اے عزیزان وطن!
دکھ ،تکلیف اورغم کا ایک گہرا احساس تھا۔غیروں نے پیارے نبیﷺ کی شان اقدس
میں پھرگستاخی کی تھی ۔صدمہ ایسا تھا کہ دل چاہتا تھا کہ کچھ سے کچھ کردیا
جائے مگر پیارے نبیﷺ ہی نے تو فرمایا تھا: اَلصَّبرُ عِندَ الصَّدمَةِ
الاُولَی ” صبر صدمے کے آغاز پر ہوتا ہے۔ “
ان گستاخیوں پر وہی صبر مطلوب تھا جو خود پیارے نبیﷺ نے اختیار کیا۔ کیا
کیا نہ کہا گیا؟ کیا کیا نہ سنا؟ کیسی کیسی تکلیف نہ دی گئی؟ کیسے کیسے دل
نہ توڑا گیا؟مگر اللہ ربّ العالمین نے اپنے فرامین کے ذریعے دل بڑھا دیا۔
اِنَّا کَفَینٰکَ المُستَھزِئِینَ ”بے شک ہم آپ کو مذاق اڑانے والوں کی طرف
سے کافی ہیں۔“(الھجر:95) اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الاَبتَرُ ” بے شک آپ کا
دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔“(الکوثر:۳) وہی رب اس وقت بھی حفاظت کرنے والا تھا اور
وہی آج بھی ہے اور وہی آئندہ بھی ہو گا ان شاءاللہ۔ ایک موقع پررسول اکرمﷺ
نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سے سب سے زیادہ آزمائشیں انبیاءپر آئیں۔ (رواہ
احمد)
دل کے غم کا اظہار ہی مقصود تھا تو کچھ اس ہستی کا لحاظ کر لیا ہوتا جس کی
خاطر یہ سب ہو رہا تھا۔یہ دھماکے،جلاؤ،گھیراؤ،توڑ پھوڑ، یہ سب کیا تھا اے
عزیزان وطن؟یہ کیسا عشق،یہ کیسی محبت تھی جس کا اظہار آج ہم نے کیا؟ویڈیو
نے تو دل دکھایا تھا مگر آج کے مناظر نے توخون کے آنسو رلادیا؟
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
کیا وفا اسی کا نام ہے؟آج ساری دنیا کے سامنے ہم نے محبت کے کیا ثبوت پیش
کیے؟ احتجاج کا حق ہم نے کیسے پامال کیا؟ اے عزیزان وطن ! ہمیں تو پہلے
اپنی تربیت کی ضرورت ہے؟ وفا کے معنی جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے؟
حکومت نے چھٹی دی تاکہ آپ آسانی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا سکیں۔پولیس
بھائیوں نے آپ کی راہ خراب نہ کی کہ آپ مطلوبہ منزل پر پہنچ جائیں۔ کیا یہ
کام پر امن رہ کر نہ کیا جا سکتا تھا؟فتح مکہ کا موقع تھا۔جب آپ انتہائی
خاموشی،انتہائی وقار اور انتہائی امن کے ساتھ مکہ کے قریب پہنچ گے۔اس مکہ
کے قریب جو آپ کو بہت عزیز تھا مگر جہاں سے آپ نکال دیے گئے تھے۔جس کے رہنے
والوں نے آپ کو مدینہ میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ اللہ ربّ العالمین نے
اس خاموشی،اس اطمینان اور اس وقار کے نتیجے میں اپنے نبی کا رعب دشمنوں پر
ڈال دیا۔وہ سرنگوں ہو گے،ان پر ہیبت طاری ہو گئی،وہ مقابلہ کرنے کے بجائے
جھکنے پر مجبور ہو گے،معافی کی درخواست کرنے لگے۔
کیا یہ مثال ہمارے لیے کافی نہیں اے عزیزان وطن؟ کیا ہم اسی طرح پر امن
رہتے ہوئے مطلوبہ ہدف حاصل نہ کر سکتے تھے؟ کیا عالمی برادری کے لیے ایک پر
امن احتجاج کا جو اثر ہو سکتا تھا وہ اس منتشر بھیڑ سے ممکن ہوا؟کیا ہم خود
اپنی تضحیک کے مرتکب نہ ہوئے؟ کیا ہم نے پھر اپنا ہی مذاق نہ اڑوایا؟سچ
پوچھیے تو آج کے طرز عمل نے ثابت کر دیا کہ ہم تو اللہ کے رسول ﷺ کے دفاع
کے قابل قوم ہی نہیں۔ہمارے اندر سے صبر،تحمل،برداشت جیسی اعلیٰ اسلامی صفات
ختم ہو چکیں اور ہم ایک بے روح ، بے اثر مخلوق بن کے رہ گے ہیں۔
اے عزیزان وطن! کیا ہم اتنے ناسمجھ ہیں کہ صحیح اور غلط کی تمیز نہیں
جانتے؟ دشمن اور دوست کا فرق بھول گے؟محبت کے قرینے اور نفرت کے طریقے سے
لا علم ہیں؟ آج کے واقعات سے دلوں کا دکھ کم ہوا یا بڑھا؟۔اے عزیزان وطن!
سوچیے اور توجہ کیجیے۔
سیاسی و مذہبی قیادت جو ان مظاہروں کی روح رواں تھی کی اولین ذمہ داری بنتی
ہے کہ وہ کسی بھی احتجاجی ریلی سے قبل اپنے کارکنوں کی تربیت کریں۔اس کے
لیے پر امن رہنے اور پر امن رکھنے کے تحریری ہدایت نامے تقسیم کیے
جائیں۔تربیتی نشستوں کے ذریعے انہیں احتجاج کے طریقے سکھائے جائیں۔ہر علاقے
کا ذمہ د ار اپنے علاقے کے لوگوں کی تربیت کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔موبائل
ایس ایم ایس کے ذریعے پر امن رہنے کی تلقین مسلسل وسیع پیمانے پر کی جائے
تاکہ جو اصل ہدف ہے وہ حاصل کیا جائے نہ کہ عالمی برادری کے سامنے مزید
تماشا بن کر انہیں موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پہلے سے بھی بڑھ کر اسلام اور
اہل اسلام پر حملے کریں۔
جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے احتجاج کا طریقہ اگر موثر نہیں اور ان سے شر
پسند عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے تو اپنی حکمت عملی تبدیل کر لی
جائے۔ سنجیدہ فورمز پر سنجیدہ ڈسکشنز کیے جائیں،سنجیدہ دلائل کے ساتھ اپنی
آواز ان ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے جہاں داد رسی کا کچھ موقع ہو۔
اخبارات،رسائل اوردیگر سوشل میڈیاز پر اپنے جائز حق کی آواز بہترین دلائل
کے ساتھ اٹھائی جائے۔
وَجَادِلھُم بِالَّتِی ھِیَ اَحسَنُ ” اور ان کے ساتھ اس طریقے سے جھگڑ
اکرو جو بہترین ہو۔“ (النحل:25)
اے عزیزان وطن سنبھلیے۔آج کا نقصان بہت بڑا نقصان تھا۔ یہ صرف جانوں اور
املاک کا نقصان نہ تھا۔ یہ ایک بڑے کاز کا نقصان تھا۔ ایسا نقصان جس کے بعد
بھی اگر ہم نہ سنبھلے اور ہم نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہ کی تو پھر غیروں
پر اثر ڈالنے کو تو چھوڑیے، ہمارے اپنے بھی کبھی ہم پر اعتماد اور بھروسہ
نہ کر سکیں گے۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایاتھا : ” اسلام کے لحاظ سے افضل ترین مومن وہ ہیں جن
کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں۔“ (الصحیحة)
ایک اور جگہ فرمایا: ” صبر کرنااور عفو درگزر کرنا افضل ایمان ہے۔“
(الصحیحة)
اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمیں نبی اکرم ﷺ کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |