یہ ایک مسلم امر ہے کہ اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے ۔دین اور دنیا کی رگیں اسی سے پھوٹتی ہیں لیکن اس بات
کا بھی قطعی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس تیز ترین زمانے میں
موجودہ دور کی جدت کو بھانپنے اور عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے
جدید علوم سے استفادہ کی ضرورت نہیں ۔
ابتدائے اسلام سے لیکر آج تک اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو حاصل
کرنے کی تہذیب مسلمانوں میں برابر موجود رہی ہے ۔سائنسی تاریخ کی طرف نظر
دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تخلیق سائنس اندلس کے مسلمان شاہکاروں کا
کرشمہ ہے ۔مسلمانوں کے نظام تعلیم نے امت کو جہاں مفسرین ،محدثین اور
فقہاءدیے ہیں وہیں تاریخ، ہندسہ، فلکیات اور جغرافیہ کی جدید راہوں کی طرف
رہنمائی کرنے والے سائنس دان بھی دیے جن کے افکار و نظریات پوری دنیا میں
مسلم ہیں ان سے انحراف ممکن نہیں ۔
برصغیر میں مسلمانوں کا سو سالہ دور اقتدار بھی شاہدہے کہ مسلمان ہر میدان
کے ماہر تھے ۔قدیم اسلامی تعلیمی اداروں کی روایت بتاتی ہے کہ دینی علوم کی
تعلیم کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضوں کے مطابق عصری علوم کو بھی قدر کی نگاہ
سے دیکھا جاتا رہا۔
برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کے تسلط کی وجہ سے جہاں اور مسائل نے جنم
لیا وہیں اس کا اثر مسلمانوں کی تعلیم پر بھی ہوا ۔انگریز حکومت نے ایک
سازش کے تحت مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کردیے تاکہ مسلمان ہر لحاظ سے
پسماندہ ہوں ان حالات میں مسلمانوں کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا تھا ایک یہ
کہ دین اسلام کو محفوظ کر کے آئندہ نسلوں میں منتقل کرنا اور دوسرا دشمن
اسلام کا تعاقب کرنا چنانچہ تعلیمی تحریک دارالعلوم دیوبند کے ذریعے مسلمان
اپنا دین محفوظ کرنے میں تو کامےاب رہے تاہم عصری علوم سے عدم واقفیت اور
دوری کی بناءپر نظام حکومت ہمیشہ کے لئے ہاتھ سے جاتا رہا ۔جب تک انگریز کا
قبضہ مضبوط رہا مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند رہے ۔لیکن جب انگریزی تسلط
کمزور ہوا تو لومڑی کی طرح مکار دشمن نے مکاری کی اور ایسے تعلیمی ادارے کا
ڈھنڈھورا پھیرا جو موجودہ دور کے تقاضے پورے کرے حقیقت میں وہ مسلمانوں کے
نظریات و افکار میں مداخلت کا خواہاں تھا ۔چنانچہ انگریز کی چالاکی اور
مسلمانوں کی پسماندگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علی گڑھ یونیورسٹی کو متعارف
کروایا یہ ایک ایسا ادارہ تھا جس نے مکمل طور پر انگریزی نظام کو قبول
کرلیا تھا اور ایک سبق اسلامیات کا بھی اس میں شامل کیا یوں یہ ادارہ
برصغیر کی مسلمانوں کی پہلی تعلیمی تحریک دارالعلوم دیوبند کے مخالف خطوط
پر یہ ادارہ قائم ہوا ۔علی گڑھ کے انگریزی نظام کو فوری طور پر قبول کرنے
کا اثر یہ ہوا کہ جلد ہی نوجوانانِ مسلم میں اسلامی تہذیب اور اسلامی جذبہ
مفقود ہو کررہ گیا اس بات کا اعتراف خود عصری اداروں میں تربیت پانے والوں
نے بھی کیا ہے ۔دارالعلوم دیوبند کے ہم سفر اپنے محدود وسائل سے اسلامی
جذبہ اور اسلامی تہذیب سے اپنے آپ کو مزین کر کے اپنی منزل کی طرف رواں
دواں رہے ۔جب مسلمانوں کی متحدہ کوششوں سے وطن ِعزیز نے جنم لیا تو برصغیر
کا وہی اثر مسلمانوں میں پھر ظاہر ہوا انگریزی ذہن سے ہم آہنگ طبقہ نے
حکومت کا رخ کیا اور علمائے کرام کے لئے راستے میں روڑے اٹکائے تو دینی
مزاج کے حاملین نے بقائے دین کے لئے دینی تعلیمی اداروں کے قیام کا رخ کیا
یوں پاکستان میں بھی طبقاتی تفریق کا سلسلہ چل نکلا ۔جب دینی مفکرین نے
محسوس کیا کہ اب انگریزی زبان اور فنون تو ہیں لیکن انگریزی نظام نہیں تو
انہوں نے مسلمانوں کے درمیان طبقاتی تفریق کے خاتمے اور علی گڑ ھ یونیورسٹی
کے فکری ترجمانوں کو اسلام کے قریب لانے جدوجہد شروع کر دی جس کے نتائج
مثبت انداز میں اب سامنے آرہے ہیں ۔
موجودہ دور وطن ِعزیز کا انتہائی ناقص اور بد امنی کا دور ہے ان سنگین
حالات میں پیارے وطن کو ایسے افراد کی ضرورت ہے جو وطن کی نظریاتی حدود کے
محافظ ہوں اگر دیانت دار نگاہ سے دیکھا جائے تو نظریں علمائے کرام پر ہی
جاکر رک جاتی ہیں ۔لہٰذا وطن ِعزیز کے انتظام و انصرام کے لئے علماءکی
ضرورت ہے اب علماءاور امور ِ سلطنت کے درمیان تھوڑی سی خلیج حائل ہے اور وہ
عصری علوم ہیں ۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی بھی ایک تاریخ ہے
مسلمانوں کی پہلی اسلامی نظریاتی ریاست اپنی زندگی کے ابتدائی مرحلہ میں
تھی کہ غزوہ بدر کا واقعہ پیش آگیا مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگئی مال ِ غنیمت
کے علاوہ ستر قیدی بھی مسلمانوں کے ہاتھ آگئے سالارِ اعظم ﷺ نے کفار قیدیوں
کے لئے فدیہ کا فیصلہ فرمایا اور ساتھ ہی آرڈیننس جاری فرمایا کہ جو فدیہ
ادا نہ کر سکے وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے ۔اب اگر تھوڑا سا
تحمل مزاجی سے سوچا جائے تو عقل فیصلہ کرے گی کہ وہ دینی نہیں بلکہ دنیاوی
تعلیم تھی کیونکہ سکھلانے والے کفار تھے ۔مسجد نبوی میں جہاں صحابہ کرام ؓ
قرآن و حدیث کی تعلیم سے فیض یاب ہوتے تھے تو دوسری طرف یہی مسجد ایک عسکری
ٹریننگ سنٹر بھی تھا ۔طب خود آنحضرت ﷺ ست منقول ہے اور آج کے ترقی یافتہ
دور میں طب نبوی اپنا مقام رکھتی ہے ۔سائنسی ایجادات کا سلسلہ بھی دور نبوی
سے شروع ہو گیا تھا دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے منجنیق کا استعمال غزوہ
طائف سے ہوا صحابہ کرام ؓ کے دور میں عصری علوم و فنون نے بھر پور ترقی کی
بحری بیڑے کی ایجاد مسلمانوں کا عظیم کارنامہ ہے ۔مسلمانوں نے ہر دور میں
جدید تقاضوں کے مطابق اسلحہ ایجاد کیا اس کے علاوہ جامعہ نظامیہ بغداد ،جامعہ
الازہر قاہرہ وغیرہ بڑے تعلیمی اداروں میں عصری علوم و فنون کے باقاعدہ
ڈیپارٹمنٹ تھے ۔یہ سلسلہ دارالعلوم دیوبند میں بھی نہیں رکا خود بانی
دارالعلوم نے نصاب تعلیم میں درس نظامی کے علاوہ جغرافیہ ،طب ،سائنس اور
ریاضی وغیرہ کو شامل کیا یہ الگ بات ہے کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں یہ علوم
ترقی نہ کرسکے ۔
اس لئے عصری علوم سے اپنے آپ کو الگ رکھنا دین اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ
کے مزاج کے خلاف ہے ،خاص کر ایسے دور میں جب کائنات گلوبل ولیج کا حلیہ پیش
کر رہی ہے چیلیجز نے ہماری زمینی ہی نہیں بلکہ نظریاتی حدود کو بھی عبور کر
لیا ہے ۔لہٰذا اب وقت کا شدید تقاضا ہے کہ علمائے کرام عصری علوم سے رسائی
حاصل کر کے وطن ِ عزیز کو استحکام بخشنے کے لئے پاک سر زمین کی باگ ڈور
اپنے ہاتھ میں لیں یوں مسلمان اپنے کھوئے ہوئے کلچر کو دوبارہ پروان چڑھا
سکتے ہیں جو ملک و قوم کی سالمیت کا ضامن ہے۔ |