حضور اکرم صلی اللہ علیہ وصلم کا معجزہ قرآن

قرآن شریف کلام الٰہی ہے۔ جو صاحب قرآن حضور اکرم ﷺ پر بتدریج 23سال میں نازل ہوا۔ قرآن شریف انسانیت کا عظیم منشور ہے۔ ا س کتاب میں رہتی دنیا تک آنے والے انسانوں کی دنیا و آخرت کی ہر طرح کی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔ جس طرح انسان کوئی مشین ایجاد کرتا ہے تو اسے بہتر طور پر استعمال کرنے کے لئے طریقہ استعمال کی کتاب بھی تیار کرتا ہے۔ جس میں مشین کو بہ حفاظت استعمال کرنے کے طریقے لکھے ہوتے ہیں۔ اور مشین خرید نے والے لوگ بھی مشین استعمال کرنے سے پہلے کتاب میں لکھے اصول پڑھ لیتے ہیں۔اور اس کے بتائے طریقے پر مشین استعمال کرتے ہیں۔ اور اگر کتاب کے اصول کے بغیر مشین استعمال کی جائے اور خراب ہوجائے تو مشین تیار کرنے والا اس کی ذمہ داری نہیں لیتا۔ اسی طرح جسم انسانی اللہ کی پیدا کردہ عظیم مشین ہے۔ جس کے حیرت انگیز نظام کے بارے میں سائینسدان حیران ہیں۔ اور کئی نے اس جسم کے نظام کا صدق دل سے مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ اور کہا کہ اس قدر پیچیدہ نظام کے ساتھ چلنے والے اس جسم کا خالق کوئی بڑی قدرت والی ذات ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اللہ نے اس جسم کو صحیح طریقے پر استعمال کرنے کے اصول قرآ ن شریف میں بتا دئے ۔ اور اس کتاب پر عملی نمونے والی حضور اکرم ﷺ کی سنتیں ہیں۔ جو حدیث شریف سے معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح جسم انسانی کو کامیابی سے چلانے کا راستہ قران و حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن شریف حضور اکرم ﷺ کی سیرت پاک کا عظیم معجزہ ہے۔ لفظ ”معجزہ“ عجز سے بناہے۔ یعنی ایسا کام جس کے کرنے سے کوئی عاجز ہو۔ اصلطاح میں ” معجزہ“ اس خلاف عادت بات یا فعل کو کہتے ہیں۔ جو کسی نبی یا پیغمبر سے ظاہر ہو۔ معجزہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسا مخصوص فعل ہے جو کسی نبی اور رسول کو کسی وقت بھی عطا ہو سکتا ہے۔ نبی اور رسول اپنی طرف سے کسی وقت بھی معجزہ کا اظہار نہیں کر سکتے۔ اللہ جب چاہیں وہ انبیا کو معجزے عطا کرتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی نبی اور رسول آئے۔ اللہ کی طرف سے انہیں کچھ نہ کچھ معجزے عطا ہوتے رہے۔ معجزے اس لئے عطا ہوتے ہیں کہ ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو بڑی قدرت والے اللہ کے وجود کا یقین دلایا جا سکے۔ دنیا میں معجزات کا ظہور صرف انبیاءعلیہم السلام کے ذریعے ہی ہوا۔ حضور اکرم ﷺ چونکہ خاتم النبین ہیں ۔ اس لئے اب کوئی انسان اپنے ذریعے سے کسی معجزے کے ظہور کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ہاں اگر کسی متقی پرہیز گار بندے سے جنہیں ہم ولی کامل کہہ سکتے ہیں۔ کوئی خلاف عادت بات ظاہر ہو تو ہم اسے ان کی کرامت کہیں گے۔ اس کے علاوہ کسی عام انسان سے اس طرح کی بات ہو تو اسے جادو یا سحر کہا جائے گا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وصلم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار معجزات عطا فرمائے۔ یوں تو آپ ﷺ کی ذات اقدس سراپا اعجاز ہے۔ لیکن آپ ﷺ کو عطا کردہ سب سے عظیم معجزہ قرآن کریم ہے۔ دنیا میں دیگر انبیاءکو ملنے والے معجزے وقتی تھے جو ان انبیا کے زمانے میں مخصوص اوقات میں ظاہر ہوئے۔ جیسے موسٰی علیہ السلام کا عصا وغیرہ۔ لیکن قرآن کریم ایسا معجزہ ہے جو کہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے مشاہدہ میں رہے گا۔ معجزہ قرآن کے کئی پہلو ہیں۔ ایک پہلو قرآن کا یہ ہے کہ یہ قیامت تک ہمیشہ محفوظ رہے گا۔ اس کے الفاظ ‘زیر ‘زبر اور اس کے معنی کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود لی ہے۔ اور جس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی۔ہمارا مشاہدہ ہے کہ عیسائیوں کی انجیل اور یہودیوں کی تورات اور دیگر آسمانی کتب محفوظ نہیں ہیں اور ان میں رد و بد ل ہوگیا ہے۔ کیونکہ قرآن کی آمد کے بعد آسمانی کتابوں کا حکم منسوخ ہوگیا اور اللہ نے ان کی حفاظت کا اعلان نہیں کیا۔ ان کتابوں کے علما اور مستشرقین کا ماننا ہے کہ ان کی کتابیں محفوظ نہیں جبکہ ان کا ماننا ہے کہ قرآن اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے۔ چونکہ کہ قرآن کا حکم اب قیامت تک رہے گا اس لئے اللہ نے اس کتاب کی حفاظت کے عجیب و غریب طریقے رکھے ہیں۔قرآن کے علاوہ دیگر مشہور کتابوں کے ایڈیشن شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ تاہم دیکھا گیا کہ ہر ایڈیشن میں کچھ نہ کچھ غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن قرآن پاک کے تحفظ کا ایسا انتظام ہے کہ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں اس کی اشاعت ہوتی ہے۔ لیکن مجال ہے کہ کسی ایڈیشن میں ایک زیر زبر کی بھی غلطی ہو۔ اللہ نے حفاظت قرآن کا سب سے محفوظ طریقہ یہ رکھا کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو زبانی یاد ہوجاتی ہے۔ اور اسے یاد کرنے والے کو حافظ قرآن کہتے ہیں۔ اور یہ ایک دو نہیں بلکہ دنیا کے چپے چپے میں لاکھو ں کی تعداد میں ہیں اور ہر زمانے میں تیار ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا والوں نے قرآن کو مٹانے کے لئے سازش کے طور پر اس کے نسخے جلائے اور اسے دریا میں اس قدر بڑی مقدار میں پھینکاکہ اس کی سیاہی سے پانی کا رنگ بدل گیا ۔ لیکن کسی کے سینے میں محفوظ قرآن کو کون مٹا سکتا ہے۔ اس طرح حفاظت قرآن ایک اہم معجزہ ہے۔قرآن کا ایک معجزہ یہ ہے کہ اس کتاب کو بار بار پڑھا جاتا ہے۔ دنیا میں قرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب نہیں جسے ایک ہی لحن میں دنیا بھر کے کروڑوں لوگ پڑھتے ہوں۔ دنیا کی دیگر کتابیں ایک دو مرتبہ پڑھنے کے بعد پڑھنے والا بےزار ہوجاتا ہے۔ لیکن قرآن شریف ایک ایسی کتاب ہے جسے بار بار پڑھا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی خوبصورت لحن میں قرات پڑھے تو اسے بار بار سننا چاہتا ہے۔ چونکہ یہ کلام الٰہی ہے۔ اس لئے اس کی تلاوت میں چاشنی پائی جاتی ہے۔ حدیث شریف کے مفہوم میں بات ملتی ہے کہ قرآن کی تلاوت بہترین عبادت ہے۔ اس کی تلاوت پر ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں عطا ہوتی ہیں۔قرآن شریف کا ایک اور اہم معجزہ یہ ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے۔ عربی زبان میں ناز ل ہوا۔ اور ایک ایسے زمانے میں نازل ہوا جب کہ عرب میں عرب شاعری اپنی فصاحت اور بلاغت کے لئے مشہور تھی۔ ایسے زبان دانی کے عالم میں اللہ نے کلام الٰہی کو حضور اکرم ﷺ پر ناز ل کیا اور کفار کو چیلنج کیا کہ وہ قرآن کی جیسی ایک آیت تو پیش کر کے دکھائیں اور پھر کہہ دیا کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اور ہوا بھی یہی کہ کفار مکہ قرآن کے عجیب و غریب انداز بیان کا کوئی جواب پیش نہیں کر سکے۔ قرآن کا ایک اور معجز ہ اس کی بے مثال فصاحت و بلاغت ہے۔ سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے شاعرانہ انداز میں اپنی نعمتوں کا اظہار کیا اور ہر نعمت کے بعد آیت کے ذریعے لوگوں سے پوچھا کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے۔ قرآن کریم کی اثر پذیری کا یہ عالم تھا کہ کفار لوگوں سے کہتے پھرتے تھے کہ وہ قرآن کو نہ سنیں اگر سنیں گے تو اس کے سحر میں گرفتا ر ہوجائیں گے۔ لیکن اللہ نے جن کے مقدر میں ہدایت لکھ دی تھی وہ قرآن کو سن کر ہی ایمان لے آئے۔ حضرت عمرؓ بھی اپنی بہن کے گھر قرآن سن کر ہی اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں کئی صحابہؓ نے قرآن سن کر ہی اسلام قبول کیا تھا۔ قرآن کریم کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ اگر اس کتاب کی آیتوں کو پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو وہ اس کے بوجھ سے ریزہ ریز ہ ہوجاتا۔ لیکن اللہ نے اسے انسانوں کے دل میں اتارا۔ صاحب قرآن کی برکت یہ ہے کہ حافظ قرآن لوگوں کی قیامت کے روز بخشش کرائے گا۔ قرآن کے چار حقوق ہیں۔ پہلا یہ کہ اس کی تلاوت کے آداب کے ساتھ تجوید کے ساتھ اسے زندگی بھر پڑھنے کا معمول بنایا جائے۔ قرآن کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے معنی ومفاہیم کو سمجھا جائے۔ اس کے لئے قرآن کی تفاسیر پڑھی جائیں۔ اور قرآن جاننے والوں کی صحبت میں رہ کر اس کے معنی و مفہوم کو سمجھا جائے۔ کئی لوگ خود س قرآن کے معنی و مفہوم سمجھنے کے چکر میں راہ سے ہٹ گئے۔ اس لئے قرآن کا صحیح مفہوم سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ قرآن کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کے مطالب ‘قوانین اور احکامات کو زندگی میں برتا جائے۔ قرآن مسلمانوں کے نام اللہ کا خط ہے۔ اور خط کا یہ حق ہوتا ہے کہ اس کے مفہوم کو سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے۔ قرآن میں انسانی زندگی کے مسائل کا حل موجود ہے جو علمائے کرام سے سیکھا جائے۔ قرآن کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس کے معنی و مفاہیم کو دوسروں تک دعوت الی اللہ کے ذریعے پہونچایا جائے۔ کیونکہ اللہ کا منشا ہی یہ ہے کہ مسلمان اس زمین پر اللہ کا کلمہ اور نام بلند کریں۔ اس لئے مسلمان قرآن کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کریں۔ بحر حال قرب قیامت کے زمانے میں جب کے قرآن اور مسلمانوں پر مشرکین کے حملے ہورہے ہیں ۔مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کا دامن مظبوطی سے تھامے رکھیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ذریعے اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں۔ یہی حضور اکرم ﷺ کے معجزہ قرآن کی سچی قدردانی ہوگی۔
ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
About the Author: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی Read More Articles by ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی: 8 Articles with 30432 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.