انتہاءپسندی اور دہشت گردی کے خاتمے میں شہریوں کا کردار

پاکستان اس وقت شدید قسم کی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کو عملی جامہ بنانے کے لئے موقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ گستاخ فلم ”انوسنس آف مسلم“ کے خلاف یوم عشق منانے کا مقصد ایک پرامن احتجاج تھا مگر اس روز جو کچھ دیکھنے کو ملا اس سے ہمارے سر ندامت سے جھک گئے۔ اس موقع پرہونے والے احتجاج کو بے قابو کرنے اور اسے لوٹ کھسوٹ، جلاﺅ گھیراﺅ کے خوفناک طوفان میں تبدیل کرکے ان شرپسندوں نے نہ صرف قومی املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ عالمی سطح پر پاکستان اور اسلام کی ساکھ کو بھی خوف متاثر کیا۔اب حالت یہ ہے کہ بجائے ان گستاخوں پر لعنت بھیجیں ، ہماری ساری قوتیں وضاحتوں اور توجیہات کے گردگھوم رہی ہیں۔

ہم اس گستاخ فلم پر انگلی اٹھانے کی بجائے اپنے آپ کو کوس رہے ہیں۔ یہ ہے ہماری حالت، سوچ اور احتجاج بہت سے تجزیہ نگار ان پرتشدد واقعات کے بعد قوم کی تربیت کا سوال اٹھارہے ہیں۔ ان کے مطابق ہماری قوم کو تربیت کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ایسے معاملات پر ہماری مذہبی و سیاسی قیادت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔مگر میرے خیال میں جن لوگوں نے توڑ پھوڑ کی ان کا تعلق ہماری قوم سے ہرگز نہیں تھا۔ پاکستانی قوم تو اپنے نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کو اپنا مطمح نظر رکھتی ہے اور پاکستان کو ٹوٹتے پھوٹتے ہرگز نہیں دیکھ سکتی۔ یوم عشق رسول ﷺکے موقع پرملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کی آڑ میں جس لاقانونیت‘ تشدد اور گھیراﺅ جلاﺅ کا مظاہرہ کیا گیا اسے کسی بھی لحاظ سے جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سرکاری یا نجی املاک کو نقصان پہنچانا شرپسندوں اور ملک دشمنوں کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے، کوئی مسلمان ، عاشق رسول ﷺ اور سچا پاکستانی ایسے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ گستاخانہ فلم کے خلاف ہونے والے احتجاج کی آڑ میں جلاﺅ گھیراﺅ کے واقعات میں جہاں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچا وہاں قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔

اس طرح کے پرتشدد احتجاج نے امریکہ، یورپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑا بلکہ ہم نے اپنی معیشت جس کی حالت پہلے سے ہی دگرگوں تھی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ چونکہ پاکستان کو معاشی و دفاعی لحاظ سے کمزور کرنا ہمارے دشمنوں کی سب سے بڑی خواہش ہے لہٰذا ایسے پرتشدد احتجاج کرنے والوں نے ملک دشمنوں کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق گستاخانہ فلم کے بعد پاکستان میں ہونے والے احتجاج سے معیشت کو صرف ایک روز میں سوا کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ گستاخانہ فلم آنے کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں احتجاج ہوا ہے تاہم اس کا طریقہ کار پاکستان سے مختلف ہے ،ہمارے ہاں جو کچھ ہوا اس پر سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر کوئی بد بخت مغرب میں بیٹھ کر کوئی گستاخانہ فلم بنائے تو کیا ہمیں اپنی معیشت کو احتجاج کی صورت میں 125ارب روپے کا نقصان پہنچنا چاہیے۔ ترکی میں مسلمانوں کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے ،وہاں پر بھی احتجاج ہوا لیکن کسی نے بینک نہیں لوٹا۔
ان تمام واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ریاستی اداروں کو مفلوج کر دیا جائے۔ احتجاج کے دوران جو کچھ ہوا‘ اس سے یہ تاثر گہرا ہوا ہے کہ مظاہروں کی آڑ میں بعض ایسی تنظیموں کے کارکن بھی شامل ہوگئے جن کا ایجنڈا ہی گھیراﺅ جلاﺅ تھا۔ حکومت کو اس حوالے سے مکمل چھان بین کرنی چاہیے۔ اس تناظر میں ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ دہشت گرد ہمارے اردگرد موجود ہیں اور وہ کسی وقت بھی ہمیں اور ہمارے معاملات کو یرغمال بنا کر اپنی مرضی تھوپ سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایک انتہاءپسند اور غیرذمہ دار مملکت ڈکلیئر کروانا ان دہشت گردوں کا سب سے بڑا ایجنڈا ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ، دفاعی اداروں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں۔ خاص طور پر اجنبی افراد اور ان کی حرکات وسکنات کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اور خبر بھی قارئین سے شیئر کرنا ضروری ہے ۔ یہ خبر کامرہ ایئر بیس میں ہلاک ہونے والے ٹیکسلا کے رہائشی مبیہنہ دہشت گرد فیصل شہزاد کے بینک اکاﺅنٹ سے متعلق ہے جس میں نوکروڑ روپے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق یہ دہشت گرد کامرہ ایئر بیس میں ہلاکت سے قبل پی او ایف واہ کینٹ کے دو خود کش حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھا جس نے دیگر خود کش حملہ آوروں کو دونوں مقامات پر پہنچانے میں معاونت کی۔ دہشت گردی کی کارروائیوں سے قبل فیصل شہزاد پی او ایف واہ کینٹ میں ملازم رہا۔ کافی عرصے سے ملازمت سے بگوڑا تھا اس مبینہ دہشت گرد کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کا معیار زندگی گزشتہ چند ماہ سے نہایت اعلیٰ تھا اور وہ کافی بہتر زندگی گزار رہا تھا جبکہ اس کے دیگر بھائی ایک پسماندہ بازار میں پردہ کلاتھ کی فروخت کاکام کررہے تھے جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ فیصل شہزاد برین واشنگ کی ادویات ایک عطائی ڈاکٹر سے خرید کر استعمال کرتا رہا ہے۔ یہ عطائی ڈاکٹربھی اس اس کے خاص دوستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خبر بھی محب وطن شہریوں کے لئے ایک وارننگ سے کم نہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اگر ان کے معمولات زندگی میں کوئی تبدیلی دیکھیں تو اس کی مکمل چھان بین کریں کیونکہ دہشت گرد بہت شاطر ہیں وہ ہمارے ہی بچوں کی برین واشنگ کرکے ہمارے ہی محلوں اور گلیوں میں ہمارے ہی لوگوں کا خون بہا رہے ہیں۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 70448 views Columnist/Journalist.. View More