مثبت سوچ کی طاقت

مثبت سوچ انسان کی زندگی، حالات ، اور تعلقات پر ایک اچھا تاثر ڈالتی ہے اوراسی سوچ کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں ۔ وینسنٹ پہلے(VINCENT PEALE)ایک مشہور مصنف ہے جس کی عالمگیر و جہ شہرت کی وجہ اُس کی کتاب" مثبت سوچ کی طاقت" ہے ۔ ونسنٹ پہلے ایک سچا واقعہ بیان کر تا ہے کہ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ ایک فون آیا ۔ فون ایک شخص کا تھا جو رو رہا تھا کہ اُس کا سب کچھ لٹ چکا ہے ہر چیز تباہ ہو چکی ہے وہ مکمل برباد ہو چکا ہے۔ اب اُس کے پاس جینے کوئی جواز نہیں وہ مایوسیوں کے اندھیرے میں کھو چکا ہے۔ اُس کا دل اب جینے کا طلب گار نہیں ۔ اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے ۔ ونسنٹ پیلے نے اُسے اپنے دفتر آنے کا کہا اور فون بندہو گیا۔

اگلے دن وہ پیلے کے دفتر میں موجود تھا ۔ ملاقات کی ابتداءہی اُس نے فون والے انداز میں کی۔ اُس کی آہ و بکا پر ونسنٹ پیلے مسکرایا ۔ اُسے تسلی دی اور سکون سے بیٹھنے کا کہا ۔ وہ آدمی چپ ہو گیا ۔ تو ونسنٹ پیلے نے اُسے کہا کہ آﺅ مل کر تمہارے حالات کا مفصل جائزہ لیتے ہیں تاکہ اندازہ ہو کہ تمہارے مسائل کیا ہیں اور اُن کا حل کیا ہے ۔ کہ کہہ کر ونسنٹ پیلے نے ایک سادہ کاغذ لیا جس پر درمیان میں ایک عمودی لکیر لگائی اور وہ کاغذ اُ س شخص کے سامنے رکھ دیا اور کہا اب میں تم سے بہت سی باتیں پوچھوں گا۔ وہ باتیں تمہاری زندگی میں مثبت ہیں اُنہیں کاغذ پر دائیں طرف لکھنا ہے اور جو منفی ہیں انہیں بائیں طرف لکھنا ہے مگر میری زندگی میں کچھ بھی مثبت نہیں ہے ۔ اُپ کو لکیر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں میں ابھی سارا صفحہ منفی باتوں سے بھر دیتا ہوں ۔ ونسنٹ پیلے نے اُسے ایک بار پھر تسلی دی کہ وہ جیسے پوچھے اور جو پوچھے فقط اُس کا جواب دیا جائے ۔ ٹھیک ہے آپ پوچھیں ۔ اُس شخص نے جواب دیا۔

ونسنٹ پیلے نے پہلا سوال کیا ۔ " اُپ کی بیوی آپ کو چھوڑ کر کب گئی " ۔ وہ شخص یکدم تلملا اُٹھا ۔ یہ بات آپ سے کس نے کہی ۔ میری بیوی مجھے چھوڑکر کیوں جائے گی ۔ وہ بہت اچھی ہے ۔میرے ساتھ ہے اور مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ بہت خوب ، بہت خوب یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ یہ سب باتیں آپ کاغذ کے دائیں طرف لکھیں ۔ اُس شخص نے وہ ساری باتیں کاغذ کے دائیں جانب لکھ لیں تو ونسنٹ پیلے نے دوسرا سوال کیا۔ " آپ کے بیٹوں کو جیل کب ہوئی" ۔ یہ سن کر اُس شخص کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔ اُنہیں جیل کیوں ہو گی ۔ میرے بیٹے انتہائی مہذب شہری ہیں ۔ قانون کا احترام کرتے ہیں ۔ سکون اور اطمینان سے زندگی بسرکرتے ہیں ۔ والدین کے انتہائی فرمانبردار ہیں ۔ بہت اچھی ملازمت کرتے ہیں ۔ آسودہ حال ہیں اور میرے ساتھ ہی رہ رہے ہیں ۔ " یہ تو اور بھی بہت اچھا ہے" ۔ ونسنٹ پیلے نےمسکرا کر کہا ۔ اب بچوں کے بارے میں کی گئی بائیں ترتیب سے دائیں کالم میں لکھ دیں ۔ اُس کے بعد ونسنٹ پیلے نے ایسے بہت سے چبھتے ہوئے سوال اُس شخص سے کیے اور اُن کے مثبت جوابات دائیں کالم میں لکھواتا رہا ۔ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا ۔ اس طرح بہت سے صفحات بھر گئے مگر صرف اُن کا دایاں کالم ۔ بائیں کالم میں ابھی ایک لفظ بھی نہیں لکھا تھا۔ اتنے سوالوں کے بعد اُس شخص کا سمجھ آچکی تھی کہ قصور حالات کا نہیں اُس کی اپنی منفی سوچ کا ہے ۔ اس سے پہلے کہ ونسنٹ پیلے کچھ کہتا وہ خود ہی مسکرا نے لگا ۔ اور کہنے لگا " آپ صحیح کہتے ہیں سوچ کا انداز اگر مثبت ہو تو آپ کو ہر چیز بدلی بدلی اوربہتر نظر آتی ہے" ۔

دنیا میں اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لئے اپنی سوچ اور اپنے الفاظ کو بہتر بنانا ضروری ہے ۔ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ ہماری منفی سوچ ہوتی ہے ۔ اگر آپ کے ذہن پر نقش روشن اور خوبصورت ہیں تو اس کا اثر آپ کی زندگی پر بہت مثبت اور بہتر ہو گا۔ منفی انداز فکر سوائے مایوسیوں کے آپ کو کچھ نہیں دیتا ۔ اور زندگی تلخ ہو جاتی ہے ۔ پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے بہت سے لوگ مایوسی اور نااُمیدی کا شکار ہیں اسلئے کہ زمین حقائق بہت تلخ ہیں ۔ کرپشن نے اس سرزمین کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ہیں ۔ دہشت گرد ی نے ملک کے چپے چپے کو لہو لہو کر دیا ہے ۔ تو انائی کا شدید بحران ہے ۔ بدترین لوڈشیڈنگ نے معیشت کا پوری طرح مفلوج کر دیا ہے ۔ بااثر اور بے اثر لوگوں کے لئے انصاف کے علیحدہ علیحدہ معیار ہیں ۔ کچھ شہزادے ہی نہیں بلکہ ایک مخصوص طبقہ ہر قسم کے قوانین سے با لاتر ہے ۔ عا م آدمی کو انصاف خریدنا پڑتاہے ۔ کبھی پولیس سے کبھی وکیل سے اور معذرت کے ساتھ کبھی کبھار جج سے ۔ جولوگ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ذلت اُن کا نصیب ہے ۔ بیروزگاری نے چوری اور ڈاکے کو روزمرہ کا معمول بنا دیا ہے ۔ مگر ان تمام مصائب اور مشکلات کے باوجود مایوسی گناہ ہے ۔ وقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ان حالات میں س سے ضروری اپنی سوچ کو مثبت رکھنا اور اپنے طرز عمل کو تعمیری رکھنا بہت ضروری ہے۔

پاکستان کا حقیقی مسئلہ ایک جاندار اور ایماندار قیادت کا فقدان ہے ۔ لیکن اب شاید اس مسئلے کا حل زیادہ دن کی بات نہیں ۔ آج لوگوں میں شعور بھی ہے ۔ بے چینی اور اضطراب بھی ہے ۔ میڈیا اور بہت سے دوسرے عوامل اس شعور بے چینی اور اضطراب میں جلتی پر تیل کا کام کر رہے ہیں ۔ اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں مثبت سوچ اور مثبت جذبات رکھیں۔ اپنے اردگرد لوگوں میں مثبت سوچ کو فروغ دیں ۔ ایک اچھے شہری کی حیثیت سے اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دیں اور یقین رکھیں کہ تبدیلی آنے والی ہے اسلئے کہ جب اضطراب اوربے چینی حد سے بڑھ جاتے ہیں تو لوگ مسائل کے ذمہ داروں سے انتقام لیتے ہیں ۔ اُن کا بہتر شعور انہیں نئی اور بہتر قیادت کی تلاش میں اُ ن کی مدد کرتا ہے اوروہ اُس قیادت کو پالینے ۔ یقین رکھیئے کہ ایک نئی اور خوشگوار صبح طلوع ہونے والی ہے ۔ بدترین حالات اور بدکرداررہبر نمارہزنوں سے پاک وہ صبح جس کی آج پوری قوم متلاشی ہے ۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500748 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More