میں اپنے پڑھنے والوں کی توجہ
ایک بڑے ہی اہم کردار کی طرف کروانا چاہتی ہوں کہ جس پہ اگر میں لکھنے
بیٹھوتو یہ لامحدود لگنے لگے گا۔مگر پھر بھی موضوع اتنا نازک ہے کہ اس پر
لکھتے لکھتے مجھ پر کئی بار سکتہ سا طاری ہو جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ میں
نے اس کاآغاز عظمت انسان اور اسکی شان سے شروع کیا کہ وہ اور ’ا س کی عظمت
کیا ہے؟ سورئہ بقرہ آیت نمبر30 اللہ رب العزت ملائیکہ سے مخا طب ہیں کہ"
میں زمین پہ اپنا نائب بنانے والا ہوں ملائیکہ بولے "اللہ وہ تو زمین میں
فسادبرپا کرے گا، خون ریزیاں کرے گااور اسکی وجہ تخلیق عبادت ہے تو کیا
تیری تسبیح کے لئے ہم کافی نہیں " ۔جواب مِلا "جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں
جانتے"۔پھر سورئہ تین کی پہلی چا ر آیات میں اللہ پاک چار مختلف اشیاءکی
قسم کھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ" ہم نے انسان کو بڑے احسن پیمانے پہ خلق کیا
ہے"۔ تو یہ ہے انسان کی شان اس کی عظمت کی مختصر اور جامع دلیل کہ اس کے رب
نے اسے اپنا نائب مقرر کیا ہے ‘ اسے احسن پیمانے پہ خلق کیا‘ فرشتوں کو اس
کو سجدہ کرنے کا حکم دیا ‘ تمام کائنات کو اس کے سامنے جھکا دیا اور پھرجو
اِس حکم سے انکاری ہو ا اسے ہمیشہ کیلئے لعین قرار دیتے ہوئے گمراہی کی
علامت بنادیا بعداز اللہ پاک نے انسان کے کندھوں پر اسے دی ہوئی عزت و عظمت
کو قائم رکھنے کی بھاری ذمہ داری بھی ڈال دی ہے۔ اب اگر وہ چاہے تو اپنی
ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے "سدرةالمنتہی" کی حدوں کو پارکرجائے
یا پھراگر وہ چاہے تو گمراہیوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ابوجہل کی طرح زندگی
کی تمام تر لعنتیں سمیٹتا پھرے۔یہی بلند و اعلیٰ مرتبہ کا حامل انسان جب
اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے تو اللہ پھر اسے جنجھوڑ کے یاد دلاتا ہے کہ اے
انسان کیا تو اپنی تخلیق کو بھول گیا ہے ؟کہ ہم نے تجھے کس نطفہ سے خلق
کیا۔وہ نطفہ اتنا غلیض ہے کہ اگر کسی کنویں میں کتا گرکرمر جائے تو چند
بالٹیوں کی تعدادجوشرعاََمقرر ہے نکا لنے کے بعد پانی پاک اور پینے کے لائق
ہو جاتا ہے لیکن اگر اسی نطفہ( جس سے حضرت ِ انسان کو تخلیق کیا گیا ہے) کا
ایک قطرہ کسی کنویں میں گر جائے تو کنویں کا سارا پانی باہر نکالنے کا حکم
ہے اور پھر جونیاپانی حاصل ہوگا وہ پانی قابلِ استعمال ہو سکے گا ۔گویا
اتنی حقیر چیز سے پیدا کرنے کے بعد اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو
اتنا بلند مقام دیا ہے تو اس کو قائم رکھنا بھی انسان ہی کی ذمہ داری ہے
اور مجھے پورا یقین ہے کہ اگر انسان کوا’س کی قدرومنزلت اور ’رتبے کا احساس
ہو جائے تو پھر آج جو موضوع جو کردار میں زیرِ بحث لائی ہوں وہ ہمارے
معاشرے سے ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا اور یہی اس کردار کو ختم کرنے کا
واحد حل ہے اور وہ کردار ہے "وحشیہ، عصمت فروش"۔ جسے ہوش نہ ہو، جو اپنے
نفس و خواہشات کی باندی ہو، جو مائل کرنے والی ہو، جو پردہ اٹھانے والی ہو،
اگر میں عزت کو یاقوت اور مرجان جیسی قیمتی چیز سے تشبیہ دوں تو پھر وحشیہ
کیلئے اسے یوںبیان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسے کسی پٹے میں پرو کر کتے کے گلے
میں ڈال دے۔ وحشیہ کوئی ایسا کردار نہیں جو خود بخود وجود میں آگیا ہو اگر
یہ ہمارے معاشرے کا غلیظ ترین کردار ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس غلاظت کو
معاشرے میں متعارف کون کرواتا ہے؟ وہ کون سے عناصر ہیں جو اسے مضبوط کرتے
ہیں؟ اگر میں بڑے واضح الفاظ میں بات کروں تو یقینا وہ لوگ جو خود کو نشے
میں دھت رکھ کر اپنی عزت اپنی بیوی کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ کما کر لا ئے
لیکن نجا نے کب وہ زندانِ عصمت زن میں مقفّل ہو جا تی ہیں یاپھر وہ رنگین
مزاج مرد جو اپنی شامیں اور راتیں کوٹھے پر رنگین کرتے ہیں اور وہاں کی
وحشیہ کے رقص پہ ایسے پیسے نچھاور کرتے ہیں گویا معلوم ہوتا ہو کہ آسمان سے
مختلف رنگوں کی بارش ہو رہی ہو۔ افسوس تو یہ ہے کہ ان کوٹھوں کی حفاظت کرنے
والے کوئی اور نہیں بلکہ اسی ریاست کے چند اعلیٰ افسران ہوتے ہیں جنہیں ان
کی اس عظیم خدمت کے عوض ہر رات کوٹھے کی سب سے خوبصورت اور کم عمر لڑکی
نظرانے کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور یہ کہنے میں بھی مجھے کوئی ملال نہیں
کہ USآرمی کو بھی ستر فیصد نوجوان معا شرے کے اسی بدترین کردار کی برکت سے
حا صل ہیں۔
اپنے جسم کو سستے داموں فروخت کرنے والی یہ عورت جسے معاشرہ وحشیہ ، طوائف
، ریڈ لائٹ یا کا ل گر ل کے نام سے جانتا ہے آخر جنم کیسے لیتی ہے؟ اس سوال
کا جواب حال ہی میں مجھے ایک انتہائی نازک اندام اور خوبصورت وحشیہ سے بات
کرنے کے بعد ملا جو کسی بھی طور دیکھنے میں نہ تو وحشیہ لگتی تھی اور نہ ہی
اسے وحشیہ ہونا جچتا تھا وہ تو اس کنول کی مانند تھی جسے بہت سنبھال سنبھال
کر رکھاجانا چاہیے تھا مگر حقیقت اس سے ذرا مختلف اور تلخ تھی کہ بھلے وہ
مجھے جتنی بھی اچھی لگی تھی کہ اسے وحشیہ تصور کرنا بھی مجھے درد دیتا تھا
بدقسمتی سے وہ وحشیہ ہی تھی اور اس بازار تک وہ کیسے پہنچی یہ بہت اذیت ناک
سی کہانی تھی۔ اس کا نام سونیا تھا اور وہ رائیو نڈ کے نواحی ایک چھوٹے سے
گاؤں سے تعلق رکھتی تھی ۔ نو عمری میں جب وہ ابھی ساتویں جماعت کی طا لبِ
علم تھی ایک دن سکول سے چھٹی کے بعد اپنے کندھوں پر بیگ لٹکائے گھر داخل
ہوئی تو صحن میں اس کا سگا چچا نشے کی حالت میں پڑا تھا ۔ گھر میں اس وقت
کوئی اور موجود نہیں تھا جس کا فائدہ اس کے باپ کی مانند چچا نے اٹھایا اور
یہ بھول گیا کہ وہ اس کی بھی بیٹی ہے۔ تیرہ سال کی معصوم بچی کا چھوٹا سا
ذہن اور معصوم عقل تو شاید پوری طرح سمجھ بھی نہ پائے ہوں گے اس کے ساتھ
کیسا ظلم ہوا ہے۔ سسکتی ہوئی سونیا نے جب سارا واقعہ اپنے باپ کو سنایا تو
اس نے بیٹی کو سہارا دینے کی بجائے اسے کسی اور کے سہارے چھوڑنے کا بندوبست
کرنے لگا اور چند ہی دنوں میں اسے شاہدرہ کے ایک چھوٹے سے غریب گھرانے میں
بیاہ دیا۔ شادی کی پہلی رات شوہر کے چند سوالوں کے جواب میں سونیا نے ’اسے
ساری حقیقت بتا دی جسے سن کر ا’س کے دل میں رحم تو نہ آیا البتہ اس نے اسے
طلاق دے کر گھر سے نکال دیا ۔سہمی ہوئی سونیا ایسے میں گھر جانے کی بجائے
لاہور داتا دربار جا پہنچی جہاں ’اسے ایک کانسٹیبل (ک)نے محفو ظ جگہ پہنچا
نے اور اس کی مدد کرنے کا یقین دلایا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ اور پھر وہ
چند دن اسے اپنے ساتھ رکھ کر اپنی ہوس کا نشانہ بناتا رہا اور پھر رحیم
نامی رکشے والے کی مدد سے اسے چند روپوں کے عوض بیچ دیا۔نائیکہ نے سونیا کی
پرورش بہت ہی خیال سے کی وہ اس کے کھانے پینے کا پورا خیال رکھتی اور اکثر
’اسے ڈھیر ساری شاپنگ بھی کرواتی۔ نائیکہ ایسے ہی چار سال تک اس کی پرورش
کرتی رہی اس خیال سے کہ وہ اپنے کوٹھے کیلئے ایسا پھل تیار کر رہی ہے جو اس
کے دن رات بدل دے گا اور پھر جب سونیا17سال کی عمر کو پہنچ جاتی ہے تو بقول
نائیکہ کے اب سونیا کو اس کا قرض لوٹانا تھا۔ اس طرح سونیا کے نا چاہتے
ہوئے بھی اسے56ہزار کے عوض ایک مالدار شخص کو ایک رات کے لئے بیچ دیااور
پھر اس کے بعد سونیا ایسے ہی کتنے شکاریوں کے منہ کانوالہ بنتی گئی ان کی
صحیح تعداد تو اسے خود بھی معلوم نہیں ۔ یوں سونیا18سال کی عمر میں کوٹھے
کی سب سے مہنگی طوائف بن گئی۔ جس کا فائدہ نائیکہ نے جی بھر کے اٹھا یا۔ اس
سب کام میں سونیا کی مرضی کیا ہے کسی کو اس کی پرواہ نہیں ۔وہ بس وہاں ایک
سونے کی کان تصور کی جاتی ہے جسے اپنا جسم دن رات بیچنا ہے اپنی مرضی کے
خلاف بھی۔ آسان لفظوں میں یوں کہ اب اسے ہمیشہ طوائف ہی رہنا ہے ۔
سونیا کی اس قرب ناک داستان کو سن کر میں سوچتی ہوں کہ قصور وار کون تھا؟
اس کا چچا جس نے اپنی ہی عزت کو اپنی حوس کا نشانہ بنا دیا، یا وہ باپ جس
کو بیٹی پیدا ہوتے ہی رحمت کی بشارت دے دی جاتی ہے اور پھر اس کا نگہبان
ہونے کی ذمہ داری بھی سونپ دی جاتی ہے ‘یا پھر وہ خاوند جسے مجازی خدا کا
رتبہ حاصل ہے یا پھر وہ کانسٹیبل جس کی وردی ہی محافظوں کی پہچان ہوتی ہے
یا پھروہ رکشے والا جو عصمت فروش تھا، یا پھر خریدار وہ نائیکہ جو جسم
فروشی کا اڈہ چلاتی اپنے ہی وجود کیلئے گالی ہے۔
بے شک سونیا وحشیہ ہے اور معاشرے کا غلیظ ترین کردار ہے مگر اسے یہاں تک
لانے والا اوراسے ایسا بنانے والا بھی تو معاشرہ خود ہے اگر کسی معاشرے میں
ایسے محافظ ہوں گے تو پھر سونیا کی پیدائش کو کوئی نہیں روک سکتا وہ ایسے
ہی جنم لیتی رہیں گی۔ عا م انسا ن وحشیہ سے تو بہت بد زن ہوتا ہے لیکن کیا
کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہما را اپنا معا شرہ بھی وحشیہ کے وجود کے لیے
ذمہ دارہے۔یہا ں اگر ذہن کو ذرا وسیع کر کے تصویر کو دوسرے رخ سے دیکھا جا
ئے تو ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ یہی کا ل گر لز ایک حد تک society
defender))بھی ہیں ورنہ جس طر ح پور نو گرافی‘ گلیمر یس مو و یز‘ ا یڈوا نس
میڈ یا‘ اور ڈ یڑھ گزکے چست لبا س میں نظر آنے والی دو شیزائیں جو ا چھے
بھلے ٓا دمی کے جو ش و ہو س کو للکا ر تی ھیں تو ایسے میں کمز ور ایما ن
افراد پھر کا ل گا لز کا سہا را نہ لیں تو ہمارے معا شر ے میں کسی عا م لڑ
کی کی عزت بالکل محفو ظ نہ ہو تی۔(معذ ر ت کے سا تھ ) اس لئے میر ے نقطہ
نظر سے اوپر بیان کیے گئے تما م عنا صر ‘ زیبا ﺅ آرائش سے مزین اور زنا کو
تپش د یتی وہ تما م نو عمر صنفِ نا ز ک بھی شا ملِ کر دار ھیں جن کی وجہ سے
کا ل گرلز کا کام اور معا شرے میں ان کا کر دار بڑھ جا تا ہے ۔ اس لئے پہلے
ہما ر ے معا شرے کی عا م عورت کو اپنا آپ در’ست کرنا ہو گا پھر ہی معا شرے
سے اس لعنت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ تما م بیٹیو ں کو ان کی پہچا ن دی جا
سکتی ہے ورنہ کوٹھے پہ بیٹھی اپنا جسم فروش کرتی اکثر لڑکیوں کو معلوم نہیں
ہوتا کہ ان کا باپ کون ہے؟ وہ اکثر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتی
ہیں کہ ان کی پہچان کیاہے؟ اس کا تو شاید انہیں جواب نہیں ملتا مگر وہ اتنا
ضرور جان جاتی ہیں کہ ان کا باپ کوٹھے پہ اپنی راتیں رنگین کرنے والا کوئی
عیا ش ہی تھا جو انہیں اس دنیا میں لانے کا سبب بنا ‘جو چند لمحوں کی فانی
راحت کے عوض انہیں ہمیشہ کیلئے یہاں کا غلام کر گیا اور انہیں وحشی درند و
ں کے منہ کا نوالا بنا گیا جو نا چاہتے ہوئے بھی ان کوہر شام نوچتے ہیں اور
ایسے میں پھر ان پہ کیا کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ ایک با ضمیر انسان ہی کر
سکتا ہے۔ مجھے ترس آتا ہے اُن مردوں پر جو کوٹھوں پر لاعلمی میں وہاں بیٹی
پیدا کرتے ہیں اور پھر ’اس کے جوان ہونے کے بعد ’اسی معاشرے سے اُنکے دوست،
بیٹے، بھائی حتٰی کہ بعض اوقات وہ خودبھی اپنی ہی پیدہ کردہ بیٹی سے زنا
کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لئے کسی وحشیہ سے لطف اندوزیاں کرتے ہوئے ہرگز نہ
بھو لئے گا کہ وہ آپ کی کچھ نہیں لگتی اگر آپ کوٹھے کے معمول کے گاہک ہیں
تو عین ممکن ہے کہ وہ آپ ہی کا خون ہو ۔ میرے قابل دوست اور شفیق استاد”علی
ارشد گیلانی “صا حب اپنے کلام میں متذ کرہ بالا تمام کرداروں کی خا کہ کشی
کچھ یو ں کر تے ہیں
باسیِ خُلدہواکیوں شرمسار خدا خیر کرے
بھائیں گے کیسے یہ ریگزار خدا خیر کرے
سجد ہ ریز ہوئے قد سی جوپائے آدم ؑپر
تیر ے بگڑے کیو ں اطوار خدا خیر کرے
لوبکنے آئی ہے بنتِ حوا سرِبازار زیرک
اور ابن ِ آدم ہے خریدار خدا خیر کرے
ایسے بے ضمیر اور کمزور ایمان لوگ جنہیں کوٹھے پہ گونجنے والی چھن چھن کی
آواز سے را حت ملتی ہے ان کی حا لت ایسی ہے جیسے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھے
اپنی ہی بیٹی سے زنا کر رہے ہوں۔ |