حق رائے آزادی ہر کسی کو حاصل ہے
لیکن کوئی ایسا کام کرنا یا ایسی بات کرنا جو ملک کے لئے یا کسی بھی قومی
ادارے کے لئے نقصان دہ ہوسے اجتناب برتنا چاہئے لیکن موجودہ دور میں جہاں
پاکستان مختلف قسم کے چیلنجز سے نبرد آزما ہے اس ملک کے کچھ میڈیا پرسنز
اپنے تئیں ملک کو بچانے کا ٹھیکہ لئے بیٹھے ہیں اور بلا سوچے سمجھے ہر کسی
کو ایک ہی حساب سے ہانکے جا رہے ہیں ،ہر ادارے پر چینی نکتہ چینی جاری ہے
اور تو اور کچھ نام نہاد میڈیا کے ٹھیکیداروں نے عدالت عظمیٰ کو بھی نہیں
بخشا،ان لوگوں میں کچھ تو وہ لوگ بھی ہیں جو فحاشی و عریانی کو جدت سے
تشبیہ دیتے ہوئے اسے عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر ان کے راستے میں
کوئی روڑے اٹکائے تو اسے بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے تعصب ذدہ اور کئی
طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے ۔
آج لکھنے کا موضوع کوئی اور تھا لیکن بات نکلی تو نکلتی ہی چلی گئی حق رائے
آزادی ہر بندے کو حاصل ہے لیکن اب عام آدمی سے یہ حق چھینا جا رہا ہے اس
لئے اب میرا جیسا عام آدمی صرف سوچ سکتا ہے بول نہیں سکتا کیونکہ ہاتھ کچھ
نظر نہ آنیوالی زنجیروں میں بندھے ہوئے ہیں اس لئے جو عام آدمی سوچتا ہے اس
عوام کی سوچ کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر قلم کے ذریعے ارباب اقتدار تک
پہچانے کے لئے اخبارات کا سہارا لیا جاتا ہے کسی سوچ کو ارباب اختیار کی
توجہ حاصل ہوجاتی ہے تو کوئی سوچ بھٹکتے بھٹکتے پھر سے عوام کے پاس پہنچ
جاتی ہے اور عوام پھر سے سوچنا شروع کر دیتے ہیں ۔
عام انسان کی طرح میں بھی سوچوں کے محور میں گم تھا اورخیالی دنیا میں ملک
کی بہتری کے خواب دیکھ رہا تھا کہ آنکھ لگ گئی ،آنکھ کیا بند ہوئی خواب کی
وادیوں میں کھو گیا جہاں پر جو دیکھا وہ آپ قارئین کی نذر ہے۔
سوئس حکام کو خط لکھا جا چکا ہے صدر صاحب خود عدالت میں حاضر ہو کر مشروط
معافی مانگ چکے ہیں بیرون ملک اثاثے پاکستان میں آچکے ہیں جس سے پاکستان کا
سارا قرض اتر گیا ہے اور ملک خوشحالی کی طرف گامزن ہو گیا ہے،لوڈشیڈنگ اور
دیگر بحران ختم ہو گئے ہیں جن وزیروں،مشیروں نے حکومت ختم ہونے کے بعد
پاکستان سے باہر جانے کا سوچا ہوا تھا انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا ہے
اور کہا ہے کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان کی عوام کے ساتھ ہے ہم عوامی لوگ
ہیں ،وی۔آئی۔پی ،جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی کا خاتمہ ہو گیا ہے اب
عام بندہ بھی صدر،وزیراعظم،وزیر اعلیٰ اور گورنرز سے ڈائریکٹ ملاقات کر
سکتا ہے کیونکہ سب عہدیدار بغیر پروٹوکول کے عوامی مقامات پر نظر آتے ہیں
اور پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں ،میرے ملک میں ہر طرف ہریالی ہو چکی ہے
ڈرون طیارے گرانے کے بعد ڈرون اٹیک رک چکے ہیں ،دہشت گردی قصہ پارینہ بن
چکی ہے ،ٹارگٹ کلنگ کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے ،چہار سُو امن کے پرچم لہرا
رہے ہیں ،تفرقہ بازی ،لسانیت ،قومیت اور صوبائیت کا شیطان مر چکا ہے اور ہر
طرف قومی پرچم لہراتے ہوئے یہی صدا آرہی ہے
اس پرچم کے سائے تلے
ہم ایک ہیں ،ہم ایک ہیں
انہی حسین سپنوں میں کھویا ہوا تھا کہ ٹیلی فون کی تیز گھنٹی نے خوابوں کا
سلسلہ توڑ دیا ،دوسری طرف ڈی۔جی خان سے ایک دوست تھے جو بتا رہے تھے کہ اس
سال بھی سیلاب تباہی مچا رہا ہے ،مکان بہہ رہے ہیں لوگ مر رہے ہیں اور
سیلاب کا ریلا سبھی کو بہائے لے جا رہا ہے میں پھر تصور ہی میں تباہی کا
اندازہ لگانے لگا کہ گزشتہ سال جب سیلاب نے تباہی مچائی تھی تو میں ان
سیلاب ذدہ علاقوں میں گیا تھا وہاں سب کچھ تباہ ہو چکا تھا اور اک بار پھر
پانی تباہی مچا رہا ہے اور ہمیں خبردار کر رہا ہے کہ سنبھل جاﺅ اور گناہوں
سے تائب ہو کر اپنے اللہ کی طرف لوٹ آﺅ، لیکن ہم خواب غفلت میں ڈوب چکے ہیں
ہم نہیں اٹھیں گے کیونکہ ہم بے حس ہو چکے ہیں ہم حقوق اللہ کے ساتھ حقوق
العباد کو بھی بھول چکے ہیں جس کی وجہ سے مصائب و آلام ہم پر مسلط ہو چکے
ہیں ،قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ کے مفہوم کے مطابق ”خشکی اور تری میں
جو بھی فساد ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے ،بولنے سے پہلے تول
لینا چاہئے اور قدم اٹھانے سے پہلے دیکھ لینا چاہئے کہ ہم کس طرف جا رہے
ہیں؟؟؟ |