اسلام کی روشن ہدایت کاخلا
صہ یہ ہےکہ قتل نا حق سخت حرا م و گنا ہ کبیرہ ہے۔
ازقلم:محقق مسائل جدیدہ مفتی محمدنظام الدین رضوی صاحب،مبارکپور،انڈیا
حقوق نمبر2:جا ن کا تحفظ
جان کے تحفظ کا مطلب ہے ”جیو اور جینے دو“یہ ہر انسان کے بنیا دی حقوق ہے
کہ اس کہ زندگی کی نعمت کسی ظلم و عدوان کے ذریعے چھینی نہ جا ئے اور اسے
جینے کا موقع دیا جا ئے ۔ اس سلسلے میں اسلام کی روشن ہدایت کاخلا صہ یہ ہے
کہ قتل نا حق سخت حرا م و گنا ہ کبیرہ ہے اور اس کا مر تکب عر صہ دراز تک
جہنم کی آگ میں جلا یا جائے گا ۔زنا اور قتل کے مجرمین کے تعلق سے قرآن پاک
میں وعید آئی ہے :”اور جو یہ کا م کرے سزا پا ئے گا اسے چند درچند عذاب دیا
جائے گا اور اس میں مدتوں ذلت کے ساتھ رہے گا ۔“اسلام کی نگاہ میں ایک نفس
محترم کا قتل سارے انسانوں کا قتل ہے ۔ارشاد باری ہے:من قتل نفسا بغیر
اوفساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا ومن احیافکانما احیا الناس جمیعا ۔جس
نے کسی جان کو قتل کیا بغیر اس کے کہ کسی جا ن کا بدلہ لیا جائے یا زمین
میں فساد مچانے کی سزا دی جائے توگویا اس نے سب لوگوں کو قتل کردیا اورجس
نے ایک جان کو زندہ رکھا توگویا اس نے سب جانوں کو زندہ رکھا۔ناحق کسی
انسان کا قتل حقیقت میں انسانیت کا قتل ہے۔اس حیثیت سے وہ سارے ہی انسانوں
کا قاتل ہوا ۔حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالےٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کے قیامت کے دن سب سے پہلے خون ناحق کے
بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا ۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم شریف
)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالےٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے
فرمایا کہ جس نے کسی معاہد کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا اور بے
شک جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پہنچتی ہے ۔ (صحیح بخاری شریف )
جیسا کہ پہلے بیا ن ہو چکا آج کے زمانے میں ہر ملک کے باشندے اپنے ملک کے
دستور کے پابند ہوتے ہیں اس لحاظ سے سب ایک دوسرے کی طرف نسبت کرتے ہوئے
معاہد ہوئے اور مسلم ریاست میں معاہد کا لفظ بولا جا تا ہے ،تو اس سے مراد
غیر مسلم ہو تے ہیں جووہاں سکونت اختیا ر کرتے ہیں ۔یا ویزالے کرکچھ دنوں
کیلئے کسی غرض سے وہا ں چلے جا تے ہیں اور بہر حال ملک کے دستور میں جان
کاتحفظ بھی شامل ہے اس لئے اس حدیث نبوی سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک
کا ہر باشندہ دوسرے باشندے کی جان کی حفاظت کرے اور بالخصوص مسلم ریا ست کے
غیر مسلم باشندوں کے تعلق سے تو ہر مسلم باشند ے کی یہ ذمہ داری اور سخت
ہوجاتی ہے ۔،چنانچہ قانون اسلام کی معتمد کتا ب ”الدرامختار “میں ہے ۔
چوپائے پر ظلم غیر مسلم معاہد پر ظلم سے زیادہ سخت ہے ۔اور غیر مسلم معاہد
پر ظلم مسلمان پر ظلم سے زیادہ سخت ہے۔(الدر المختار فوق ردالمختار ،ص476)
اور خاص حفاظت جان ومال کے تعلق سے ”نور الانوار “میں یہ حدیث منقول ہے ان
کا خون ہمارے خون کی طرح اور ان کا مال ہمارے مال کی طرح ہے (ص،64)
یعنی دونوں کی یکساں حفاظت کی جائے ،ہاں کچھ آیات کریمہ میں کچھ غیر مسلموں
کو قتل کر ڈالنے کا حکم ہے ،جن کو بنیا دبناکر آج واویلا مچایا جاتا ہے مگر
اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ وہ حکم کن حالات اور کیسے فسادیوں کا ہے ،
جن حالات میں دنیا کا کوئی مہذب ملک اور امن کا قانون فسادی کو دیکھتے ہی
گولی مار دینے کا اور اس کا قصہ تمام کردینے کا فرمان جاری کرتا ہے ،اسی
طرح کے حالات میں ویسے ہی افراد کیلئے اسلام وہی فرمان صادر کر تا ہے تو اس
پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے ۔
(اس مضمون کاپہلا باب ہماری ویب ڈاٹ کام کے قارئین کی نذرکیا جاچکا ہے۔حقوق
نمبر۳،اور۴ اگلے مضمون میں ملاحظہ فرمائے۔) انشاءاللہ تعالیٰ |