ایک غیر سرکاری سروے کے مطابق
حالیہ گزرے رمضان المبارک میں روزہ داروں کی تعداد پچھلے سال کی نسبت
70فیصد کم ہوئی یعنی کے پچھلے سال جن 10روزہ داروں نے پورے روزے رکھے تھے
اس سال ان میں سے 7روزہ داروں نے روزے نہیں رکھے یا پورے روزے نہیں رکھے جب
کہ صرف 3روزہ داروں نے پورے روزے رکھے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق ملت اسلامیہ
میں مسلمانوں کی فیصد تعداد 99سے کم ہو کر 97فیصد رہ گئی ہے یعنی کے وہ ملک
کے جو دین اسلام پر حاصل کیا گیا تھا اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
مسلمانوں کی تعداد دن بدن زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوتی جارہی ہے ۔دوسری
رپورٹ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ ملت اسلامیہ کے تمام مسلمانوں کے لئے باعث
فکر اور باعث ندامت ہے جبکہ پہلی رپورٹ پڑھ کر کسی کو حیرت کا سامنا نہیں
کرنا پڑا ہو گا کیونکہ سبھی افراد نے اس رمضان المبارک میں بے شمار ایسے
افراد دیکھے ہوں گے جنہوں نے کسی نہ کسی بیماری و حیلو حجت کا بہانہ بنا کر
روزے خوری کی ہو گی ۔رہ زہ خوروں کے متعلق رپورٹ تو ابھی منظر عام پر آئی
ہے مگر کچھ تجربات اور مشاہدات نے لیٹ آنے والی اس رپورٹ کی صداقت پر مہر
لگا دی ہے ۔
چونکہ اس رمضان المبارک میں لوڈشیڈنگ بام عروج پر رہی اور مسلمان ملک میں
مسلمان حکومت نے مسلمان روزہ داروں کے لئے رمضان المبارک لوڈشیڈنگ کی وجہ
سے نہایت سخت کیے رکھا سحر و افطارکے اوقات بجلی کا نہ ہونا معمول تھا جبکہ
تراویح کے وقت بجلی لیکر جانا حکومت کا اولین فرض تھا جبکہ روزہ دار وں کے
اوقات آرام میں لوڈشیڈنگ کر کے عوام کو بیدار کئے رکھنا مسلمان حکومت کی
مجبوری تھی اور باقی چار پانچ گھنٹے بجلی کا ہونا ایک معجزہ تھا جس کا سارے
کا سار ا کریڈٹ حکومت وقت کو جاتا ہے ۔تجربہ اور مشاہدہ یہ ہے کہ اس رمضان
المبارک کے تیس دنوں میں سے ایک دن میں اپنے گھر کے پاس موجود ایک دکان کی
طرف روانہ ہوا غالباً دن کے تین بج چکے تھے اور بجلی کو غائب ہوئے چوتھا
گھنٹہ شروع ہو چکا تھا گرمی اپنے عروج پر تھی گھر کے کمرے دھوپ کی شدت سے
تندور بنے ہوئے تھے جبکہ رہی سہی کسر حبس اور لوڈشیڈنگ نے پوری کی ہوئی تھی
گھر کی گرمی اور حبس سے جان خلاصی کے لئے میں نے اپنے گھر کے پاس موجود
کریانہ سٹور کا رخ اس نیت سے کیا کہ سڑک پر چلتی لو کریانہ سٹور کے باہر
لگے درخت کے سایہ میں آکر شاید باد نسیم بن جائے ۔درخت کے سائے سے مستفید
ہونے سے پہلے برادرانہ اسلامی ضابطے کے تحت میں نے کریانہ سٹو ر کے مالک کو
سلام کرنا مناسب سمجھا اس برادرانہ اسلامی فریضہ کی انجام دہی کےلئے جیےسے
ہی کریانہ سٹور کے حدود میں داخل ہوا کریانہ سٹور کے مالک کے ساتھ دو اور
افراد چپس اور کولڈ ڈرنکس کے ساتھ ریفریش ہورہے تھے اور مزے کی بات کے اس
گناہ کے کام کو سرعام کرنے میں نہ انہیں کوئی شرم تھی اور نہ ہی کوئی ڈر و
خوف۔ان روزہ مار مسلمانوں کی اس دیدہ دلیری کو دیکھتے ہوئے مجھے حیرت ہوئی
اور خوف آیا کہ اللہ پاک جلال میں آگئے توکیا ہو گا میرے سامنے وہ ایام
گزرنے لگے کہ جب رمضان المبارک کے عشرہ رحمت میں اللہ پاک نے اس زمین کو
ہلایا اور ہزاروں پاکستانی مسلمان پلک جھپکتے صفحہ ہستی سے مٹ گئے یہ صدیوں
پرانی بات بھی نہیں ہے نہ ہی حضرت نوح ؑ یا حضرت شعیب ؑ کی قوم کا قصہ ہے
یہ2005کی بات ہے جی ہاں صرف سات سال پہلے کی بات ۔حیرت ہے کہ صرف سات سال
پہلے کے عذاب کو ہم بھول کر پھر وہی اللہ پاک کی نافرمانی کرنے لگ پڑے
اورنافرمانی بھی سرعام کہ جس میں ذرا برابر ڈر و خوف نہیں نہ رحمت العالمین
کی سنت سے روگردانی کا اور نہ اللہ پاک کی ناراضگی کا۔
ابھی میں ان روزہ مار مسلمانوں سے سلام دعا اور حال احوال سے فارغ بھی نہیں
ہوا کہ اس کریانہ سٹور پہ ایک اور فرد نمودار ہوا جو یقیناً مسلمان ہی تھا
جس نے آتے ہی دودھ کے دو پیکٹ کے ساتھ دو سگریٹ لئے ایک سگریٹ سلگا کر اپنے
ہونٹوں سے لگا کر ایک کش بھراجبکہ دوسرا سگریٹ جیب میں ڈال کر روانہ ہوایہ
شخص مجھ سے تقریباً دو میٹر کے فاصلے پر تھا مگر اس کے سگریٹ کی سلگائی
ہوئی آگ سے میرا سینہ تک جل گیااتنی گرمی اورشدید حبس میں سگریٹ کی آگ نے
اس آگ کی یاد دلا دی جو قیامت والے دن نافرمانوں کےلئے دوزخ میں دہکائی
جائے گی ۔میں گھر سے گرمی کی شدت ، تپتے چھت اور حبس سے جان خلاصی کےلئے
باہر درخت کے سایہ میں پناہ گزین ہونے کےلئے آیا تھا مگر امت مسلمہ کی اس
سرعام نافرمانی کو دیکھ کر گرمی محسوس کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو گئی ۔اس
بدترین مشاہد ہ کے ساتھ ہی یہ رازبھی افشاءہوا کہ میرے محلہ کے امراءدن
دگنی رات چگنی ”ترقی“ کر رہے ہیں جن کی ترقی کا راز وہ ”کاروبار “ ہے کہ جس
سے بچنے کا انتباہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بے پناہ کیا حتیٰ کہ اس قبیح
کاروبار کرنے والوں کو اللہ پاک اور اپنے رسول پاکﷺ سے جنگ کے مشابہ کہلا
دیا۔یعنی جنگ بھی اس ہستی سے کے جس کے دسترس میں اس پوری کائنات کا ذرہ ذرہ
ہے اور جو قیامت کے دن کا مالک ہے جو رحیم بھی ہے تو قہار بھی ہے ۔اس ذات
کےلئے اپنے اور اپنے پیارے نبی ﷺ کے نافرمانوں کی سزا و جزا کےلئے کوئی دیر
بھی نہیں اور نہ ہی کوئی اور حجت۔
سر عام روزہ ماری اور سودی کاروبار کا قبیح ترین مشاہدہ کرکے سمجھ نہیں آیا
کہ ہم کس منہ سے اللہ پاک سے بارش کی دعا مانگتے ہیں ، کس منہ سے حکمرانوں
کی بے حسی اور بے رحمی کے رونے روتے ہیں ، کس منہ سے اللہ پاک سے بیماریوں
کے ٹلنے اورناگہانی آفات سے بچنے کےلئے ہاتھ اٹھاتے ہیں حالانکہ اس سرعام
نافرمانی کے بدلے ہمیں تو وہ عذاب ملنے چاہئیے کہ جن کے مسلط ہونے پر
بستیاں سنسان اور تہہ و بالا ہو گئیں قوم نوح ؑ ہو یا قوم شعیبؑ رعایت کسی
کے ساتھ بھی نہیں ہوئی پھر اللہ پاک اس قوم کو سرعام نافرمانی پر کیوں اتنی
ڈھیل دے رہی ہے ورنہ قوم عاد و ثمود جیسا غرور تو ہم میں بھی ہے ، قوم شعیب
ؑ جےسی بے ایمانی تو ہم قدم قدم پر کرتے ہیں ، قوم نوح ؑ جیسی نافرمانی تو
ہمارا شیوہ ہے پھر آخر کیوں یہ قہار ہستی ہمیں اتنی ڈھیل دے رہی ہے ؟؟اس
سوال کے حصار میں کھویا ہوا تھا کہ یک دم اس عظیم ہستی کا خیال ذہن میں آیا
کہ جس کے طفیل اللہ پاک ہمیں سرعام نافرمانیوں کے بعد بھی ڈھیل دیا جا رہا
ہے اور اپنی رحمت و برکت سے عنایات ہی عنایات کر رہا ہے یہ وہ ہستی ہے کہ
جوفتح مکہ کی پوری رات رو رو کر اپنی امت کی سلامتی کےلئے دعائیں مانگتی
رہی ،یہ وہی ہستی ہے کہ جس نے اپنے لئے بھوک و افلاس اور مشکلات کو ترجیح
دی لیکن اپنی امت کےلئے راتو ں کو رورہ کر آسانیاں اور راحتیں طلب کی ، یہ
وہی ہستی ہے کہ جو دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے بھی امت امت کرتی رہی اور
یہی وہ ہستی ہے کہ جو قیامت کے نفسا نفسی کے دور میں بھی یار ب امتی یا رب
امتی کی صدا بلند کر رہی ہو گی ،یہی وہ ہستی ہے کہ جو حوض کوثر پر بیٹھ کر
اپنی امت کی پیاس بجھا رہی ہو گی ۔اتنی محبت ، اتنی چاہت ، اتنی وفا کرنے
والی ہستی کے ساتھ امت کی یہ بے رخی کچھ بے معنی سی لگتی ہے یہ تو سراسر ہٹ
دھرمی ہے بے وفائی ہے ذرا سوچئے اس ہستی کی رحمتوں اور وفاﺅں کے بدلے بے
وفائی کر کے قیامت والے دن کس منہ سے اس ہستی سے بخشش کے طلب گار بنیں گے
کس منہ سے حوض کوثر پر اس ہستی کا سامنا کریں گے کس منہ سے اسکی امت کے
جھنڈے تلے جمع ہو گے ؟ |