آخر کیوں؟؟ ؟۔۔۔۔

اسلام ایک فطرتی مذہب ہے،یہ دین یہودونصاری کی سازشوں سے رُکنے والا نہیں۔ قدرت کا جس نے بھی سامنا کیاوہ تباہ و برباد ہو گیا۔ فرعون ،نمرود اور جہالت کے پیشواؤں کو دیکھیں تو ان کی بدبودار زندگی کے بعد زمین نے بھی انہیں قبول کرنے سے انکار کیا۔

نشان عبرت بن جاتے ہیں وہ لوگ جو نظام قدرت میں دخل اندازی کی ناکا م کوشش کرتے ہیں۔یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ ہماری اپنے بداعمالیوں کی کمزوریوں سے دشمن اسلام ایسے گندے اور اوچھے ہتھکنڈے استعما ل کرتے ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی غلیظ حرکتوں سے محسن کائنات حضور سرور عالم ﷺ کی شان اقدس میں کوئی ذرابرابر بھی فرق نہیں پڑیگا۔مگر یہ مغرب میں تیزی سے پھیلتے اسلام کے خوف کی بھڑاس نکالتے ہیں جسے یہ دولت کے انبار لٹانے کے با وجود نہیں روک سکتے۔جس کے پھیلنے سے ان کا طاغوتی اور سرمایہ دارانہ نظام پوری طرح لرز رہا ہے۔ مگر یہ مذہب اسلام کی اصل طاقت سے ناآشنا ہیں ۔

گستاخانہ خاکے ،کارٹونز اور توہین ناموس رسالت ﷺ پر مبنی فلمیں بنانا ان ناپاک حیوانوں کی نئی چال نہیں یہ ان درندوں کی پیدائشی فطرت ہے۔ درندگی کے جن ادوار سے یہ گزر رہے ہیں ایسے میں ان کے دماغ ٹھکانے لگانے کے لئے عاشقان نبی ﷺ ہمہ وقت تیا رہوتے ہیں ۔ انہیں کسی اشارے یا کسی ڈکٹیشن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان غازیو ں کو اشارہ ہزاروں میل دور گنبد خضریٰ سے ہوتا ہے۔ خلیفہ ہارون الرشیدنے امام مالک ؓسے حضور نبی اکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کا حکم دریافت کیاتو وقت کے امام ؒ نے فرمایا :”مابقاءالامة بعد شتم نبیھا“ ” اس اُمت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں جس کے نبی ﷺکو گالیا ں دی جائیں“چلے تھے یہ گندے کیڑے اپنی بھڑاس نکالنے اوراب خود اپنی مرضی کے مطابق آزاد زندگی بھی نہیں گزار سکتے ، نفس کے ان پجاریوں میں اتنی ہمت ہے تو پھر خوف کے مارے گیدڑ کی ڈرپونک زندگی گزارنے پرکیوں مجبور ہیں؟ شرارت کا یہ طوق ان کے گلے میں پھنس گیا ۔

عالم اسلام کے اس احتجاج پر ان نفس کے پجاریوں کو یہ پیغام ضرور ملا ہو گاکہ ابھی غیرت مسلم زندہ ہے اور یہ وہ قوم ہے جو روکھی سوکھی کھاکرڈرون حملوں اور سلالہ جیسے حملوں میں اپنی خو د مختاری کا سودا کر کے بے غیرت تو بن سکتی ہے مگر اپنے آقا و مولا محمد عربی ﷺ کی شان اقدس میں ذرا برابر بھی گستاخی نا قابل برداشت ہے۔ اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے بھی تو یہ اپنا جان و مال گھر بار ،زندگی کے ہم سفر ،کم سن بچوں اور رعب و دبدبے کی نوکری کو قربان کر کے گستاخ رسو ل ﷺکو تین سیکنڈ میں واصل جہنم کرنے میں بھی دیر نہیں کرتے۔ نبی ﷺ کی عزت و توقیر پر کوئی انگلی اٹھائے تو قوم کے ان سپوتوں کے جذبات عشق بے قابو ہو جاتے ہیں۔پھر یہ انتہا پسند بن کر غازی و شہید کے عہدے پر بڑے فخر سے فائز ہوتے ہیں۔

انکی زندگی کے یہ تین سیکنڈ یادگاراور تاریخی لمحات بن جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھیں کچھ گندے گھرانوں سے میر ایاز اور کم بخت حسین حقانی جیسے بدبودار کیڑے بھی نکلتے ہیں جو محبت یہودو امریکہ میں اپنا ایمانی وملی غیرت کا سودا بھی کر ڈالتے ہیں ۔ ڈالر کی درآمد کا موقع یہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ایسے پر تشدد حالات ہماری اپنی کمزوریوں کا باعث ہوتے ہیں ۔ہمارے پُر زور مذمتی بیان اور احتجاج بھی اب بے اثر نظر آتے ہیں۔ملک بھر کی مذہبی تنظیمات و سیاسی جماعتیں احتجاج ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے کر رہی ہیں ۔مگر ہمیں اتحادو ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک زباں سے نعرہ تکبیر و رسالتﷺ بلند کرنا ہو گا۔ یہ سنت مصطفی ﷺ بھی ہے اور سنت صحابہ کرامؓ بھی۔پُرامن احتجاج کر نا مہذب قوموں کا شیوا ہے۔ اسلام کا پہلا پر امن مظاہرہ کل چالیس افراد پر مشتمل دارارقم سے نعرہ تکبیر و رسالتﷺ بلند کرتا ہوا شروع ہوا۔

اگر ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہتے ہیں تو تفرقہ بازی کو ختم کر کے اتحاد امت کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا ۔ نہ صرف پاکستان کے مسلمان بلکے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو اکٹھا ہونا ہو گا۔مسلمان ممالک کے نمائندہ تنظیم OIC اپنی ساکھ خو بیٹھی ہے ۔اس میں بیٹھے اسلام کے نا مُراد ٹھیکیداروں کو مسلمانوں کے معاشی ، معاشرتی ،سیاسی و ملی حالات سے قطعاََ کوئی غرض نہیں ۔ کو ن کیاکر رہا ہے؟ جس تنظیم سے ابھی تک مذمتی الفاظ نہ نکلے ہوں انہیں اسلام سے کیا غرض؟ ہم اُمت مصطفی ﷺ کو ہی ایک ہونا ہو گا۔ہمیں ہی اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر میدان عمل میں سر پر کفن سجائے نکلنا ہو گا۔ ہمارا دشمن سرکاری و نجی املاک جلانے سے نہیںہمارے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلنے سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ وگرنہ سرکار تو چاہتی ہی یہ ہے کہ عوام الناس گدھوں کی طرح سڑکوں پر نکلے اور املاک کو نقصان پہنچائے تاکہ کسی قسم کے آڈٹ سے بلاخوف بچ سکیں ۔

گزشتہ دنوں تحفظ ناموس رسالت کے لئے چلنے والی تحریک ناموس رسالت ﷺ کی کامیابی ہمارے سامنے ”اتحاد امت “ کے” ثمرات “کی شاہد ہے۔جس میں صاحبزادہ ابوالخیر ڈاکٹر محمد زبیر کی سربراہی میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کی قیادت کارکنوں اور جیالوں سمیت موجود تھی۔ اور پورے ملک میں احتجاج و ہڑتال ہونے کے با وجود ذرا برابر بھی تشدد دیکھنے میں نہیں آیا۔اور لاکھوں فرزندان اسلام کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر کے اتحاد کے جواب میں دشمنان اسلام کو منہ کی کھانی پڑی۔

جب محسن انسانیتﷺ امن کے لئے کفار سے معاہدہ کر سکتے ہیں تو پھر ہم سب ایک خدا اور اسکے حبیب ﷺ کا نام لینے والے کیوں نہیں؟
Hafiz Zohaib khan
About the Author: Hafiz Zohaib khan Read More Articles by Hafiz Zohaib khan: 2 Articles with 1807 views A keen student of Mass Communication an Literature... View More