رات کا تیسرا پہر گزرنے کو ہے
لیکن بہت کوشش کے بعد بھی نیند کا دور دور تک نام و نشاں نہیں.دل میں ایک
جلن،اک کڑھن،ایک تکلیف کا احساس مزید زور پکڑتا جا رہا ہے.ایک ندامت.احساس
شرمندگی ہے جو کسی صورت چین نہیں لینے دے رہی….ایک کسک، ایک تڑپ جو اب
آنسوؤں کی شکل میں رواں ہونے کو ہے۔
درندوں کی ایک اور کوشش. انسانیت سے عاری مجرموں کا ایک اور غلیظ حملہ.
بدبودار اور کمینہ فطرت انسانوں کا ایک شیطانی ٹولہ کائنات کی سب سے مقدس
ہستی پر حملہ آور ہوا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم. ہم آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے امتی
ہونے کے دعو یدار.آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے گن گانے والے .آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے حوض کوثر پر جام پینے کے لئے تڑپنے والے اور آپکی
شفاعت کے فقیر. آج اس قدر بے کس و مجبور کس طرح ہوگئے کہ جوغلیظ انسان جب
چاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرے، ہجو بکے،اور ہم چپ
سادھے دم بخود ایک بار پھر سب کچھ برداشت کرتے چلے جائیں؟
شاید یہ ہم سب کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ ہم گناہوں میں لتھڑے ہوئے، اپنی
اپنی دنیا میں مگن، اور ساری زندگی رب کی نافرمانیوں میں گزارنے والے .
کفار یہ سب دیکھتے رہے اور یکے بعد دیگرے غلیظ حرکتیں کرتے رہے۔ اور ہم چپ
چاپ برداشت کرتے رہے، کسی کو اتنی فکر کہاں؟ لیکن اس بار وہ ہر حد پار کر
گئے اور ہم سراپا احتجاج بن گئے۔ اس ملعون اور خباثت سے بھرے انسان کو صرف
دو منٹ کی پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا کہ تم نے جو کچھ کیا. ٹھیک کیا۔
مسلمانوں سے ہمیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ، آج کے مسلمان بہت بدل گئے۔ یہ کچھ
دن سڑکوں پر پلے کارڈ اٹھا کر کھڑے ہوں گے اور پھر بھیگی بلی کی طرح خاموش
ہو جائیں گے۔
آہ آج ایسے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ ہو گیا جو یا رب امتی
یا رب امتی فرماتے دنیا سے پردہ فرما گئے۔ آج اسی امت کے سامنے چند بھیڑیوں
نے امت مسلمہ کو کمزور جانتے ہوئے غلیظ حرکت کر ڈالی۔ جو اپنی امت کو موت
کی تکلیف سے بچانے کے لئے عزرائیل سے آخری وقت میں فرماتے ہیں۔ ’’ میری امت
کو موت کی جتنی تکلیف دینی ہو وہ سب آج مجھے دے دے لیکن میری امت کو موت کی
تکلیف مت دینا ‘‘ فداک ابی وامی، فداک ابی وامی۔ صلی اللہ علیہ وسلم، صلی
اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم
سلام ہو’’ بن غازی ‘‘کے ان مکینوں پر ، ان جانبازوں پر جنہوں نے اپنی جان
پر کھیل کر امریکہ کو یہ بتا دیا کہ ’’تم کچھ بھول رہے ہو ‘‘ ہر زمانے میں
مسلمانوں کی ایک جماعت ایسی رہتی ہے جو رب کے ہر حکم کے آگے سر جھکاتی ہے،
جو اپنے مذہب دین اسلام کی خاطر کٹ مرنے کو ہر دم تیار رہتی ہے۔جو اپنے نبی
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی قطعاً برادشت کرنے کو تیار نہیں۔سلام ہو
ہلمند ائیربیس پر حملہ کرنے والے اور کفار کو اس ناپاک حرکت کا منہ توڑ
جواب دینے والے فدائیان اسلام پر. جنہوں نے امریکی اور برطانوی فوجیوں پر
تابڑ توڑ حملہ کر کے درجن کے قریب واصل جہنم کیے۔ سلام ہو شام کے مسلمانوں
پر ، جنہوں نے اسلام کی لاج رکھی اور امریکیوں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور
کر دیا۔ سلام ہو یمن اور انڈونیشنیا کے مسلمانوں پر جنہوں نے آواز بلند کی
اور شدید ترین احجتاج ریکارڈ کروایا۔
نام نہاد دانشور اور اور عقل و خرد رکھنے والے یہ سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ
جو ہوا غلط ہوا مگر اس سے بھی زیادہ برا اور بڑا گناہ امریکی سفیر کا قتل
ہے.اسلام تلوار کے بجائے کردار سے پھیلانے کی نصیحتیں سامنے لائی جاتی ہیں
،مگر کہیں ان جاہل اور کم عقلوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخ نبی
کیلئے ہدایات نظر نہیں آتی؟
یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ایمان کا یہ عالم تھا کہ گستاخ
رسول کا زندہ رہنا ان کو گوارا نہیں تھا۔ جب انہیں معلوم ہوتا کہ فلاں شخص
گستاخ رسول ہے تو اس کو قتل کرنے کے لئے جھپٹ پڑتے۔
خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک(رح) سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا
حکم دریافت کیا
تو آپ نے فرمایا ….. ’’ما بقائ الام بعد شتم نبیّہا ؟‘‘
اس امت کے باقی رہنے کا کیا جواز ہے کہ جس کے نبی کی توہین کر دی جا ئے۔
آج امت کے جس طبقہ کو اس معاملے میں جتنا تڑپنا اور کفار کے درپے ہو جانا
چاہیے تھا وہ سب سے زیادہ غافل ہے۔جی ہاں! آج کا مسلم نوجوان لبوں پر مہر
سکوت لگا کر خاموش بیٹھا ہے۔آج پیارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
الفت و محبت کا رشتہ کمزور پڑچکا ہے۔ آج دلوں میں عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا جذبہ مدہم پڑچکا ہے۔ غیرت فاروقیت مدت ہوئی کہیں چھوٹ گئی۔
بہت کچھ کھو دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہود وہنود کی گستاخیاں سامنے ہیں پھر بھی
غصہ نہیں آتا، جذبات نہیں بھڑکتے۔ لیکن شاید نہیں! غصہ آتا ہے، جذبات بھی
بھڑکتے ہیں۔ لیکن کب! جب کوئی ہماری ماں کو گالی دیتا ہے، جب کوئی ہمارے
باپ کی توہین کرتا ہے۔ تب ہم منہ سے کف نکالتے، غصے سے باؤلے ہو کر اپنا
آپ کھو بیٹھتے ہیں۔
اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور
تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ
تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ محلات جنہیں تم پسند کرتے ہو.اگر یہ
تمہیں اللہ سے. اور اس کے رسول سے. اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ
عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالیٰ
فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ ﴿ التوبۃ ﴾
محبت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دم بھرنے والو! آؤ دل و دماغ کی اتھاہ
گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں جب روز قیامت جمع ہوں گے‘ نفسا نفسی کا عالم
ہوگا۔ ماں باپ‘ دوست یار کوئی کام نہیں آئے گا۔ اس وقت ایک ہی تو ذات اقدس
ہوگی، جو عاصیوں کی امیدگاہ ہوگی۔ اسی آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت اقدس میں سب کو حاضری دینی ہوگی۔ اگر پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے استفسار فرمالیا کہ تمہارے سامنے کبھی ڈراموں کے ذریعے اور کبھی فلمیں
بنا کر میری شان اقدس میں گستاخیاں کی گئیں‘ تم نے کیا کیا؟ توہین آمیز
خاکے اور تعصب خیز لٹریچر شائع کئے گئے‘ تم نے کیا کیا؟ کیا ہمارے پاس ان
سوالوں کے جواب ہیں؟ یاد رکھو! اگر خدانخواستہ شافع محشر روٹھ گئے تو کیا
کریں گے؟سوچو! غور کرو! پھر کس کے دروازے پر شفاعت کی بھیک لینے جائوگے؟
کون اللہ عزوجل کے قہروغضب سے بچانے والا ہوگا ؟ اے مسلمانو! آج محبت رسول
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہم سے تقاضا کررہی ہے کہ اپنی لہکتی ہوئیں جوانیاں
تحفظ ناموس رسالت کے لئے وقف کردیں۔اے نوجوانو! خالد بن ولید‘ صلاح الدین
ایوبی اور غازی علم الدین شہید کے جذبات لے کر اٹھو اور ان گستاخوں کا سراغ
لگا کر انہیں کیفر کردار تک پہنچائو تاکہ حشر کے میدان میں شافع محشر صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سرخرو ہوسکو۔ وہ ہمیں دیکھ کر منہ مبارک نہ
پھیر لیں کچھ ایسا کر جاؤ، کہ جان جائے تو جائے مگر نبی کی عزت پر کئی حرف
برداشت نہ ہو۔صلی اللہ علیہ وسلم،صلی اللہ علیہ وسلم، صلی اللہ علیہ وسلم
مسلمانو آؤ ! اب تک جو غفلت ہوئیاس پر رب سے معافی مانگیں، امت محمدیہ
ہونے کی حیثیت سے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے تقدس کی حفاظت کی قسم
کھا کر گستاخون کو واصل جہنم کرنے کا پختہ عزم پیدا کریں۔تاکہ ملعون ’’
ٹیری جونز ‘‘قرآن مقدس کا دشمن، ہمارے نبی کا دشمن، رب کے خلاف اعلان جنگ
کرنے والا زمین کی خاک چاٹتا نظر آئے۔ اس کے چیتھڑے کتے نوچ نوچ کر کھائیں
وہ مردار اور بدبودار انسان نما درندہ، خنزیر سے بدتر کیفر کردار کو پہنچے۔
ربا !! ہمیں معاف فرما دیجیے، آج ہم کمزور اور لاچار ہو گئے۔ اپنی نبی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت نہ کر پائے۔ آج ملعون درندوں کو اتنی ہمت ہو
گئی کہ وہ آپ کے محبوب پر حملہ آور ہوں۔ ہمیں معاف فرما دیجیے، ہمارے اعمال
ہی کا نتیجہ ہے، ہم نے بھلا دیا آپ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
تعلیمات کو، ہم رسوا ہو گئے، ہم ذلیل ہو گئے ، ہم برباد ہو گئے۔ ربا ہمیں
معاف فرما دیجیے۔ ربا ہمیں معاف فرما دیجیے۔ ربا ہمیں معاف کر دیجیے۔ |