آئی جی پی سے ایس ایچ او تک

درازقداورسمارٹ نوجوان نے اچانک ادھیڑعمر شخص کوجس کی توندبھی نمایاں تھی اوراس کاقدبھی قدرے چھوٹاتھا کودیکھتے ہی کنگفوکراٹے کے مخصوص انداز میں اپنے دونوں بازوگھمانااورچیخنا شروع کردیا ،اس کایہ داﺅاپنے مدمقابل کومرعوب اورخوفزدہ کرنے کیلئے کافی تھا مگر اس کادشمن اس کی دھونس میں آنے کی بجائے اپنے قدموں پرکھڑارہا اور اس نے پورے اعتمادسے اپنے پستول سے درازقد نوجوان پرفائر کردیا اس حملے سے وہ وہیں گرپڑا اورہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں دم توڑگیا۔ایک دورتھا جب لوگ لڑ تے وقت آپس میں گتھم گتھا ہوجایا کرتے تھے۔میدان جنگ میں تلوار،نیزے اورتیرکادوربھی آیا ۔مگر آج کل دشمن پرغالب آنے کیلئے طاقت نہیں تکنیک ،تربیت،تجربے،تحمل اورجذبے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جدید اور خودکار ہتھیاروں کی ایجاد کے بعد اب انسان نہیں بلکہ دونوں طرف سے اسلحہ جنگ کرتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے ڈاکوﺅں اورخطرناک مجرموں کے مقابلے میں پولیس فورس کے پا س نہ صرف ہتھیاروں کی کمی ہوتی ہے بلکہ شرپسند جواسلحہ استعمال کرتے ہیں وہ پولیس فورس کے اسلحہ سے کافی جدید اورنیاہوتاہے انہیں پولیس اہلکاروں کی طرح چلے ہوئے کارتوسوں کاحساب بھی نہیں دینا پڑتا ۔ڈاکواپنے بچاﺅکیلئے کسی کوبھی موت کے گھاٹ اتارسکتا ہے جبکہ پولیس والے احتیاط کرنے کے پابندہوتے ہیں۔تاہم پچھلے کئی برسوں سے جعلی پولیس مقابلے ہونے کی بھی بازگشت سنی جارہی ہے۔پولیس مقابلے میں زیادہ تر مبینہ مجرم مارے جاتے ہیں،ان مقابلوں کی انکوائری بھی ہوتی ہے مگر اس کے باوجودآئے روزمقابلے ہورہے ہیں۔کسی مہذب معاشرے کاقانون کسی ملزم یامجرم کوماورائے عدالت قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اس جہاں میں نہ سہی مگراگلے جہاں میں ہراس صاحب اختیار کوحساب دیناپڑے گاجوبراہ راست یا کسی بھی طرح ان متنازعہ پولیس مقابلوں میں ملوث ہے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے حالیہ اجلا س میں اے آئی جی خان بیگ نے پولیس مقابلوں کی رپورٹ پیش کی،جس کے مطابق حالیہ چھ ماہ میں پنجاب کے اندر208پولیس مقابلے ہوئے ،ان میں 174ملزمان مارے گئے ،60زخمی اور170گرفتارہوئے جبکہ 23پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا اور76زخمی ہوئے ۔14پولیس مقابلوں کی عدالتی انکوائری مکمل ہوگئی جبکہ121کی عدالتی تحقیقات جاری ہیں تاہم سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے یہ رپورٹ مستردکردی ۔میں سمجھتا ہوںبندوق اوربارود سے جرم نہیں صرف مجرم ختم ہوتا ہے لہٰذا قلم سے جرم کاسرقلم کرنے کی ضرورت ہے یقینا جرم ختم ہونے سے کوئی مجرم سرنہیں اٹھائے گا۔ضرورت ا س امرکی ہے مثل اورچالان کی تیاری میں عجلت یامجرمانہ غفلت کامظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ اس طرح مجرم قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں ۔

آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن ان دنوں توندوالے ایس ایچ اوزکے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اورانہیں زبردستی سمارٹ بنانے پربضد ہیں۔ حالانکہ پولیس فورس کی اچھی یابری کارکردگی کاایس ایچ اوزکی توندوں سے دوردورکاکوئی تعلق نہیں ہے ،وہ اپنے اہلکاروں کا رویہ اور روش تبدیل کرانے پرزوردیں ۔ کسی بھی تھانہ کا آفیسرمہتمم مختلف مقدمات کی تفتیش یاتحقیق توندسے نہیں بلکہ اپنے دماغ سے کرتا ہے اوراب کسی ملزم یامجرم کے پیچھے بھاگ بھاگ کراسے گرفتار نہیںکیا جاسکتا بلکہ آئی ٹی انقلاب کے سبب بیشتر ملزمان کاباآسانی سراغ لگاتے ہوئے انہیں گردن سے دبوچ لیا جاتا ہے۔آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن ایس ایچ اوزکی توندیں چھوڑیں اوران کی تعلیمی اسناد چیک کرائیں کیونکہ اگرتوندوالے میں قابلیت ہوگی تووہ ضرورڈیلیورکرے گااوراگرکوئی سمارٹ جعلی ڈگری دے کربھرتی ہوگیاہے تووہ آپ کی فورس کیلئے ایک بوجھ اوربدنامی کاسبب بنے گا ۔پولیس نظام کی خامیاں دوراورایس ایچ اوزسمیت دوسرے آفیسرز کیلئے قانون کی تعلیم اور مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے پیشہ ورانہ تربیت کااہتمام کرنے کی اشدضرورت ہے کیونکہ کئی ایک پولیس آفیسرزنے کاغذی کاروائی یعنی مثل وغیرہ لکھوانے کیلئے ریٹائرڈ پولیس اہلکاورں کو ماہانہ تنخواہ پرملازم رکھاہوا ہے کیونکہ وہ دن بھر ڈیوٹیاں چیک اوررات بھر گشت کرنے اورپھراگلی صبح عدالت میں پیش ہونے کے بعد مثل لکھنے یابغورپڑھنے کامتحمل نہیں ہوسکتے۔تھانہ کی سطح کے پولیس اہلکاروںکوجوتنخواہ دی جارہی ہے اس تنخواہ میں مہنگائی کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا اورپھرانہیں اپنے اعلیٰ آفیسرز کی مختلف ضروریات کابھی خیال رکھناپڑتا ہے لہٰذااگروہ کرپشن نہ کریں توپھرکیا کریں۔اگرارباب اقتدارمحلات میں قیام کرنے ،قومی وسائل سے من وسلویٰ تناول کرنے،سرکاری خرچ پربیرونی دورے کرنے ،بیرون ملک سے مفت علاج کرانے اورلاکھوں روپے تنخواہوں سمیت مختلف مراعات وصول کرنے کے باوجود کرپشن کرسکتے ہیں تاہم میں پولیس اہلکاروں کی کرپشن کادفاع نہیں کررہا ہے ،میں نے توصرف ملک میں بدعنوانی کانقشہ کھینچا ہے۔ایس ایچ اوزکے آفس میں محض کمپیوٹراورانٹرنیٹ مہیا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا،ابھی تک ملزمان کی گرفتاری کی صورت میں ان کی انگلیوں کے نشانات محفوظ کرنے کاانتظام نہیں کیا گیا۔مجرمانہ سرگرمیوں کے خاطرخواہ سدباب کیلئے تھانوں میں افرادی قوت کی کمی دورکی جائے،تھانوں کوجدیداسلحہ کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کیلئے عہدحاضر کے مطابق تربیت کااہتمام کیا جائے ۔آبادی اورمجرمانہ سرگرمیوں کی شرح دیکھتے ہوئے فی تھانہ دوگاڑیاں دی جائیں اورگاڑیوں کے پٹرول سمیت کاغذی کاروائی کیلئے سٹیشنری کاسرکاری بندوبست کیا جائے کیونکہ تھانوں کی گاڑیوں کے پٹرول سمیت دوسرے ضروری اخراجات عموماً سائلین سے وصول کئے جاتے ہیں۔جس وقت سائلین سے ایف آئی آر کی ایک فوٹوکاپی کیلئے ایک سویاپانچ سو روپیہ وصول کیا جائے گاتوپھر شہریوں کاپولیس فورس پراعتماد کس طرح بحال ہوگا۔

عدالت عظمیٰ کے سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے مقابلے میں عالم چناآپ کو ایک بونادکھائی دے گا،بڑے بڑے ممتازاورقدآورقانون دان احتراماً نسیم حسن شاہ کے روبرواپناسرجھکاتے تھے۔سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی قابلیت نے انہیں قدآوراورقابل قدربنادیا ۔سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے بغیر پاکستان کی عدالتی تاریخ ادھوری ہے ۔ جس طرح محض لیاقت نام رکھنے سے کسی میں لیاقت نہیں آجاتی اُس طرح صرف اہم عہدہ ملنے سے انسان میں قابلیت پیدانہیں ہوجاتی ۔رحمن ملک کے پاس بڑااہم عہدہ ہونے کے باوجودان کی قابلیت اورکمٹمنٹ ایک سوالیہ نشا ن ہے ۔ پولیس فورس کے کسی عہدے کیلئے تعلیمی معیارپرپورااترناانسان کے اپنے اختیار میں ہے مگراسے قداس کی مرضی سے نہیں ملتالہٰذا پولیس یادوسری سکیورٹی فورسزمیں بھرتی کیلئے قدسے زیادہ قابلیت اوراہلیت کواہمیت دی جائے۔ درمیانے قدیابڑی توندکی بنیاد پرکسی کونااہل یاناکارہ سمجھنا قطعاً درست نہیں ہے ورنہ عالم چناآج پاکستان کاصدرہوتا ۔

پنجاب بھرکے تھانوں میں آئی جی پنجاب کی تصویر کے ہمراہ ان کاپیغام آویزاں کیا گیا ہے ۔میں سمجھتا ہوں پیغام کے ساتھ تصویر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ان کے جانے بعدجونیاآئی جی آئے گاوہ ان کی تصاویراتروادے گاجس طرح لاہورجنرل ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی دوتصاویرآویزاں تھیں جوان کی رخصتی کے فوراً بعد اتاردی گئیں مگرشہریوں کوپیش آنیوالے حادثات کے حوالے سے 1122کی سروس دیکھ کرچودھری پرویزالٰہی کی یادتازہ ہوجاتی ہے اوران کاچہرہ نگاہوں میں گھوم جاتا ہے لہٰذا تصاویرلگانے سے زیادہ کوئی ایسا کام کرنے کی ضرورت ہے جوانسان کے جانے کے بعداس کے حوالے سے یاد گاربن جائے ۔بحیثیت آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن کی نیک نیتی ،کمٹمنٹ ،قابلیت اورصلاحیت پرکسی کوشبہ نہیں ہے ۔وہ ایک زیریک اورجہاندیدہ آفیسراورخوش مزاج انسان ہیں اورانہوں نے اپنی زندگی میں کئی چیلنجزکاسامنا کیااورقدرت نے انہیںہرامتحان میں کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کے ساتھ کام کرنااوران کے اعتماد پرپورااترنابلاشبہ آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن کی کارکردگی کامظہر ہے۔ آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن میرٹ پرسمجھوتہ اورملزمان کے حق میںکسی قسم کادباﺅقبول نہیں کرتے۔وہ بظاہرخوش مزاج مگراندرسے انتہائی کڑک اوردبنگ آفیسرہیں ۔وہ پنجاب کوامن وآشتی کاگہوار بنانے کیلئے کوشاں ہیں مگرابھی تک انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جوان کی سبکدوشی کے بعد ان کیلئے سرمایہ افتخار بن جائے اورشہری ان کی مثال دیں۔آئی جی پی حاجی حبیب الرحمن کے پاس اے آئی جی حضرات قلب عباس، ملک احمد رضاطاہر، ملک اقبال، خواجہ خالدفاروق، مشتاق سکھیرا، اسلم خان ترین، کیپٹن (ر)امین وینس اور ذوالفقارچیمہ کی صورت میں انتھک ، پیشہ وراور منجھے ہوئے آفیسرز کی ٹیم موجود ہے اوروہ ان کی مددسے پولیس نظام میں انقلابی تبدیلیاں برپاکرسکتے ہیں۔پولیس اہلکاورں کی ڈیوٹی کیلئے زیادہ سے زیادہ آٹھ یا دس گھنٹے کاوقت مقررکیاجائے۔پولیس اہلکاورں کے اہل خانہ کی رہائش کیلئے الگ کالونیاں تعمیر کی جائیں،ان سے گھروں کی قیمت بغیرسود آسان قسطوں میں لی جائے ۔ان کے بچوں کی بہترین تعلیم وتربیت کیلئے خصوصی انتظام کیا جائے اورسوشل سکیورٹی ہسپتال کی طرزپران کیلئے علیحدہ ہسپتال بنائے جائیں ۔پولیس آفیسرزاوراہلکاورں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خاندان کی مختلف معاشرتی پریشانیوں اورضرورتوں کی فکرمندی سے آزادہوں ۔ آرپی اوگجرانوالہ کیپٹن (ر)امین وینس کی اپنے متعلقہ ڈویژن کے اندر کامیاب اوردوررس پولیس اصلاحات کودوسرے شہروں میں بھی آزمایا جاسکتا ہے۔جس طرح اچھے کام میں حسدکرناجائز ہے اس طرح کیپٹن (ر)امین وینس نے جو مثبت تجربات کئے ہیں ان کودوسرے شہروںمیں مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے مشعل راہ بنایاجاسکتا ہے۔ کیپٹن (ر)امین وینس کامعاشرے کے عام آدمی سے براہ راست رابطہ اوران کاسماج دشمن عناصرکی مجرمانہ سرگرمیوں بارے بروقت معلومات کانیٹ ورک ان کی کامیابی کارازہے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.