پاکستانی عوام بنام حکومتِ امریکہ

مغرب اور یہود وقتاََ فوقتاََ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اپنے خبث ِباطن کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ پیغمبراسلام محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف ان کا تعصب کبھی ایک اور کبھی دوسری صورت میں نکلتا رہتا ہے اور مغربی حکومتیں انہیں آزادی اظہار رائے کا نامعقول جواز فراہم کرکے نہ صرف چھوڑتی جاتی ہیں بلکہ ایسا کرنے والوں کوکسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر انتہائی سخت سیکیورٹی فراہم کرتی رہتی ہیں۔

گزشتہ کچھ سالوں سے اِن گستاخانہ واقعات میں جو تیزی آئی ہے اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک عام سااحتجاج ہوتا ہے اور کچھ دنوں میں بات ختم ہو جاتی ہے ۔نہ ہی ہیومن رائٹس والے چیختے جنگھاڑتے ہیں اور نہ مسلمان حکومتیں اپنی مد ہوشی سے عالم ہوش میں آتی ہیں اور مغرب جو خود کو دنیا کا اَن دَاتا سمجھتا ہے اور ہماری حکومتیں اور کچھ بزعم خود دانشور بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ ان کی مدد کے بغیر ہم کیسے زندہ رہیں گے اور یوں دنیا پر دین کو قربان کردیا جاتا ہے لیکن خوش قسمتی کہ اس بار حکومت پاکستان نے حکومتی سطح پر احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے یومِ عثقِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلممنانے کا اعلان کیا ۔ اور ساتھ ہی احتجاج کو پر امن رکھنے کی اپیل بھی کی جاتی رہی کیونکہ جہاں اللہ اور رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف بات کی جائے وہاں مسلمان کا مشتعل ہوجانا فطری امر ہے ۔یوم عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمنے جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں کا اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے لیے سر کٹانے کے جذبے سے آگاہ کیا وہاں کچھ ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے ،کچھ قیمتی جانیں بھی تلف ہوئیں ،املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا، بینک بھی لوٹے گئے اور بہت کچھ ایسا بھی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن اس کا ہر گز ہر گز یہ مطلب نہیں کہ احتجاج نہیں ہونا چاہیے تھا جیسا کہ امریکہ بہادر کی سکریٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن کا بیان آیا کہ مظاہروں کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ بقول انکے اس فلم سے حکومت امریکہ کا کوئی تعلق نہیں، مان لیا نہیں ہوگا لیکن کیا ان تین مردود اشخاص کو امریکی تحفظ حاصل نہیں جنہوں نے یہ گھنائونی دہشت گردی کی۔ اور ساتھ ہی محترمہ نے یہ دھمکی بھی دی کہ تشدد کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ بالکل مسلمان بھی یہی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کو ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایسے تمام دہشت گرد دنیا میں اُس نفرت کے ذمہ دار ہیں جو شدت پسندی کو پیدا کرتی ہے۔ اوبامہ ہیلری اور ان کے قبیلے کے اوردہشت گرد اگر کبھی خود دنیا کے امن کو تباہ کریں گے یا اس میں مددگار ہونگے تو ظاہر ہے وہ اپنے خلاف جذبات کو روک نہیں سکیں گے پھر چاہے لیبیا میں ان کا سفیرقتل ہو یا پاکستان میں ان کے سفارت خانے اور قونصل خانوں پر حملوں کی کوشش ہو سب جائز قرار دیا جائے یہ بھی اظہار رائے ہی ہے کہ وہ آپ سے نفرت کا اظہار کریں ۔ جب آپ کی طرف سے دہشت گردی رک جائے گی تو ادھر سے بھی امن ہو جائے گا۔

دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اپنا احتجاج زیادہ سے زیادہ با اثر بنانے کی ضرورت ہے ہم ان کے خلاف نعرے لگائیں ،اپنے ہی املاک کو نقصان پہنچائیں تو ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے۔ میں سڑکوں پر نکلنے کی ہر گز خلاف نہیں بلکہ معذرت مگراس کی حامی ہوں مگر توڑ پھوڑ اور وہ بھی غریب دکان داروں کی دکانیں ، بینک لوٹنا پٹرول پمپ لوٹنا یہ کسی طرح کا موثر احتجاج نہیں موثر احتجاج تو تب ہوگا جب ہم ایسے لوگوں کی سر پرستی کرنے والی حکومتوں کو نقصان پہنچائیں وہ اگر اتنی دیدہ دلیر ہیں تو صرف اپنی ترقی ،معیشت اور دولت کے بل پر تو کیوں نہ ہم انہیں یہیں پر مار دیں انکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں ،کم از کم اُنہیں مصنوعات کا جو ایک ایس ایم ایس کے ذریعے گردش کر رہی ہیں لیکن وہ ہمیں پیپسی ، لیز اور اس فہرست میں شامل اشیائ کا نشئی بنا چکے ہیں یوں ان کی معیشت ترقی یا فتگی اور ہماری ترقی معکوس پر گامزن ہے۔

ہمارا الیکٹرانک میڈیا جو چاہے ثقافت کی دھجیاں بکھرے چاہے دین کی ، کو صرف اپنی آمدن اور نفع سے سروکار ہے یومِ عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر جب پورا ملک امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا بلکہ اُسکے سفارتخانوں اور قونصل خانوں پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہا تھا تو یہ او بامہ اور ہیلری کے بیانات معاوضتاََ Paid Add)﴾کے طور پر نشر کر رہا تھا اور یو ایس ایڈ کے اشتہارات بھی اور ساتھ ہی یہ بھی فرما رہا تھا ’’ہمیں اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پیارہے‘‘ یہ دوہرا معیار عوام کے مزید غصے کا باعث بن رہا تھا۔ اگر نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پیار ہے تو اس طرح ان کے مخالفین کو نقصان پہنچا ئو کہ کم از کم ایک دن کے لیے ان اشتہارات مت دو۔ ان کے چینلز بند کرکے انہیں نقصان پہنچائو جب عوام دیکھیں گے کہ ان کا غیض و غضب وہاں پہنچ رہا ہے تو وہ پتھر نہیں اٹھا ئیں گے اور گولیاں نہیں کھائیں گے ۔اگر اسی دن کی طے شدہ پاک امریکہ ملاقاتیں موخر کم کر دی جاتیںتو عوام حکومتی املاک کو توڑ پھوڑ کر اپنی ناراضگی نہیں دکھاتے۔ اس دن صرف احتجاجی مراسلہ کافی نہیں تھا نیٹو سپلائی کو دھمکی کے طور پر استعمال کیا جاتا تو کچھ ہاتھ آتا۔

اگر بی بی عاصمہ جہانگیر، محترمہ فرزانہ باری، قابل احترام ثنا بُچہ اور اقلیتوں کے حقوق پر اپنے مغربی دوستوں کی خاطر چیخ اٹھنے والے ہمارے اینکرز اس معاملے پر بھی کچھ بول ہی لیتے تو شاید نو بت یہاں تک نہ پہنچتی کہ انیس افراد مارے جائیں ۔ یہاں یہ واضح کرتی چلوں کہ میں بھی تمام پاکستانیوں اور مسلمانوں کی اکثریت کی طرح اقلیتوں کے حقوق کی بڑی علمبردار ہوں اور میرے لیے اِن واقعات میں جانوں کے ضیاع کے ساتھ ایک چرچ کا نذر آتش ہونا سب سے زیادہ افسوس ناک تھا جس کی حفاظت ہمارا دینی فریضہ تھا لیکن ہم اسے ادا نہ کر سکے اور اس کے لیے ہم اللہ کے آگے جوابدہ ہونگے۔

ایک اینکر نے یہ فرمان بھی جاری کیا کہ ستاون مسلمان ممالک میں پاکستانی ہی سب سے زیادہ ناراض کیوں؟ اور یہاں پر ہی چھٹی کیوں اور دن منانے کا اعلان کیوں؟ تو کیا اگر چھین ممالک نے اپنے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت پر سمجھوتہ کر لیا ہے تو ہم بھی کر لیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہے بھی نہیں لیبیا میں جو کچھ ہوا شاید اُس سے یہ’’ باخبر اینکر‘‘ بے خبر تھیں اور مصر اور تیونس کے حالات بھی اِن سے پوشیدہ تھے پاکستانی تو شاید زیادہ گراں خواب تھے کہ دیر سے بیدار ہوئے ۔

ایک محترم سیاسی لیڈر نے زخموں پر یوں نمک پاشی کی کہ ہم نے آخر اس معاملے کو اتنی اہمیت کیوں دی اور ہم نے ان فلم سازوں کو کروڑ پتی بنا دیا ،تو کیا ہم پہلے کی طرح دیکھتے جائیں اور وہ کرتے جائیں ۔ ہمارے ماں باپ کو کوئی گالی دے تو ہم جان سے گزر جاتے ہیں تو پھر یہ دعویٰ کیسے کہ کر حرمت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے ماں باپ سے بڑھ کر عزیز ہے۔

کاش ہمارے یہ انسانی حقوق کی باتیں کرنے والے، ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حقوق کی بات کرنے سے کچھ نام کما سکتے تو کما چکے ہوتے اور عوام ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر نہ اٹھا تے اور پھر اگر عوام نکل ہی آئے تھے تو انہیں نکالنے والی جماعتیں اور ان کے لیڈر ان کے ساتھ ہوتے تو نقصان شایدکم ہوتا۔

حکومت کا اعلان کردہ یوم عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم گز رگیا لیکن مغرب یاد رکھے کہ مسلمان کے لیے ہر دن یوم عثقِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو ان کو روکنے کی بات بیکار ہوگی ۔اوبامہ اور ہیلری ہمیں منہ زبانی یہ نہ بتائے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں ہمیں ثبوت چاہیے جس طرح شہزادہ ہیری اور کیٹ کی قابل اعتراض تصاویر یو ٹیوب سے ہٹائی گئیں اسی طرح گو گل اور یو ٹیوب سے یہ فلم ہٹا دی جائے اور جس طرح ہو لو کاسٹ کی بات کرنے کوقابل سزا قرار دیا گیا اسی طرح ان ملعون اشخاص کو بھی سزا دی جائے نہیں تو انہیں مسلمانوں کے حوالے کر دے بالکل اسی طرح جس طرح وہ القائدہ والوں کی حوالگی کا مطالبہ کرتا ہے اور اسے منواتا ہے مسلمانوں کے مجرم مسلمانوں کو دے دئیے جائیں اور یہ فرمان بھی نہ جاری کیا جائے کہ شدت پسندی برداشت نہیں کی جائے گی اسلام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا آگے کردو یہ آپ کی تعلیمات ہیں اور ان کی رو سے آپ کو خود پر حملہ کرنے والوں کی پزیرائی کرنی چاہیے اگر تم لوگ دہشت گردی کروگے تو اس کا جواب بھی پاو گے۔ ہم مسلمان تو علی الاعلان کہتے ہیں کہ نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکی شان میں گستاخی کرنے والا قابل قتل ہے اور ظاہر ہے جہاں یہ لوگ مسلمانوں کو دستیاب ہونگے تو ان کی حفاظت پورے مغرب کے لیے بھی نا ممکن ہو جائے گی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 511984 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.