موجودہ دور میں انسان سکون کی تلاش میں ہے
اور وہ سکون کی تلاش میں کیا کچھ نہیں کر گزرتا آپ کو اگر یاد ہو کہ امریکہ
میں آج سے دس سال پہلے تقریبا ٥٠ افراد نے سکون کی تلاش میں اپنے روحانی
استاد کے ساتھ خودکشی کر لی تھی ان کو اس سے سکون تو نہیں ملا مگر انہوں نے
سکون کی تلاش میں خودکشی کا بزدلانہ راستہ تلاش کیا۔ جب انسان کو پریشانی
گھیر لیتی ہے اور اس کو کوئی راستہ نظر نہیں آتا جب مورال سپورٹ دینے کے
لیئے کوئی تیار ہی نہیں ہوتا تو وہ اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی
راستے اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
معاشرے میں پیدا ہونے والی بے چینی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے،
مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اس کے عوامل ہو سکتے ہیں۔ امیر ہو یا غریب
کوئی بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے کسی کو اولاد نہ ہونے کی ٹینشن تو کسی کو
اولاد کے نا فرمان ہونے کی ٹینشن کسی کو روزگار کی ٹینشن کسی کو دولت نہ
ہونے کی ٹینشن تو کسی کو دولت کے لٹ جانے کی ٹینشن انسان کرے بھی تو کیا
کرے۔
ہائی سیکورٹی اور ہائی الرٹ میں بھی جرائم ہوجاتے ہیں۔ کیمرہ لگا ہو تو تب
بھی اس کے فوائید نہیں ملتے۔
نیز یہ کہ اب کسی پر اعتبار بھی نہیں کیا جا سکتا بینک کا سیکورٹی گارڈ ہی
جب بینک کو لوٹ لے تو بتائیے کیا کیا جائے؟
جب انسانوں میں سے احتساب ہونے کا ڈر ختم ہو جائے تو معاشرے اسی راہ پر نکل
پڑتے ہیں۔ جب قتل کرنے والا چند روپیہ رشوت دے کر رہا ہو جائے تو معاشرے
میں انصاف نا پید ہو جایا کرتا ہے۔ جہاں عدالتیں فروخت ہوتی ہوں وہاں تو یہ
سب ہونا کوئی بڑی بات نہیں انسانیت سکون اور انصاف کی تلاش میں جائے تو
کہاں جائے؟
فحاشی اور عریانی کے سیلاب نے ہمارے ضمیر کو مار دیا ہے اور ہمارے رشتوں کو
کمزور کر دیا ہے، انسان کی نفسانی اور مادی ضروریات ہیں کہ بڑھتی ہی جا رہی
ہیں ضروریات زندگی کا ایک سیلاب ہے کہ جو تھمتا ہوا نظر ہی نہیں آتا حرص و
تمع کی آلودگی نے ہمارے گھروں کو آلودہ کر دیا ہے۔ ہمارے گھروں کا بجٹ آؤٹ
آف کنٹرول ہو گیا ہے۔
غور طلب با تو یہ ہے کی ہم خود تو گناہ کے دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن یہ
بات بہت ہی نا پسند ہے کہ ہمارے بچے گناہوں اور برائی کے دلدل میں رہیں۔
اس موقع پر مجھے اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ پہلا پیغام
یاد آ رہا ہے کہ جو انہوں نے انسانیت کو دیا تھا کہ انہوں نے قریش مکہ کو
مخاطب کر کے فرمایا تھا اللہ ایک ہے اور مرنے کے بعد ہم دوبارہ زندہ ہونگے
اور ہمارا احتساب ہو گا عنقریب قیامت برپا ہونے والی ہے۔
یہ وہ دعوت ہے جس کی موجودہ ماڈرن دنیا کو ضرورت ہے اسلام ہی ایک مکمل
ضابطہ حیات ہے یہ ایک ایسی دعوت ہے کہ جو انسان کی روح میں ایک احتسابی
نظام جنریٹ کرتا ہے اگر انسانیت کو سکون کی تلاش ہے تو اس کو اسلام کی
چھتری تلے آنا پڑے گا۔
اگر ہمیں ٹینشن کی دنیا سے باہر نکلنا ہے تو ہمیں اللہ سے رجوع کرنا پڑے گا
اپنے سابقہ گناہوں کو اللہ کی بارگاہ میں قبول کرنا ہوگا اور آئندہ ان
گناہوں سے توبہ کرنا ہوگی۔
ایک حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی انسان میری طرف چل
کر آتا ہے تو میں دوڑ کر آتا ہوں اور جب کوئی دوڑ کر آتا ہے تو میں لپک کر
آتا ہوں اور ایک وقت آتا ہے کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ کام
کرتا ہے میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے میں اس کی آنکھ بن
جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔
سکون اور اطمینان صرف اور صرف اس کی بندگی میں ہے
اللہ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کے اسی کی غلامی کرنی ہوگی اسی میں ہماری
اور آپ کی بھلائی ہے۔ |