اظہارِ رائے کی آزادی یادہشت گردی

میری جان بھی قربان ہو اُس ذات پر جس کی محبت ماں باپ، اولاد اور دنیا کی ہر محبت سے بڑھ کر عظیم ہے اور ہر مسلمان کے لیے باعث عزت اور باعثِ افتخار ہے جس کے نام پر ہر مسلمان کٹ مرنے کے لیے تیار ہے جس کے نام کی حرمت بعد ازخدا کائنات میں سب سے زیادہ ہے اور جس کی محبت مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ یہی محبت اور جانثاری ہے جو غیر مسلم دنیا کو بے چین رکھتی ہے کہ آخر وہ کون سی قوت ہے جو مسلمان کو اس جذبے سے سرشار رکھتی ہے کہ وہ اپنے نبی öکے نام پر جان سے گزر جاتا ہے۔ یہی تعصب اور اسلام دشمنی ہے جو کبھی ایک صورت میں اور کبھی دوسری شکل میں ابھر ابھر کر آتی ہے کبھی نعوذباللہ ڈرا محمد ö اور کبھی قرآن کو نذر آتش کرنے اور کبھی آپ ö پر تضحیک آمیز فلم کی صورت میں۔ لیکن صد شکر کہ یہ سب مسلمانوں کے ایمان کو مزید پختہ کر دیتا ہے۔

مغرب جو مسلمانوں کو متعصب ، تنگ نظر، بنیاد پرست اور دہشت گرد کہتا ہے خود اِن تمام خصوصیات کا مکمل مظہر ہے اگر اُسامہ بن لادن مغرب کو انتہائی مطلوب تھا کیونکہ وہ ان کے خلاف دہشت گردی کرتا تھا تو کیا ٹیری جونز اس سے کم درجے کا دہشت گرد ہے یہ تو مسلمانوں کی جان سے بھی کھیلتا ہے ان کے جذبات سے بھی اور ان کے دین سے بھی اور مسلمان جان اور جذبات کی قربانی اگر خوشی خوشی دیتا ہے تو دین کی خاطر لیکن جب اُس سے دین کی قربانی مانگی جائے تو وہ مانگنے والے کی جان لینے اور اپنی جان دینے سے دریغ نہیں کرتا یہ بات اہل کفر بھی جانتے ہیں تو کیا یہ حرکات کر کے وہ خود دہشت گردی نہیں کر رہے ۔وہ اسلامی دنیا سے تومطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے مجرم ان کے حوالے کر دئیے جائیں تو اُن تک بھی مسلمانوں کا یہ مطالبہ پہنچ جانا چاہیے کہ نکولا بسلے اور اس کے ٹولے کے تمام دہشت گرد مسلمانوں کو انتہائی مطلوب ہیں کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا خاتمہ ان دہشت گردوں کے خاتمے کے ساتھ ہی منسلک ہے۔ یہ کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ اس مسئلے کا حل نکل آنا چا ہیے اور اس بات کا جوا ب بھی آجانا چاہیے کہ اہل مغرب اور حاکمانِ مغرب جو خود کو انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار کہتے ہیں وہ دوسرے مذاہب خاص کر اسلام کے ماننے والوں کو انسان ماننے کو تیار نہیں وہ کتے، بلی کے حقوق کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن مسلمان کے نہیں تو وہ دنیا میں امن کی توقع کیسے رکھتے ہیں ۔ اس وقت مسلمان ممالک جن مسائل سے دوچار ہیںاور جو اکھاڑ پچھاڑ یہاں پر جاری ہے اس تمام معاملے کے پیچھے امریکہ اور اس کے حواریوں کا ہاتھ ہے اور اس کے لیے سالہاسال تک اِن کی منصوبہ بندی جاری رہتی ہے ۔مسلمانوں کی نا اتفاقی اور آپس کے جھگڑے ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ آج بھی اگر مسلمان باہمی رنجشیں بھلا دیں تو وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن جائیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں متحد ہونے ہی نہیں دیا جاتا اور یوں دشمن کا ہر منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ اِس طرح کے مکروہ واقعات پر جس طرح مسلمان دنیا متحد ہو جاتی ہے اگر یہی جذبہ باہم موجود رہے تو نہ تو کوئی ٹیری جونزرہے نہ مولی نورس اور نہ نکولابسلے۔

جہاں تک مغرب کا یہ کہنا ہے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی پر پابندی نہیں لگا سکتے اس لیے نہ تو وہ ڈنمارک کے اخبارات نہ ان بیہودہ فلموں اور نہ قرآن پاک کی بے حرمتی پر پابندی لگائیں گے لیکن یہی امریکہ اپنے ملک کے خلاف صحافتی مواد پر بھی پابندی لگا دیتا ہے، اپنے خلاف زبانی کلامی بات کرنے والوں کو بھی مجرم قرار دے دیتا ہے، اندازوں اور تصورات کی بنا پر عراق پر حملہ آور ہوتا ہے، ایک اسامہ کے پیچھے پورے افغانستان پر کارپٹ بمباری کر دیتا ہے لیکن مسلمانوں کے مجرموں کو مکمل تحفظ دیتا ہے۔ مسلمان ملکوں میں کسی غیر مسلم کے ساتھ ایک معمولی سا واقعہ بھی پیش آئے تو اسے انسانی حقوق یاد آجاتے ہیں اور اس واقعے کو فوراََ پورے ملک اور پوری قوم کو سزا دینے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ یہ مسئلہ واقعی بہت بڑا ہے اور امریکہ کا یہ کہنا کوئی جواز نہیں رکھتا کہ ان واقعات میں ان کی حکومت ملوث نہیں بلکہ یہ انفرادی یا کسی گروہ کے افعال ہیں کیوں وہ چھوٹی سے چھوٹی حرکت پر بھی کسی اسلامی ملک کو ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔

آج کل ان واقعات میں جو تیزی آئی ہے وہ انتہائی قابل تشویش ہے اور ان پر مسلمانوں کا رد عمل فطری ہے اور مغرب یہ جانتا بھی ہے لیکن اِن کے سدباب کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھا رہا۔ مسلمان ممالک میں بھی کچھ روز ہنگامے ہوتے ہیں احتجاج کیا جاتا ہے اپنے ہی ملکوں میں توڑ پھوڑ ہوتی ہے حکومتیں بے حس رہتی ہیں اور عوام دلبرداشتہ ہوکر قابو سے باہر ہو جاتے ہیں۔وہاں مغرب اس تباہی پر خوش ہوتا ہے اور یہاں مظاہرین اور پولیس ایک دوسرے سے باہم دست و گریباں، اور ابھی ایک مسئلے کا حل نہیں نکلتا کہ دوسرا واقعہ ہو جاتا ہے ۔ ان واقعات کو روکنا صرف عوام کے بس کی بات نہیں بلکہ اسے پوری امت مسلمہ کو حل کرنا ہوگا ۔معدنی تیل کی جو دولت مسلمانوں کو میسر ہے اسے بطور ہتھیار استعمال کیا جانا چاہیے مسلمان ممالک جو امریکی، یورپی اور مغربی ممالک کی بہت بڑی منڈیا ں ہیں اِن کی اشیائ کا بائیکاٹ انہیں جس تجارتی خسارے سے دوچار کرے گا جو معاشی جھٹکا لگائے گا وہ انہیں اپنے زخم چاٹنے پر مجبور کردے گا۔ بات صرف غیرت ، حمیت اور احتجاج کو درست سمت فراہم کرنے کی ہے اور یہ بھی کہ احتجاج حکومتی سطح پر بھی ہو اور مغربی حکومتوں کو بہر صورت مجبور کیا جائے کہ وہ ایسی حرکات کرنے والوں کو یا تو خود سخت سزا دے یا انہیں مسلمانوں کے حوالے کردے۔ اگر وہ اور ان کا پوپ تک ہمارے قوانین ﴿توہین رسالت ﴾کی تبدیلی کا مطالبہ کر سکتا ہے تو ہم ان کے آزادی اظہار رائے کے قانون میں یہ شق شامل کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے کہ دوسرے مذاہب اور خاص کر اسلام ،رسول ö، قرآن پاک اور اکابرین اسلام کے خلاف بات کرنے والوں کو قابل سزا قرار دیا جائے اور انہیں سزا دی جائے ورنہ وہ یہ خاطر جمع رکھیں کہ جسے وہ دہشت گردی کہتے ہیں اور مسلمان جہاد یعنی کوشش، کفر اور ناحق کو مٹانے کی کوشش اور حق کو پھیلانے کی کوشش مزید پھیلے گیا اور کامیابی بالآخر حق کی ہوتی ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 509773 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.