مذہب اسلام اور نسب کا تحفظ

اسلامی تعلیمات نے د نیا کو عفت و پا کبازی کا بڑا ہی پا کیزہ اور ستھرا معاشرہ عطا کیاہے۔

ازقلم: محقق مسائل جدیدہ مفتی محمدنظام الدین رضوی صاحب،مبارکپور،انڈیا

نسب ہی تمام نسبتی رشتوں کی بنیاد ہے ۔اگر یہ محفوظ نہیں تو پیدا ہونے والے بچے کا دنیا میں کو ئی رشتہ دار نہیں ہے ۔نہ باپ ،نہ بھائی ،نہ بہن ، نہ داد ،نہ دادی ،ہاں اس کی ماں ہو تی ہے لیکن عموماًایسی ما ئیں یا تو شرمندگی کی باعث یا سماجی با ئیکاٹ کے خوف سے ناجائز تعلقات پیدا ہو نے والے بچے کو کہیں پھینک دیتی ہےں ۔پھر تو اس کی نگا ہوں میں ساری دنیا تاریک ہو تی ہے،یا اسپتال میں چھوڑ آتی ہےں جہاں یقینا اسے ماں کی شفقت ،باپ کا پیار بہن ،بھائی کی محبت نہیں مل سکتی اور بہر حال انسانوں کی اس دنیا میں اس کا کوئی رشتہ دارنہیں ہوتا ۔ایک ذراسی ہو س پرستی نے ایک بے گناہ کی دنیا اجا ڑدی اور اب تو ایڈس کے جراثیم خود ایسے ہی ہوس پرستوں کی دنیااجاڑرہے ہیں ۔اسلام ان انسداد کے لئے بد کاری پر سختی کے ساتھ قابو پانے کی کوشش کی اور اس کے لئے عبرت ناک سزا کا اعلان کیا ۔ارشاد ربانی ہے کہ :”زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے مارو“۔(النور:۱)اور اگر دونوں شادی شدہ ہوں تو انھیں سنگ سار کرنے کا حکم ہے۔ان احکام کی برکت سے انسانی معاشرہ بد کاری کی آلودگی سے بہت حد تک پاک ہو چکا تھا ۔کیوں کہ اسلام نے اس لئے صرف بس نہ کیابلکہ اس کے لئے ذہن سازی اور کردار سازی پر بہت زور دیا۔ قرآنی آیات اور فرمودات نبوی میں بار بار عفت و پا کیزگی کی تعلیم دی گی ہے ، نکاح کا حکم دیا گیا ۔اس کی رغبت دلائی گئی ۔اس کے فوئد اور ثمرات سے روشناس کرایا گیا ہے اور پھر بھی اجنبی مرد اور اجنبی عورتوںسے نگاہیں جھکائے رہنے کی ہدایت فرمائی گئی اورا گر عورت کو گھر سے باہر نکلناہو تو پردے کے ساتھ نکلنے کا پابند کیا گیا ہے اور دوسروں کے گھروں میں کسی بھی اجنبی کو بے اجازت داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے ۔

سورة نور میں ہے:اے ایمان والوں اپنے گھروں کے سوادوسروں کے گھروں میں مت جاﺅ ،جب تک خبر نہ کرلو اور ان کے گھر والوں کو سلام نہ کرلو ۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم یاد رکھو “ ۔(سورئہ نور،۴) نیز ارشاد باری ہے کہ:اے نبی! ایمان والوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنے آنکھیں نیچی رکھیں ۔اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں یہ ان کے لئے بڑی ستھری بات ہے ۔بے شک اللہ اس سے با خبر ہے جو وہ کرتے ہیں ۔(سورة نور :۴)اے محبوب ! ایمان والی عورتوں سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں ذرا نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں اور بناﺅ سنگھا ر نہ ظا ہر کریں مگر جو عادتا ً کھلا رہتا ہے اور اپنی اوڑھنی اپنے گریبانوں (یعنی سینوں )پر ڈالے رہیں اپنا سنگھا ر نہ ظا ہر کریں مگر اپنے شوہر یا اپنے باپ کے آگے ۔

یہی وہ تعلیمات ہیں جس نے دنیا کو عفت و پا کبازی کا بڑا ہی پا کیزہ اور ستھرا معاشرہ عطا کیا تھا اور آج جیسے جیسے ان تعلیمات سے دنیا دور ہو رہی ہے اس قدر ما حول گندہ ،پرا گندہ اور بد سے بدترہو تا جا رہا ہے ۔جس کا یک واضح ثبوت ہے کہ دنیا آہستہ آہستہ ”ایڈس “اور”ایچ ، آئی،وی “جیسے مہیب وخطر ناک مرض کے لپیٹ میں آتی ہے اور نام نہا د ترقی پزیر ممالک میں تو یہ بیماری عالمی وبا کی شکل اختےار کرتی جا رہی ہے۔پوری دنیا میںتقریباًچالیس ملین لوگ ایچ آئی وی اور ایڈس کا شکار ہیں اور ہر سال چھہتر ملین لوگ اس بیما ری کا شکار ہو جا تے ہیں۔یہ بیماری شرمگا ہوں کی حفاظت نہ کرنے سے وجود میں آئی ہے اور اب اس سے جراثیم ماں کے دودھ میں بھی سرایت کرچکے ہیں ۔بتایا جا تا ہے کہ تقریباً ساڑھے تین فیصد افراد ایڈس اور ایچ آئی وی مریضوں کی ایسی تعدادہے جن کو رحم مادر ، پیدائش اور ماں کا دودھ پینے سے ہوتاہے۔ اگر قرآن کی مقدس ہدایات ”یحفظوا فروجھم “اور ”یحفظن فروجھن“ پر عمل کیاگیا ہوتا تو انسانی سماج کو ان برائیوںاورایسی تباہ کا ریوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ ما ﺅں کو صلاح دی جا تی ہے کہ شیر خوار کو اپنا دودھ نہ پلا ئیںا گرپلانا ہی چاہیں تو پہلے دودھ نکال کرا بال لیںیا پھر بچے کو با ہر کا دودھ اور کھانے کی کسی قسم کی کوئی چیز نہ دیں مگر حال وہی ہے جو کسی نے کہا ہے
مریض عشق پر لعنت خدا کی ہے
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس خطرناک مرض کا سیدھا سادہ نسخہ ہے” حفاظت فروج“کاش کہ ہیومن رائٹس کے علم بردار یہ نسخہ کیمیا ءحقوق انسانی کی فہرست میں شامل کرلیتے ۔مصطفی جان رحمت ﷺکی تعلیمات میںحفاظت عقل نسب کو انسان کے بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا ہے ۔جبکہ آج کے ترقی یافتہ دنیا اس کے بر خلاف شراب نوشی ،جنسی اختلاط کا اذن عام دے رہی ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اسلام سے بھا گنے والے اس ترقی پسند دور میں بھی اسلام کی حق شناشی کے مقابل چودہ صدی پیچھے ہیں ۔اور نہ جانے ان کے حقوق کی عظمتوں کا احساس اور ان کی پاسدا ری کا پاس ہوگا یا نہیں ؟انسانی برادری کے باہمی حقوق میں یہ پانچوں امور دین،جان ،مال ،عقل، نسب بہت بنیا دی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں ”کلیات خمس “ کہا جاتا ہے ۔ان کے علاوہ اور بہت سے حقوق ہیں مثلاًعفو ودرگزر ،تواضع و انکساری ،احسان ، باہمی تعاون ،خوش کلامی،ہر ایک کے مرتبے کا لحاظ ،چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا ادب وغیرہ۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731461 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More