ہم بہت ترقی کر جاتے مگر کرپشن
نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ہم پاکستانی زندگی ہر شعبے میں کرپشن کا دامن
ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایماندارشخص کی مٹی ایسی پلیدکرتے ہیں کہ یا تو وہ
ایمانداری سے توبہ کر لیتا ہے یا پھر بے ایمانوں سے کوسوں دور بھاگ جاتا ہے
اور اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے۔یہاں بے ایمان اور جعلساز بادشاہوں سے
زیادہ طاقتور نظر آتے ہیں۔انہیں کرپشن کرتے ہوئے نہ تو شرم آتی ہے اور نہ
ہی کسی کی پکڑ دھکڑ کی فکر۔وہ اپنی کرپشن کے ہر ثبوت کو اتنی صفائی سے
مٹاتے ہیں کہ کرپشن خود پریشان ہو جاتی ہے۔ہماری نام نہاد حکومت سمیت ہر
آدمی اپنے دائیں بائیں ہونے والی کرپشن سے نظریں چرائے ہوئے ہے۔اسلام آباد
سی ڈی اے کے کارناموں کا آج کے کالم میں تذکرہ بہت ضروری ہے۔
ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق سی ڈی اے میں کروڑوں روپے کرپشن کا انکشاف ہوا
ہے۔ فن لینڈ سے 76 کروڑ روپے کی خراب چارمہنگی ترین ہائی رائز گاڑیاں خریدی
گئیں۔ کثیرالمنزلہ عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں سی ڈی اے کے پاس کوئی
گاڑی موجود نہیں۔ایک نیوز پیپر کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق سی
ڈی اے کی جانب سے جون 2005 کو الفجر انٹرنیشنل کمپنی کو 59 کروڑ 56 لاکھ
مالیت کی فائربریگیڈ و دیگر گاڑیاں فراہم کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ چار سال
گزرنے کے بعد یہ گاڑیاں مئی دو ہزار نو میں سی ڈی اے کو مہیا کی گئیں جنہیں
جانچے بغیر ہی سی ڈی اے نے انسپیکشن سرٹیفکیٹس بھی جاری کر دیے۔ گاڑیاں
خراب نکلیں تو سی ڈی اے نے 650 ملین کی بینک گارنٹی کلیم کر لی جس پر الفجر
کمپنی نے عدالت کا رخ کر لیا۔ سی ڈی اے کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ
فراہم کردہ ستائیس گاڑیاں تو چلنے کے قابل ہی نہیں۔ عدالت نے کمپنی کو
گاڑیاں مرمت کروانے کی ہدایت کی مگر پھر چیف فائر اینڈ ریسکیو ظفر اقبال
اور دیگر حکام کی جانب سے ان گاڑیوں کی مرمت کرائے بغیر ہی سرٹیفیکیٹس
عدالت میں جمع کروا دیے گئے۔ عدالت کو جمع کرائے گئے انسپیکشن سرٹیفیکیٹس
کے مطابق فن لینڈ سے لائی گئی چار مہنگی ترین ہائی رائز گاڑیوں کی مرمت
نہیں کرائی گئی۔ اس وقت ایک ہائی رائز گاڑی کی مالیت انیس کروڑ ہے۔ واضح
رہے کہ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی آڈٹ رپورٹ میں گاڑیوں کی خریداری پر آڈٹ
اعتراضات بھی تاحال نمٹائے نہیں گئے۔فن لینڈ سے لائی گئی چار مہنگی ترین
ہائی رائز ریسکیو گاڑیوں میں سے تین اسی خراب حالت میں کھڑی ہیں۔ ذرائع کے
مطابق نومبر 2009 میں امریکی سفارتخانے کی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد خراب ہونے
والی گاڑی کے لیے ستر لاکھ کی رقم وصول ہونے کے باوجود اس گاڑی کی مرمت
نہیں کرائی گئی۔ محکمے کے پاس موجود 6 میں سے پانچ ڈبل کیبن ایمرجنسی
گاڑیاں سی ڈی اے کے ہی دیگر محکموں کے افسران کو دے دی گئی ہیں۔
ہم جب تک اپنے آپکو درست زاویے میں نہیں لائیں گے تب تک دوسروں کو نہ تو
درست راہ دکھا سکیں گے اور نہ ہی خود کامیابی کی طرف گامزن ہو سکیں
گے۔ہمارے لیڈران کب ایسے کرپٹ اور نااہل افراد کی پکڑ دھکڑ کریں گے؟ ۔سوچنے
کی بات تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی اس معا ملے میں نااہلی اور نالائقی
چھپائے نہیںچھُپتی۔اگر کوئی حکومت،وزیر،مشیر یاذمہ دار چاہتا تو نوبت یہاں
تک نہ آتی۔خدانخواستہ کراچی اور لاہور جیسی فیکٹریوں کی مانند آگ راولپنڈی
اسلام آباد یا اس کے قرب و جوار میں کہیں بھی کبھی بھی لگ سکتی ہے اور اس
کو بجھانے کے لئے سی ڈی اے کے پاس کوئی نعم البدل نہیں۔ہمارے ملک میں اس سے
پہلے سیلاب او ر زلزلے میں اسی قسم کی ناکامیاں ہم سب کے سامنے ہیں ۔ہمارے
پاس فرسٹ ایڈ یا بنیادی طبی اقدامات تک موجود نہیں،اسی لئے ہر قسم کے
حادثات اور وقدرتی آفات میں کئی دفعہ جان لیوا واقعات سامنے آئے ہیں اور
قیمتی جانی نقصان ہوا ہے۔
ملک و قوم کا پیسہ کوئی حرام کا تھوڑا ہے جو اتنی مہنگی گاڑیاں خریدی جائیں
اور پھر انہیں ٹھیک کروائے بغیر ”کباڑ منڈی“ کے لئے رکھ دیا جائے۔کسی قسم
کے حادثہ میں ان گاڑیاں کا غیر فعال ہونا بھی نہ صرف گورنمنٹ لیول کی
ناکامی ہے بلکہ سی ڈی اے کے لئے بھی ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ہمارے ملک میں نیب
سمیت کئی ذیلی ادارے چیک اینڈ بیلینس کے لئے موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی
میں بھی اتنی بڑی کرپشن کی یہ ایک بہت بڑی مثال ہے ،اسی طرح ملک میں موجود
کئی ادارے کرپشن کا گڑھ بن چکے ہیں ،ان اداروں میں نہ جانے کتنے بڑے بڑے
مگر مچھ ملک و قوم کے پیسے کا ستیاناس کر رہے ہیں؟
ابھی بھی وقت گیا نہیں ،شاید کوئی ہوا کا خوشگوار جھونکا ہمیں اور ہمارے
دیس کو بھی نہال کر جائے ،پاکستان کے قیام کو محض65سال ہی تو ہوئے ہیں۔ہم
لوگ کسی نہ کسی دن تو عقل اور دماغ سے کام لیں گے ،کبھی تو اللہ تعالیٰ کی
بے آواز لاٹھی کرپٹ اور بے ایمان افراد کی سرکوبی کرے گی۔پھر یہ ملک،اس کی
عوام اور حکمران اس ملک کی خوشحالی کے لئے ایمانداری کو اپنا بنیادی شعار
بنائے گی اور انشاءاللہ ہم بھی زندگی کے ہر میدان میں ایماندار اور خوشحال
ہونگے ۔پھر ہمارے حکمران اور سیاستدان بھی بے ایمانی اور منافقت کی سیاست
سے باز آ جائیں گے ۔پھر سی ڈی اے والے بھی اپنی ریسکیو گاڑیاں سستی خریدے
گی اور اپنی صلاحیتو ں کو ہر پل عوام کی خدمت کے لئے تیاررکھے گی۔پھر کرپٹ
افسران اور کرپٹ ملازمین انصاف کے کٹہرے میں گردنیں جھکائے کھڑے ہونگے۔انشا
ءاللہ
پوری پاکستانی عوام اور کرکٹ ٹیم کوکو ٹی ٹونٹی کے پہلے میچ میں نیوزی لینڈ
کے خلاف کامیابی مبارک ہو۔ |