رزاق آبادپولیس ٹریننگ سنٹر کا واقعہ

میر اکرام الحق سندہ پولیس میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل تھے ایمانداری اور دیانت داری ان کی زندگی کا مقصد تھاان کی اہلیہ کشور اکرام الحق بھی گورنمنٹ پاکستان کی اعلیٰ سرکاری افسر تھیں دونوں میاں بیوی کبھی بھی کوئی غیرقانونی کام نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ انہوں نے کیا، مجھ سمیت متعدد لوگ انہیں کہتے تھے ” اکرام بھائی آپ لوگ اس سسٹم میں فٹ نہیں ہیں “ وہ اس جملے پر مسکراتے اور کہتے کہ اس کا احساس تو ہر فائل اور ہرپانچویں شخص سے مل کر ہوتا ہے مگر کیا کریں جب تک ہمت ہے اسی طرح سرکار کی خدمت کریں گے۔

میراکرام ڈی آئی جی کی حیثیت سے کوئٹہ بلوچستان میں تعینات کردیئے گئے اور پھر وہاں سے اچانک ہی” خطرناک حالات “کے باعث اہلیہ اور بچوں سمیت ملک کو خیرباد کہہ دیا، وہ خطرناک حالات امن و امان کی خراب صورتحال نہیں تھی بلکہ اس کرپٹ معاشرے کے کرمنل ذہنیت کے سرداروں کی ان کے لیئے پیدا کردہ تھی، اس بارے پھر کبھی اللہ نے چاہا تفصلاََ تحریر کرونگا۔

آج میراکرام الحق کی یاد آنے کی وجہ پولیس ٹریننگ اسکول رزاق آباد کراچی میں ہونے والا واقعہ ہے جس میں 57 پولیس اہلکار اپنے ہی ٹریننگ سینٹر کا کھانا کھانے کے نتیجے میں بیمار ہوگئے اطلاعات کے مطابق ایک اہلکار جاں بحق بھی ہوگیا(آئی جی سندھ نے اس واقعے میں کسی کی ہلاکت کی تردید کی ہے) ان اہلکاروں کی حالت اتوار کی شب اس وقت بگڑ گئی تھی جب انہوں نے اپنے ٹریننگ اسکول کا کھانا کھایااہلکاروں کو فوری طور پر اسٹیل مل اسپتال اور جناح اسپتال پہنچایا گیااس واقعہ پر پولیس کے رنگروٹوں نے اپنے ہی محکمہ کے خلاف احتجاج کیا توڑ پھوڑ کی اور مین نیشنل ہائی وے کو بند کردیا۔

کوئی اور ملک ہوتا تو اس واقعہ کی فوری تحقیقات کی جاتی اور ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں سزا دی جاتی اور ان کے خلاف اقدامِ قتل کے الزام کے تحت تعزیرا ت پاکستان کی دفعہ 307 کے تحت مقدمہ بھی درج کیا جاتا ۔ لیکن یہ پاکستان ہے جہاں آئی جی نے صرف اس بات کی تردید کرکے کہ واقعے میں کوئی شخص جان بحق نہیں ہوا یہ کہہ کر اطمینان کااظہار کیا اور اپنے معامات میں مصروف ہوگئے ۔

ٹریننگ سینٹر کا پرنسپل ایس پی رینک کا افسر ہوتا ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں زیرتربیت اہلکاروں کے لیئے بہترین خوراک اور ماحول فراہم کرنا شامل ہوتا ہے۔مگر جہاں پر” آوا کا آوا ہی بگڑا“ ہوا ہو وہاں ذمہ داروں کا فیصلہ کون کرسکتا ہے؟

اب بات کرتے ہیں میر اکرام الحق کی، یہ 1984کی بات ہے اس وقت میں صحافت کاطالبعلم تھاتعلیم کے ساتھ ایک مقامی اخبار میں ٹرینی کی حیثیت سے ملازمت بھی کیا کرتا تھا۔ میراکرام سے بہترین تعلقات کی وجہ بقول میر اکرام یہ تھی کہ ہم دونوں کے والدین کاآبائی تعلق حیدرآباد دکن تھا۔انتہائی کم عمر میر اکرام ایس ایس پی ایسٹ کراچی کی حیثیت سے اپنے دفتر میں بیٹھے فرائض انجام دے رہے تھے اس وقت ڈسٹرکٹ ٹریننگ سنٹر بھی ایس ایس پی کے دائرہ کار میں ہوا کرتا تھا۔

میں ان کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کررہا تھا ،ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دفتر میں آنے والے ہر شخص سے فوری ملاقات کرلیا کرتے تھے وہ دوستو ں سے گفتگو کے دوران بھی ہر ایک سے ملاقات کرلیتے تھے ،ان کا اردلی بہت ہی کم لوگوں کو یہ کہتا تھا کہ” صاحب میٹنگ میں ہیں“اس روز ایسا ہی ہواکہ اردلی اندر آیا اور بولا صاحب ایک رنگروٹ پیش ہونا چاہتا ہے، میر اکرام نے کہا بھیج دو،
چند لمحوں بعد ایک نوجوان لڑکا ان کے سامنے آیا سلوٹ کیا اورخاموش کھڑا ہوگیا۔ ایس ایس پی نے شفقت بھر ے لہجے میں پوچھا ” کیا بات ہے نوجوان، کوئی مسئلہ؟“ نوجوان نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہنے لگا سر میں بہت پریشان ہوں کیوں کہ میں بہت غریب ہوں اور اس قابل نہیں ہوں کہ روزانہ ایک پاﺅ دودھ پی سکوں اور ہمیں اب پھر اچانک روزانہ زبردستی دودھ دیا جانے لگاہے۔ میر اکرام نے کہا کیوں پریشان ہواس سے تمھاری غربت کا کیا تعلق ہے ؟وہ تو آپ کو محکمے کی طرف سے ملتاہے۔ یہ سن کر رنگروٹ کے آنسو نکل گئے اور اس نے ان ہی بہتے آنسوﺅں کے درمیان کہا کہ سر پرانے ایس ایس پی کی آمد پر بھی ہمیں دودھ ملنے لگا تھا لیکن ایک ماہ بعد منشی نے تنخواہ دیتے ہوئے پورے مہینے کے دودھ کی رقم کاٹ لی تھی، احتجاج کیا تو مزید رقم جرمانے کے طور پر کاٹ لی ، اس لیئے صاحب میری درخواست ہے کہ یہ دودھ پلانے کا سلسلہ بند کرادیں ویسے بھی ہم اس لائق نہیں ہیں۔

رنگروٹ کی بات سنکر میراکرام نے میری طرف دیکھا میں ،میں پولیس کے منشی سسٹم پر مسکرا رہا تھا ، انہوں نے رنگروٹ کو اپنے قریب بلایا اور اور کہا بے فکر ہوجاﺅ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔ایس ایس پی کی بات سنکر نوجوان سپاہی حیران کھڑا رہا اور سوالیہ انداز میں دیکھنے لگا۔

میں نے کہا اکرام بھائی اسے یقین نہیں آرہا اس کو اطمینان تو دلادو، جس پر ایس ایس پی نے سپاہی کو کہا کہ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو میں جہاں بھی رہوں تم اسی طرح میرے پاس پہنچ جانا۔

اس یقین دہانی کے بعد رنگروٹ تو چلاگیا مگر میری مسکراہٹ جو پولیس کے بد عنوان نظام کی شکایت کررہی تھی اسے دیکھ کر میر صاحب نے کہا انور یہ ہی یہاں کا نظام ہے بچہ کی شکایت اور فکر بالکل درست تھی۔ انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل میں نے ٹریننگ سینٹر کا اچانک دورہ کیا ، زیر تربیت پولیس رنگروٹوں سے ملاقات کی ، کچن کو چیک کیا اور زیر تربیت کانسٹبلز کی خوراک کا مینو معلوم کیا ، سب کچھ قانون کے مطابق تھا مجھے یہ علم تھا کہ ان کے لیئے آنے والا دودھ ٹریننگ سینٹرز کے انسٹریکٹرز کے گھروں میں چلاجاتا ہے تب ہی میں نے سینٹر کے انچارج سے سختی سے پوچھا دودھ تو روزانہ انہیں پلاتے ہونا؟ اس نے گھبراتے ہوئے کہا ہاں سر بالکل، اس کے گھبراہٹ کو محسوس کرکے میں نے اسے تنبیہ کی کہ مجھے کسی قسم کی کوئی شکایت ملی تو بہت سخت کارروائی کرونگا۔میر اکرام صاحب نے کہا پتا ہے پھر کیا ہوا؟ میں نے پوچھا کیا ہوا؟ پھر میرے گھر ایک بالٹی دودھ ایک شخص لے آیا ، میں نے اس سے دریافت کیا یہ کیا ہے کس بھیجا ؟ اس نے کہا کہ صاحب کا حکم تھا میں نے دودھ واپس بھجوایا اور ٹریننگ سینٹر کے ڈی ایس پی کو شوکاز نوٹس اور انسپکٹر کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا جس کے بعد یہ دودھ ان کو ملنے لگا جن کا یہ حق تھا۔

میر اکرام جیسے نیک اور انسان دوست افسران اگر آج بھی ہوتے تو رزاق آباد ٹریننگ سنٹر میں یہ افسوسناک واقعہ پیش نہیں آتا مجھے پورا یقین ہے کہ آئی جی فیاض لغاری جو کہ میر اکرام ہی کے بیج کے ہیں لیکن کبھی کسی ٹریننگ سنٹر کااچانک دورہ نہیں کیا ہوگا جس کا ثبوت ان سنٹرز کے کچنز کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے اسی طرح کا حال پورے ملک کے پولیس نظام کا ہے پولیس افسران اپنے گھروں میں پولیس اہلکاروں سے مالی چوکیدار ، باورچی اور سودا وغیرہ لانے کے کام تو کراتے ہیں لیکن ان کی صحت اور ان مسائل کا خیال نہیں رکھتے جس کے نتیجے میں پولیس سسٹم روز بروز خراب ہوتا جارہا ہے اور پولیس اہلکاروں میں احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔۔
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165951 views I'm Journalist. .. View More