نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی پیشن گوئیاں

توریت اور انجیل میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی پیشن گوئیاں:

ربیع الاول کا بابرکت مہینہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہے اور روایات کے مطابق ٩ ربیع الاول اور بعض روایات کے مطابق ١٢ ربیع الاول٥٧٦ عیسوی کو نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا تشریف میں لائے۔ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت اللعالمین کہا گیا ہے۔سیرت النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موضوع بڑا وسیع ہے اور یہ ایک سعادت کی بات ہے کہ اگر اللہ نے آج مجھے یہ توفیق دی کہ میں اپنے نبی مہربان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پاک پر چند حرف لکھ کر اپنی عاقبت سنوارنے کا انتظام کروں۔

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور بعثت کی پیش گوئیاں یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتب توریت اور انجیل میں موجود ہیں۔جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبریں اپنے پیرو کاروں کی دی ہیں تاکہ وہ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ پائیں تو ان کو نبی آخرالزمان کو پہچاننے میں کوئی مشکل نہ ہو اور وہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لے آئیں۔

توریت میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی پیش گوئی

قرآن مجید میں سورہ صف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ترجمہ:اور یاد کرو عیسیٰ ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی :اے بنی اسرائیل !میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں اس تورات کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے،اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہوگا“ سورہ صف آیت ٦

اس آیت میں حضرت موسٰی نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو پیش گوئی کی تھی اس کی طرف حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے۔ توریت کی وہ پیش گوئی کیا تھی

استثنا باب ١٨ آیت ١٥-١٩ میں اللہ تعالیٰ فرمایا کہ ََ َ خداوند خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا-تم اس کی سننا -یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند خدا اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند خدا اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے -اور نہ ہی ایسی بڑی آگ کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جاؤں- اور خداوند نے مجھے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں،سو ٹھیک کہتے ہیں۔میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لیکر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لونگا “ استثنا باب ١٨ آیت ١٥-١٩

مفسرین کے مطابق توریت کی یہ پیش گوئی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کے متعلق نہیں ہوسکتی ہے ١ اس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ میں تیرے لیے تیرے ہی بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کرونگا۔مولانا مودودی اس مد میں فرماتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ ایک قوم کےبھائیوں سے مراد اسی قوم کاخاندان یا قبیلہ نہیں ہوسکتا ہے بلکہ دوسری ایسی ہی قوم ہوسکتی ہے جس کا اس کے ساتھ قریبی رشتہ ہو-بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لامحالہ بنی اسمٰعیل ہی ہوسکتے ہیں۔٢یہ جو الفاظ ہیں کہ ََََ َ -یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند خدا اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند خدا اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے -اور نہ ہی ایسی بڑی آگ کا نظارہ ہو تاکہ میں مر نہ جاؤں“اس عبارت میں حورِب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسٰی کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے اور بنی اسرائیل کی جس درخواست کا ذکر اس میں کیا گیا ہے کہ آئندہ ہم کو جو شریعت دی جائے وہ ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورِب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے  ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے البقرہ آیات ٥٥ -٥٦-٦٣ الاعرف آیات ١٥٥ -١٧١ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کرلی ہے اس کا یعنی اللہ کا ارشاد ہے کہ میں ان کے ایک ایسا نبی برپا کرونگا جس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا- یعنی آئندہ شریعت دینے کے وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورِب پہاڑ پر پیدا کیے گئے تھے بلکہ اب جو بھی اس منصب پر فائز کیا جائےگا اس کے منہ میں اللہ کا کلام ڈال دیا جائے گا اور اسے خلق خدا کو سنا دے گا -اس تصریح کے بعد کیا اس امر میں شک کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے۔حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد مستقل شریعت صرف آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی دی گئی ہے۔اس کے عطا کرتے وقت ایسا کوئی مجمع نہیں ہوا جیسا کہ حورِب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کا ہوا تھا اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات ہیدا نہیں کیے گیے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے سیرت سرور عالم جلد اول صفحہ ٦٦٩

انجیل یوحنا میں پیشن گوئی:

انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کے زمانےمیں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے ایک مسیح علیہ السلام دوسرا ایلیاہ یعنی حضرت الیاس علیہ السلام کی آمد ثانی اور تیسرے وہ نبی انجیل کے الفاظ ہیہ ہیں :اور یوحنحضرت یحییٰ  کی گواہی یہ ہےکہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟تو اس نے اقرار کیا اور نہ انکار کیا- بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں -انہوں نے پوچھا پھر کون ہے ؟کیا تو ایلیاہ ہے؟اس نے کہا میں نہیں ہوں -کیا تو وہ نبی ہے؟اس نے جواب دیا کہ نہیں -پس انہوںنے اس سے کہا پھر تو ہے کون؟اس نے کہا کہ میں بیابان میں پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو -انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے،نہ ایلیاہ ،نہ وہ نبی تو پھر بپتمسہ کیوں دیتا ہے؟ باب ١ آیات ٢٥-١٩

یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں حضرت مسیح علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کے علاوہ ایک اور نبی کی آمد کے منتظر تھے اور وہ حضرت یحییٰ نہ تھے اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ وہ نبی کہہ دینا کافی تھا -یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی جس کی خبر تورات میں دی گئی ہے “ مزید براں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کررہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا - کیوں کہ جب حضرت یحییٰ علیہ السلام سے سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو۔سیرت سرور عالم جلد اول صفحہ٦٨٠

چند مزید پیشگوئیاں :ِ َ َ اور میں اپنے باپ سے درخواست کرونگا تو تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے-یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کرسکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے-تم اسے جانتے ہو کیوں کہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تماہرے اندر ہے“  ١٤-١٦-١٧

َ َمجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر تم ان کو برادشت نہیں کرسکتے-لیکن جب وہ سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائےگا -اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہ کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا -میرا جلال ظاہر کرے گا -اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل تمہیں خبریں دے گا -جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے اسی لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا “

ان عبارات میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اپنے بعد آنے والے ایک نبی کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ دنیا کا سردار  سرورِ عالم  ہوگا ابد تک رہے گا سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا اور خود ان کی یعنی حضرت عیسٰی کی گواہی دے گا۔

انجیل برناباس میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی واضح پیش گوئیاں:

برنا باس نے اپنی انجیل میں رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح پیش گوئیں نقل کی ہیں ہم ان میں سے چند اک نقل کرتے ہیں:
تمام انبیااء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا جن کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار تھی انہوں نے ابہام کےساتھ بات کی -مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہوئی باتوں کے اندھیرے پر روشنی ڈالے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے“ باب ١٧

مگر جب مجھے خدا دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر بغاوت برپا کرئے گا کہ ناپرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں - اسکی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کردیا جائے گا یہاں تک کہ وہ بمشکل تیس صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے - اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کےلیے اس نے دنیا کی ساری چیزیں بنائی ہیں -جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کردے گا ،جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پو حاصل کرلیا ہے۔وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے اور مبارک ہے وہ جو کی باتوں کو مانے باب ٩٦

سردار کاہن نے پوچھا کیا خدا کے اس رسول کے بعد دوسرے نبی بھی آئیں گے ؟یسوع نے جواب دیا اس کے بعد خدا کے بھیجے ہوئے سچے نبی نہیں آئیں گے مگر بہت سے جھوٹے نبی آجائیں گے جن کا مجھے بڑا غم ہے کیونکہ شیطان خدا کے عادلانہ فیصلے کی وجہ سے ان کو اٹھائے گا اور وہ میری انجیل کے پردے میں اپنے آپ کو چھپائیں گے۔  باب ٩٧

سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام “قابل تعریف“ ہے کیونکہ جب خدا نے اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان سے رکھا گیا تھا - خدا نے کہا اے محمد !انتظار کر کیونکہ تیر ہی خاطر میں جنت،دنیا ،اور بہر ساری مخلوق پیدا کرونگا اوراس کو تجھے تحفہ کے طور پر دونگا ،یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی -جب میں تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو تجھ کو اپنا پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجونگا -تیری بات سچی ہوگی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین
نہیں ٹلے گا -سو اس کا مبارک نام محمد ہے  باب ٩٧ 

برناباس لکھتا ہےکہ ایک موقع پر شاگردون کے سامنے حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک مجھے تیس سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھوں بیچ ڈالے گا  بعد میں وہ یہوداہ اسکریوتی نکل پھر حجرت عیسٰی نے فرمایا “ اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا کیونکہ خد امجھے زمین سے اوپر اٹھا لےگا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہر شخص یہ سمجھےکہ وہ میں ہی ہوں تاہم جب وہ بری موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی مگر جب محمد خدا کا مقدس رسول آئے گا تو وہ میری بدنامی دور کردی جائے گی اور خدا یہ کام اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے -وہ مجھے اس کا انعام یہ دے گا کہ لوگ جان لیں کہ میں زندہ ہوں اور ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے  باب ١١٣
شاگردوں سے حضرت عیسٰی نے کہا “ بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کردی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ دائود کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا -اور اگر دائود کی کتاب میں تھریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا -کیونکہ خداوند ہمارا خد بدلنے والا نہیں ہے اور اس نےسب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے -لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کردے جن سے بےخدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کردیا ہے“  باب ١٢٤ 

مذکورہ بالا تمام پیش گوئیاں اس بات کی دلیل ہیںکہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری نبی ہیں اور تورات اورانجیل میں جو نشانیاں بتائی گئی ہیں وہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کےمتعلق نہیں ہیں بالخصوص برناباس کی انجیل میں جو واضح پیشگوئیاں بیان کی گئی ہیں۔یعنی بتوںکو بت پرستوں سمیت تباہ کرنا،ان کا نام “ قابل تعریف “ بتایا گیا ہے اور محمد اور احمد کے معنی یہی نکلتے ہیں  نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھلی تمام الہامی کتابوں کی غلط روایات کو ختم کرکے ان کی صحیح روایات کو بیان کیا ہے،نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مگر جھوٹے نبی بہت پیدا ہوئے ہیں اس کی بھی پیش گوئی کردی گئی ہے۔نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین اور شریعت تاقیامت دنیا میں موجود ہونگے۔یہ ساری بشارتیں یہ ساری نشانیاں تو پچھلی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے مخالف ہیں۔اس پر بحث کرنے سے پہلے ہم کچھ مزید نشانیاں بیان کرتے ہیں

ایک دفعہ  نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم آشوب چشم میں مبتلا ہوئے تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ عکاظ کے بازار میں ایک بڑا عبادت گزار اور جہاں دیدہ راہب رہتا ہے اس کےپاس جائو وہ ا سکا علاج کرے گا ۔حضرت عبدالمطب نھنے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ساتھ لیکر اس کی طرف چلے شام ڈھلے وہاں پنہچے تو وہ چند ثانیون کے بعد وہ گھبرایا ہوا باہر نکلا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا ،حضرت عبدل المطلب کو دیکھ کر انکی طرف آیا اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غور سے دیکھنے کے بعد پوچھنے لگا کہ یہ کس کے نور چشم ہیں :عبد المطلب نے فرمایا کہ میرے پوتے ہیں ان ک آنکھیں دکھتی ہیں میں علاج کی غرض سے تمہارے پاس آیا ہوں اس نےجواب دیا کہ آپ اپنے نور چشم کو ایک ایسے شخص کو پاس لائے ہیں جو خود طالب علاج ہے ۔آپ ان کی شان سے واقف نہیں انکا دہن مبارک خود شفاء کا چشمہ انہیں کا لعاب دہن ان کی آنکھوںمیں لگائیے پھر اس کی معجزانہ اثر دیکھئے،-آپ کو مبارک ہو کہ آپ کے خاندان میں ایک ایسی جلیل القدر ہستی کی پیدائش ہوئی ہے جس کے انقلاب آفرین صدا سے مشرق و مغرب گونج اٹھیں گے اور دین و دنیا کی برکتیں جس کے قدموںکی خاک میں لوٹیں گی۔

عمر عزیز کے بارہویں سال میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کیا راستے میں ایک جگہ پڑائو کیا تو وہاں ایک خدا ترس راہب بحیرہ رہتا تھا اس نے نبی آخر الزمان کے آثار و علائم کتب آسمانی میں دیکھے تھے اس کی نظر جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو اس نے اپنے علم کی رو سے پہچان لیا کہ یہی بچہ نبی آخرالزمان ہوگا اس کی شان نبوت دیکھ کر آپ کی دعوت کی اور حضرت ابو طالب کو بتایا کہ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آگے نہ لیجایئں کیوں کہ خدشہ ہےکہ متعصب یہودی انکو پہچان کر نقصان پہنچائیں گے۔بحیرہ کی اس نصیحت کے بعد حضرت ابو طالب نے آگے سفر نہ کیا اور وہیں سے واپس پلٹ گئے۔

نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم گھبرا گئے اور اپنی غم گسار اہلیہ ححضرت خدیجہ کو ساری بات بتائی انہوں نے اپنےچچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل جو کہ عیسائی عالم تھے اور ان کے پاس کتاب علم تھا انہوںنے سارا واقعہ تفصیل سے سنکر کہا “ اے خدیجہ اگر تونے سچ کہا تو یہ وہی ناموس اکبر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہواتھا اور وہ اس امت کا نبی ہے،اے خدیجہ جو بات تومجھے کہتی ہے تو سمجھ لے کہ احمد اللہ کا رسول ہے ،جبرائیل اور میکائیل دونوں خدا سے وحی لیکر اس کے پاس نزول کریں گے جو اس کے دین کی عزت حاصل کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور بہت سے بدبخت اور شقی اس سے نیک بخت بن جائیں گے لوگوں کے دو گروہ ہوجائیں گے -کوئی تو خدا کی بہشت کو پالیں گے اور کوئی دوزخ کی زنجیروں میں جکڑے جائیں گے،پھر مزید کہا کاش کہ میں اس وقت عالم شباب کی منزل بہار میں ہوتا اور اسوقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم شہر بدر کردے گی تو اس وقت میں آپ کی مدد کرتا “ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیرت و استعجاب سے پوچھا کہ کیا میری قوم مجھ کو نکال دے گی ؟ورقہ بن نوفل نے جواب دیا “ہاں آپ کی قوم آپ کو ضرور نکال دے گی آپ سے پیشتر بھی جس کسی نے ایسی تعلیم دنیا کےسامنے پیش کی جیسی کہ آپ کرنے والے ہیں دنیا ان کےساتھ کچھ اسی قسم کا رویہ روا رکھا ہے -اگر مجھے اس دن تک زندگی نصیب ہوئی جب آپ ہجرت پر مجبور ہونگے تو میں آپ کی مدد کرونگا

یہ چند پیش گوئیاں جو ہم نے آپ کےسامنے بیان کی ہیں اگرچہ کسی الہامہی کتاب میں بیان نہی کی گئیں ہیں لیکن عسائیوں کے اہل علم وسیع النظر اور اہل علم حضرات نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبوت کی واضح نشانیاں دیکھ کر بیان کی ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ یہود و نصاریٰ لوگ ایمان کیوں نہیںلاتے ؟یقین کیوں نہیں کرتے؟دشمنی ترک کیوں نہیں کرتے؟

دراصل یہود کو یہ گھمنڈ تھا کہ وہ اللہ کی سب سے پیاری اور برگزیدہ قوم ہیں اس وجہ سے انہیں یقین تھا کہ آنے والا نبی بنی اسرائیل میں سے ہوگا
 لیکن جب بنی اسمٰعیل سے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تو وہ ذہنی طور پر اس بات کو قبول نہیں کرسکے کہ بنی اسرائیل کے علاوہ بھی کوئی نبی مبعوث ہوسکتا ہے۔دوسرا اہل عرب بالعموم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں میں ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا اور انفرادی طور پر ان کے اندر بڑے بڑے عالم پائے جاتے تھے ان یہودیوں کے علماء و مشائخ نے اپنی ظاہری شان و شوکت جما کر اور اپنی جھاڑ پونچھ اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رعب کو اور بھی زیادہ اور گہرا کیا اہل عرب ان سے بہت مرعوب تھے وہ ان کے پاس جا کر نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق معلوم کرتے تھے اگر وہ سچ بتا تے تو ان کا سارا کاروبار ختم ہوجاتا اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی حقانیت اور سچائی کو چھپانا بھی ان کے لیے ناممکن تھا ا سلیے انہوں نے بیچ کا راستہ اختیار کیا ہر سائل کے دل میں وسوسہ پیدا کرتے تھے۔اور اکثر نئے نئے شوشہ چھوڑتے رہتے تھے۔اور آج تک انکی یہ روش جاری ہے۔ اس حوالے سے یہاں ایک واقعہ نقل کرنا ضروری ہے “ نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے پہلے یہودی بڑی بے چینی سے آپ کی آمد کے منتظر تھے اور دعائیں مانگا کرتے تھے جلدی وہ نبی آئے تو کفار کا غلبہ مٹے اور پھر ہمارے عروج کا دور شروع ہو،لیکن جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ وہ ذہنی طور پر یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں تھے کہ آنے والا نبی بنی اسرائیل کے علاوہ بھی کسی اور قوم سے آسکتا ہے ۔ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا جو خود بھی ایک بڑے یہودی عالم کی بیٹی اور دوسرے کی بھتیجی تھیں وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے تشریف لائے تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سےملنے گئے ،بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی ۔پھر جب واپس گھر آئے تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سنا
چچا :کیا واقعی یہ وہی نبی ہے جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟
والد :ہاں خدا کی قسم ہاں
چچا:کیا تم کو اس کا یقین ہے ؟
والد :ہاں
چچا :پھر کیا ارادہ ہے ؟
والد :جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کرونگا اور اس کی بات چلنے نہ دونگا۔  ابن ہشام -جلد دوم صفحہ ١٦٥ طبع جدید
یہ ساری باتیں اور بشارتیں بیان کرنےکا مقصد یہ ہےکہ نبی یہودیوںکو خود بھی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا یقین ہے لیکن صرف اپنی ضد اور انا پرستی کے باعث وہ اس حق کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں اور وہ آج تک اسلام اور پیغبر اسلام کے خلاف سازشیں اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔کبھی نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور کبھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے بناتے ہیں۔اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس بات کو سمجھیں اور یہود و نصاریٰ کے دوست نہ بنیں یہ کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے ہیں
 
اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے ١ سیرت سرور عالم جلد اول از مولانا مودودی ٢ عرب کا چاند از سوامی لکشمن پرشاد ١ محمد عربی از عنایت اللہ سبحانی

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1454063 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More