ایک آدمی عباسی خلیفہ معتضد کے
پاس آیا اور کہا: امیرالمومنین آپ کے فلاں گورنر نے مجھ پر زیادتی کی ہے ،
معتضد نے پوچھا:’’ وہ فلاں گورنر کون ہے.؟‘‘
اس نے کہا:’’ بخدا! مجھے اس کا نام معلوم نہیں، لیکن اتنا یاد پڑتا ہے کہ
اس کے دائیں یا بائیں رخسار میں تِل یا مسہ ہے یا اس پر طمانچہ یا کسی
چنگاری کا نشان ہے اور ایک زمانے میں اس کا جریر ابو النجم نامی غلام بھی
تھا، ہاں! ایک بات اور بھی یاد آئی کہ اس کے نام میں طائی یا لام آتا ہے‘‘۔
معتضد اس کی بات سن کر ہنس پڑا اور کہا:’’ لگتا ہے تمہیں وسوسوں کی بیماری
ہے‘‘ اس نے کہا:’’نہیں‘‘ آپ جو چاہیں مجھ سے سوال کریں، میں آپ کو جواب دوں
گا‘‘
معتضد نے کہا: تمہاری انگلیاں کتنی ہیں؟‘‘
اس نے کہا: تین پاؤں .معتضد نے حکم دیا کہ اسے باہر نکال دیا جائے، وہ جاتے
جاتے کہنے لگا:’’جب میں گھر جائوں گا تو میری بیٹی عیدکے دن یہ سوچ کر میرے
سامنے اپنی جھولی پھیلائے گی کہ میں اس میں اخروٹ ڈالوں، اس وقت میں اسے
کیا جواب دوں گا؟‘‘ معتضد نے اپنے خدام سے کہا کہ اس کا گھر اشیائ خوردونوش
اور دیگر انعامات سے بھر دیا جائے۔﴿ ابن الجوزی: اخبار الحمقیٰ،ص ۰۷۱﴾
آپ سے ہمکلام ہوں
واثق باللہ عقیدہ’’خلق قرآن‘‘ کا قائل تھا اور جو اس کی مخالفت کرتا﴿اور
قرآن کے قدیم ہونے کا عقیدہ رکھتا جیسا کہ اہلسنت و الجماعت کا یہی عقیدہ
ہے﴾ تو وہ اسے سخت سزائیں دیتا، ایک آدمی اس کے پاس آیا۔
واثق باللہ: قرآن کے متعلق آپ کا کیا عقیدہ ہے؟‘‘
آدمی جان بوجھ کر بہرا بنا کھڑا رہا.واثق باللہ نے اپنا سوال مکرردہرایا۔
آدمی:’’ امیرالمومنین! آپ کس سے ہمکلام ہیں؟‘‘
واثق :’’تجھ سے‘‘
آدمی:’’ مخلوق‘‘﴿ یعنی میں مخلوق ہوں﴾ واثق یہ سمجھا کہ شاید یہ قرآن کے
مخلوق ہونے کا قائل ہے چنانچہ اس نے آدمی کو چھوڑدیا، یوں اس کی جان بچ
گئی۔﴿ابن عاصم: حدائق:ص ۴۱۲﴾
ثمانی کا لقب
معتصم باللہ کا لقب’’ثمانی‘‘ تھا،کیونکہ ان کی زندگی اور خلافت کے بہت سے
امور میں آٹھ کا ہندسہ بکثرت استعمال ہواہے، مثلاً یہ کہ وہ شعبان۸۷۱ھ میں
پیدا ہوئے اور شعبان بھی اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے، نیز وہ خاندان بنو
عباس میں سے ولادت کے اعتبار سے بھی آٹھویں نمبر پر اور خلافت کے اعتبار سے
بھی آٹھویں نمبر پر ہیں اور ان کی خلافت اسی سال آٹھ مہینے رہی اور انہوں
نے کل اڑتالیس سال عمر پائی ہے، ان کی کل جنگیں اور فتوحات بھی آٹھ ہیں ،نیز
انہوں نے آٹھ دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا اور بعد وفات اپنے پسماندگان
میں آٹھ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں چھوڑیں، آٹھ لاکھ درہم اور آٹھ لاکھ دینار
ترکہ چھوڑا، اس کے علاوہ بھی آٹھ کی بہت سی مثالیں ان کی زندگی میں
ہیں۔﴿الشھابی:الفور،ص ۸۶﴾
قم سے آیا ہوں
ایک آدمی صاحب بن عباد کی مجلس میں آیا اور دیر تک بیٹھا رہا، جبکہ دوسرے
لوگ آتے اور جاتے رہے مگر وہ صاحب اپنی جگہ سے نہ ہلے، صاحب بن عباد نے اس
سے پوچھا:’’ کہاں سے آئے ہو؟‘‘ اس نے کہا:’’قُم سے آیا ہوں‘ ‘
ابن عباد نے کہا:’’ اذن فقم‘‘تب تو پھر اُٹھ جائو﴿الثعالبی:خاص الخاص،ص۱۴﴾
ایک ملاقات مہلّب اوریزید کے درمیان
مہلّب بن ابی صفرہ(رح) نے اپنے بیٹے یزید سے پوچھا، یزید اس وقت بچے تھے:
’’بیٹا! سخت ترین آزمائش اور مصیبت کو نسی ہے؟
یزید:’’دانشوروں کی باہمی دشمنی‘‘
مہلّب:’’ بیٹا! اس کے علاوہ اور کوئی.؟‘‘
یزید:’’ہاں اور بھی ہے‘‘۔
مہلّب:’’وہ کیا ہے؟‘‘
یزید:’’کنجوس لوگوں کا دست سوال دراز کرنا‘‘
مہلّب:’’ اس کے علاوہ اور کوئی.؟‘‘
یزید:’’ہاں اور بھی ہے‘‘
مہلّب: وہ کیا؟‘‘
یزید:شریف لوگوں پر کمینوں کی حکومت ‘‘﴿المقرّی: المختار،ص ۷۵﴾
اپنا دفاع کیوں نہیں کیا
ایک آدمی نے مہلّب بن ابی صفرہ(رح) کوفحش گالی دی، مہلّب خاموش رہے، ان کے
قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے گالی کے الفاظ سنے تو ترکی بہ ترکی نہ صرف
مناسب جواب دیا بلکہ اس سے لڑے اور غالب رہے، پھرمہلّب کی طرف متوجہ ہو کر
کہا:آپ نے اپنا دفاع کیوں نہیں کیا؟
انہوں نے جواب دیا:بھتیجے! میں نے﴿غیبی﴾مدد و نصرت حلم اور بردباری میں
ہوتی دیکھی ہے ،اگر میرا حلم نہ ہوتا توتم میری مدد نہ کرتے۔ ﴿المقری:
المختار،ص ۱۲۱﴾
امیر کی غلطی پر شعبی(رح) کی غلطی
شعبی(رح)جو کہ کبارتابعین میں سے ہیں حجاج کے پاس آئے، حجاج نے پوچھا:
حجاج:کَمْ عَطَائَ کَ آپ کی کتنی آمدنی ہے ؟ ﴿ سوالیہ جملے کا اعراب قواعد
کی رو سے غلط ہے﴾
شعبی(رح):’’الفین‘‘دوہزار﴿جواب بھی قواعد کی رو سے غلط ہے﴾
حجاج:وَ ےْحَکَ، کَمْ عَطَا ؤُکَ؟‘‘اے بندئہ خدا! آپ کی تنخواہ کتنی
ہے؟﴿اب سوال صحیح ہے﴾
حجاج:’’آپ جیسے انسان سے تو غلطی نہیں ہونی چاہئے تھی، پھر کیسے ہوئی؟‘‘
شعبی(رح) نے جواب دیا:’’امیر سے غلطی ہوئی تو میں نے بھی غلطی کرلی، امیر
نے سوال صحیح کیا تو میں نے بھی جواب صحیح دیا، یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ
امیر غلطی کریں اور میں صحیح بول کر ان پر اپنی بڑائی جتلائوں، اگر ایسا
ہوتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا کہ میں امیر پر ان کی غلطی کے سبب عیب لگا
رہاہوں اور ان پر اپنی بڑائی جتلارہا ہوں‘‘۔
حجاج کو شعبی(رح) کا جواب پسند آیا چنانچہ انعامات سے انہیں نوازا۔.﴿ابن
عبدربہ: العقد،۲/۵۲۱﴾ |