زندگی کی نہ ہموار شاہراہیں نہ
جانے کس لمحے دشوار گزار ہو جائیں اس کا علم کسی کو نہیں ،کبھی کبھی
دشواریاں ہی کام آتی ہیں کبھی کبھی یہ نا ممکنات ہی سود مند ہوتے ہیں . ہم
ممکنات اور کامیابیوں کے آئیڈیل جہان ہی ڈھونڈھتے ہیں ، ہماری کوشش یہی
ہوتی ہے کہ ہمیں خوبصورت چہرے ہی نظر آئیں . ہم ہیں ہی ممکنات کے پجاری .
ہمارے ہاتھ میں اگر کچھ نہیں تو ہمارے گمان میں بھی اب کچھ نہیں رہا . ہم
اصل میں ناکام لوگ ہیں مگر مایوس نہیں ، ہو سکتا ہے ہماری حالت اس سے بھی
ابتر ہو جائے ، ہو سکتا ہے ہم کبھی اس قابل ہی نہ رہیں کہ ملکی خرچوں کے بل
اور قرض کی قسطیں ادا کر سکیں مگر پھر بھی ہم مایوس نہیں .
حالات بدلتے رہتے ہیں ، حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے جیسے موسم بدلتے
رہتے ہیں حالات میں تبدیلی موسموں کی طرح آتی رہتی ہے . جذبات کا اتار
چڑھاؤ ، سوچوں کی بدلتی کیفیات ، نظر اور نظریات میں بدلاؤ زندگی کے مرکبات
ہیں . مگر زندگی کیا ہے ؟ دیکھو راجہ بہت سے لوگوں نے زندگی کو بہت مشکل
بنا لیا ہے مگر پھر اس ہجوم انسانی میں ایسے لوگ بھی ہیں اپنے لیے اور اپنے
ماحول کے لیے آسانیاں تلاش لیتے ہیں .
اس وطن میں بڑے بڑے معجزے بھی ہیں ، دیکھو یہ کتنا بڑا معجزہ ہے کہ اتنے
سالوں کے علمی ، فکری اور سماجی استحصال کے بعد عوامی حکومت کے نام پر
سینما کے ٹکٹ بلیک کرنے والوں کے ہاتھ جب حکومت آئی تو انہوں نے پاکستان کو
توڑنے ، بیچنے اور ناکام ملک کا درجہ دلانے میں کثر نہیں چھوڑی مگر اللہ
پاک نے پاکستان کو ڈوبنے نہیں دیا . پاکستان نے لاکھوں افغانوں کو اس وقت
سر پہ چھت اور کھانے کے لیے خوراک دی جب ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا .
پھر دیکھو حالات بدلے کوئٹہ کی گلیوں میں پھرنے والے حامد کرزائی نے
پاکستان کو افغانستان کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا اور وہی افغان جو کبھی
پاکستان کی فوج کو اپنا محافظ اور مسیحا سمجھتے تھے اس کے دشمن ہو گئے .
پاکستان میں مشرف جیسے کھلنڈرے جرنیل بھی ہوے ہیں کہ جن کی غلط پالیسیوں نے
سوات ، جنوبی وزیر ستان اور اورکزی ایجینسی کو پاک فوج کے لیے اپنے ہی وطن
میں میدان جنگ بنا دیا . یہاں بندوق بندر کے ہاتھ آئی کہاوت کو سو فیصد سچ
قرار دیتے صحافی بھی ہیں کہ جنھیں جب طاقت ملی تو انہوں نے پاکستان میں
بیٹھ کر پاکستان کے دشمنوں کی ترجمانی کی اور ہر روز پاکستان کے ٹوٹنے اور
ختم ہونے کی تاریخ دینا شروع کر دی . یہاں حامد میر ، نجم سیٹھی ، نصرت
جاوید ، جاوید چوہدری اور پتہ نہیں کون کون سے ماہرین پاکستان پیدا ہو گئے
کہ جنکی سنسنی خیز سٹوریوں نے ملک کے عوام کو ہمیشہ مایوسی کا ہی پیغام ہی
دیا .
اسرار احمد یہ باتیں مجھے بڑے دکھ اور تکلیف سے سنا رہا تھا . اسرار احمد
ایک نوجوان صحافی ہے اور درد دل رکھنے والا وطن دوست پاکستانی ہے ، اسکی
محبت پاکستان سے بھی اتنی ہی ہے کہ جتنا پیار یہ مادر وطن آزاد جموں و
کشمیر سے کرتا ہے . میں اسرار احمد کی باتوں پہ دھیان نہیں دے رہا تھا بس
سن رہا تھا ایسے ہی جیسے ہم اکثر گاڑی میں ریڈیو سنتے ہیں اور بہت سی اہم
چیزوں کی جانب دھیان نہیں دیتے .
اسرار احمد مجھے اسلام آباد لے جا رہا تھا ، اسرار یہیں کسی مقامی نشریاتی
ادارے میں بطور صحافی کام کرتا ہے . اسرار نے کہا " زندگی ایک عنایت ہے اور
کچھ بھی نہیں اور کچھ کے لیے زندگی ایک امتحان ہے وہ اس زندگی کی قید میں
گناہوں کے ارتکاب سے ڈرتے رہتے ہیں ، راجہ تم نے ایک بار ممتاز ہاشمی کا
انٹرویو کیا تھا ، اس میں انہوں نے تمہیں بتایا کہ قوموں کا ایک روحانی
وجود ہوتا ہے . مجھے لگتا ہے ہاشمی صاحب کا کہنے کا مقصد تھا زندہ قوموں کا
ایک روحانی وجود ہوتا ہے ، تمہارا کیا خیال ہے؟"
گاڑی اسلام آباد ہائی وے پر تھی اور میں باہر دیکھ رہا تھا . میں نے اسرار
کا سوال سنا مگر جواب دینے سے پہلے ایک بہت بڑے بل بورڈ پر میری نظر پڑیں.
اس پر لکھا تھا " میں کرتا ہوں سچی بات " اس بل بورڈ پر صحافی عبدالمالک کی
ایک قد آدم تصویر تھی جس کے نیچے سچ بولنے کا سرٹیفکیٹ مالک صاحب نے خود کو
دے رکھا تھا . میرے خیال سے یہ وہی مالک صاحب ہیں کہ جن کے متعلق کچھ روز
پہلے ایک انویسٹیگٹو صحافی نے کچھ ایسے سچ ٹی وی پر دکھائے کہ جو ان کے اس
دعوے کی نفی کرنے کے لیے کافی تھے . خیر میں نے آگے کے بورڈز نہیں دیکھے
کیونکہ اسرار کا سوال تھا ہی اتنا اہم . میں نے اسرار کو انگلی کے اشارے سے
یہ بورڈ دکھایا جس پر میری نظریں جمی ہوئیں تھیں مگر میرے پاس ابھی اسرار
کے سوال کا جواب نہیں تھا . گاڑی ابھی بھی اسلام آباد ہائی وے پر تھی اور
سالوں بعد میں نے اس شاہراہ پہ ایک چھوٹی سی پہاڑی پر Faith, Unity ,
Discipline کے وہ نشانات ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کبھی اس شاہراہ کی زینت اور
اسلام آباد کی پہچان ہوا کرتے تھا . یہ نشانات اب عدم توجہ کا شکار تھے اور
مکمل تو نہیں مگر ایک حد تک ختم ہوتے نظر آ رہے تھے .
اسرار کا سوال ، بل بورڈ کی عبارت ، پاکستان کا لینڈ سکیپ اور یہاں کے
حکمرانوں کے کردار اور جاری سیاسی حالات میں میں کیا جواب دیتا . یہی سوچ
میرے ذہن پر ضربیں لگاتی رہی اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے. میر عارف علی
میرے بہت اچھے دوست بلکہ بزرگ دوست ہیں ان کی جانب سے ہدایت تھی کہ میں
اسلام آباد میں اس تقریب میں ضرور شامل ہوں جہاں سیاہ چن کے ہیرو میجر نوید
ستارہ جرات کا ایک لیکچر ہے . میں میجر نوید کو تب سے جانتا ہوں جب یہ نو
آزاد کشمیر رجمنٹ میں ایک لفٹین ہوا کرتے تھے . میجر نوید سب کی طرح میرے
بھی ہیرو ہیں اور پھر پاکستان کی خاک کی حفاظت کرنے والا ہر سپاہی ہی ہیرو
ہے اس لیے میں اسرار کے سوال میں کھویا اس لیکچر حال میں داخل ہوا .
میجر نوید نے اپنے سیاہ چن آپریشن کی تفصیلات اس لیکچر میں بیان کیں اور
یہیں آڈینس میں بیٹھیں ایک خاتون نے وقفہ سوالات میں اسرار کا جواب اور
ممتاز ہاشمی صاحب کے نقطے کی وضاحت میجر نوید سے کروا دی. خاتون نے پوچھا "
آپ جب دنیا کے بلند ترین محاز جنگ پہ ایک پہاڑ کی چوٹی پر دشمن سے نبردآزما
تھے تو کیا آپکو ذہن میں یہ خیال آیا کہ اگر میں یہاں سے واپس نہ جا سکا تو
کیا ہو گا " میجر نوید نے جواب دیا " دیکھیں وہ لمحہ ایسا تھا جب اللہ نے
میرے بازوں اور جسم میں ایک عجیب طاقت دے دی تھی اور جسم میں جان نہیں تھی
مگر ذھن میں یہ گمان تھا کہ آج پاکستان ہی سب کچھ ہے ، پھر کچھ اللہ کی طرف
سے غیبی مدد تھی جسکا اظہار میں شائد نہ کر پاؤں مگر ہم دو لوگ تھے جو دشمن
کو بیس کے برابر نظر آتے تھے ."
یہ میجر نوید کا جواب نہیں اس الجھن کا حل تھا جس کی لپیٹ میں آج پاکستان
ہے . پاکستان سے اگر کسی چیز کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ پاکستان کا روحانی
اساس ہے . آج شائد یہ روحانی طاقت ہی ہے جو ہمیں ہر طرف کم نظر آتی ہے ورنہ
کس بات کی کمی ہے اس ملک میں . یہاں ہر شخص ہی اپنی باری پہ اس ملک کے حصے
وخرے کر رہا ہے . صحافی ، سیاست دان ، عدلیہ اور انتظامیہ میں کام کرنے
والے سچے پاکستانی پورا ملک الاٹ کروا کر اس پر تھیم پارک کھولنا چاہتے ہیں
جب کہ فوجی اشرافیہ کا ایک مخصوص طبقہ کسی نہ کسی لینڈ بروکر کا باج گزار
ہے . پاکستان کا بھی روحانی وجود ہے اور اسرار کے سوال کا جواب یہی ہے کہ
جس روز پاکستان میں بسنے والے پاکستان سے سچ بولیں گے اور اس کی ماٹی کی
قدر کریں گے سب مسلے حل ہو جائیں گے .
اسلام آباد کی اس شام کے اختتام پر میرے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا تھا جس
پر میں نے اپنا حال دل کچھ ایسے بیان کیا .
اے خاک وطن ہم اتنے برس
تیری ہستی سے دور رہے
توں اب بھی روشن و رخشاں ہے
توں اب بھی نیر و تاباں ہے |