید کی توہین٬ مساجد کو گرانے
اور میناروں پر پابند ی کے ساتھ ساتھ ٬خواتین کے حجاب پر پابندیوں کا ایک
نہ ختم ہونے والاسلسلہ امریکا اور یورپ کے مختلف ممالک میں پھیلتا چلا جا
رہا ہے۔ خاتم الانبیاءحضرت محمد مصطفےﷺکی شان میں گستاخی ٬ توہین
آمیزکارٹون اورخاکوں کی شکل میں اور کبھی زہر آلود کتابوں ٬ناولوں ٬ ڈراموں
اور فلموں کے انداز میں اوراب سوشل میڈیا پر فیس بک اور ٹیوٹر کے ذیعے سے
بھی گستاخانہ سلسلے جاری رکھے ہوئے ہیں۔مسلم دشمن طاقتوں کی طرف سے عالمی
سطح پر اسلام اور مسلم دشمنی کی ایک بھرپور مہم ہے۔ان تمام حقائق سے آنکھیں
بند نہیں کی جا سکتیں۔افسوس کہ مسلم دنیا کی نام نہاد قیادت کو بالعموم ان
خطرات کا احساس اور ادراک ہی نہیں ہے۔کچھ تو امریکا اور یورپ سے خوفزدہ ہیں
اور کچھ ان کی تہذیب وثقافت کے دلدادہ ۔اس خطرے کا ادراک رکھنے والے کچھ
رہنماءبے سروسامانی اور بغیر تیاری کے امریکا اور یورپ سے ٹکرا جانے کی
پالیسی پر زور دیتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام انتہاﺅں کے درمیان
میں سے کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ امت مسلمہ کو پہلے تو بیدار کیا جائے
٬ انہیں خطرے کی صحیح صحیح نشاندہی کی جائے۔عسکری اور سیاسی قیادت کے ساتھ
ساتھ ٬ علماءکرام٬میڈیا ٬ سول سوسائٹی اور ہر شعبے کے ماہرین مل بیٹھیں اور
ایک طویل المدتی لائحہ عمل تیار کریں۔اسلام دشمن قوتوں کو علمی اور کتابی
حملوں کا جواب علمی انداز میں اور کتابی شکل میں ہی دیا جائے۔جہاں احتجاج
کرنا ضروری ہو وہاں احتجاج بھی کیا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت سے لیکر عوام
تک مسلم شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے ۔دشمن تو ہمیں فرقوں اور گروہوں میں
بانٹتا چلا جا رہا ہے۔پہلے عرب وعجم کا نعرہ دیا گیا۔ پھر عربوں کوقومیت کی
بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا۔ اب ہمارے ہاں شیعہ ٬سنی اور دیگر بنیادوں پر
تقسیم در تقسیم کا ایک نیا سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے ٬جوکہ ہماری اسلامی
وحدت واخوت کو پارہ پارہ کر رہا ہے۔اس تشویشناک اور خطرناک صورتحال میں سب
سے زیادہ بھاری ذمہ داری ہماری دینی جماعتوں اور ان کے قائدین اور ہر مکتبہ
فکر کے علماءکرام پر عائد ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسلام ٬ملک اور قوم
کا درد رکھنے والے لوگ اٹھیں اور اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر نے کے
سلسلے میں میدان عمل میں نکلیں۔ورنہ لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بھی بن جایا
کرتی ہے۔ |