برہمن ، گھتری ، ویش اور شودر

”منو“ 600ق م میں اسی سرزمین کا ایک عظیم سپوت اور دانشور تھا۔ منو سے قبل ہندوستان میں فرقہ پرستی کی لعنت عام نہ تھی۔ گو اس وقت IQکا تصور نہ تھا مگر لوگوں کی ذہنی استداد دیکھتے ہوئے ایک دانشور کی حیثیت سے منو نے ایک نیا تصور دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ہر انسان کی تربیت اُس کی ذہنی صلاحیتوں اور رجحانات کو مد نظر رکھ کرکر نی چاہیے اور اُسی کے مطابق اُس سے کام لیا جائے۔ منو کے اس تصور کی رو سے ہر وہ شخص کہ جس میں ذہانت ہو ۔۔۔۔ وہ برہمن ہے یعنی وہ شخص جس میں سوچ ہے۔ عقل ہے اُسے معاشرتی ذمہ داریوں کے قابل بنایا جائے۔ اُسے تعلیم دی جائے تاکہ وہ اپنے ذہنی رحجان کے مطابق معاشرے کے مزید لوگوں کو تعلیم دے اور معاشرے کی قیادت کے قابل ہو سکے۔

شجاعت ہو۔۔۔۔ وہ کھتری ہے یعنی جنگ باز، اس شخص کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ وہ ایک سپاہی اور جانباز کی حیثیت سے اپنے وطن اپنے علاقے یا اپنے قبیلے کا دفاع کر سکے۔

محنت ہو۔۔۔۔ وہ شخص ویش ہے یعنی وہ شخص کاروبار کرنے کے قابل ہے اُس کی تربیت اور نشوونما اُن خطوط پر کی جائے کہ ایک کسان ، صنعتکار یا کسی دوسرے کاروبار سے منسلک ہو کر معاشرے کے معاشرتی مسائل کے حل کی تگ و دو کرے اور اپنے وطن اپنے علاقے یا قبیلے کی معیشت کے لیے ایک مضبوط سہارا بنے۔

خدمت ہو۔۔۔۔ وہ شودر ہے یعنی وہ شخص جس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں قدرے کم ہوں جو جنگ باز بھی نہ ہو۔ وہ صرف اور صرف خدمت کے قابل ہی سمجھا گیا اور شودر کہلایا۔

منو کے بعد چند صدیوں تک ہی یہ تفریق مستقل نہ تھی۔ کوئی بچہ چاہے کسی کھتری کا ہو، ویش کا ہو یا شودر کا۔ اگر وہ ذہین ہے تو اُسے پڑھایا جاتا اور وہ برہمن کہلاتا۔ اسی طرح برہمن کا بیٹا اگر شجاع ہو تا تو کھتری ہو جاتا۔ محنتی ہوتا تو ویش اور اگرنالائق ہوتا تو شودر۔ مگر آہستہ آہستہ یہ تفریق مستقل ہوتی گئی۔ برہمن کا بیٹا برہمن ، کھتری کا بیٹا کھتری ، ویش کا ویش اور شودر کا شودر ہی رہا۔ کسی کی صلاحتیں بھی اُسے اُس کے فرقے سے جدا نہ کر سکیں۔ ہندو مذہب میں انسانوں کی یہ تفریق ہمارے نزدیک انتہائی نفرت انگیز ہے اور کسی بھی رو سے انسانیت کے بنیادی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔ شودر انتہائی پسا ہوا طبقہ ہے اور دوسرے تمام فرقوں کے استحصال کا شکار۔

ہندوﺅں کی اس فرقہ بندی کے بارے میں ہمارا رویہ ، ہمارا تعصب ، ہمارے خیالات اور ہماری نفرت اپنی جگہ مگر ہم ایک دیانتدار نظر اپنے اردگرد ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس میدان میں ہم بھی ہندوﺅں سے کچھ پیچھے نہیں۔ صرف ناموں کا فرق ہے۔ وگرنہ برہمن یہاں بھی ہیں۔ کھتری بھی ہیں ، ویش بھی ہیں اور شودروں کا شمار ہی نہیں کہ قوم کا بہت بڑا حصہ انہی پر مشتمل ہے۔

ہمارے برہمن ایلیٹ کلاس یا اپر کلاس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ یہ ملک اس کلاس کے لیے جنت ہے۔ یہ لوگ یہاں ہر طرح سے آزاد ہیں۔ انصاف اور قانون تک انہیں آسان رسائی ہی حاصل نہیں بلکہ انصاف اور قانون کی حیثیت ان کے لیے موم کی طرح ہے ۔ قانون ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا اور انصاف کا حصول دولت اور اثرو نفوز کے باعث انہیں حاصل کرنا وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق بہت آسان ہے۔ ملک کے وسائل پر انہیں مکمل اختیار ہے اور حکومتی اہلکار ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے اور ان کی مرضی کے غلام ہیں۔

اصل مشکل ہمارے شودروں یعنی لوئر کلاس کو ہے جو انتہائی تکلیف اور کرب میں زندگی گزار رہی ہے۔ قانون اور انصاف کے تمام ضابطے انہی کے لیے ہیں۔ ان کا استحصال بااثر طبقے کا عام مشغلہ ہے۔ شائد یہ لوگ خدمت ہی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ ذلت اور رسوائی ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ یہی لوگ بنتے ہیں۔ قتل و غارت اور ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں جنازے انہی کے گھروں سے اُٹھتے ہیں۔ خود کش حملے ہوں یا ڈرون، موت انہی کی متلاشی ہوتی ہے۔ بدترین لوڈشیڈنگ کا عذاب یہی لوگ جھیلتے ہیں۔ بے روز گاری ، مہنگائی ، کسمپرسی ، بیماری اور بے چارگی ان کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ حکومت اور اہل اقتدار کے لےے ان کا جینا مرنا کیڑے مکوڑوں کے جینے اور مرنے جیسا ہے۔ پولیس ، رینجرز اور دوسرے ذمہ دار ادارے ان کی حفاظت اور بہتری کا سوچتے ہی نہیں کہ اُنہیں اپر کلاس کی حفاظت اور کاسالیسی سے فرصت ہی نہیں۔

ہمارے کھتری اور ویش یعنی مڈل اور لوئر مڈل کلاس جو عام طور پر وائٹ کالر طبقہ کہلاتا ہے بے حس ہو چکی ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس طبقے کو ذہنی طور پر دیوالیہ کیا جا رہا ہے۔ یہ طبقہ معاشی طور پر مہنگائی کی وجہ سے بد حالی کا شکار ہے۔ عام طور پر یہ طبقہ کسی بھی ملک کی سیاسی ، سماجی ،معاشرتی اور معاشی بہتری میں مثبت کردار ادا کرتا ہے مگر اسے اسقدر کمزور اور مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے معاشی مسائل سے باہر نکل کر اس ملک کی فلاح کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔

الیکشن میں اب زیادہ عرصہ نہیں۔ اس ملک کی بقاءکے لئے تبدیلی آنا بہت ضروری ہے۔ روائتی پارٹیوں اور اُن کے آمرانہ ذہن والے سیاسی لیڈروں سے نجات بہت ضروری ہے اور اس کے لئے ہماری مڈل اور لوئر کلاس کو حالات کی نزاکت کو سمجھ کر بہت مثبت کردار ادا کرنا ہو گا۔ اگر اب بھی لوگوں نے ہوش اور عقل سے کام نہ لیا تو اگلے پانچ سال ان نام نہاد برہمنوں کی ذہنی طور پر نالائق اور شودروں سے بد تر اولاد جس میں سوچ ، سمجھ اور فہم و فراست نام کی کوئی چیز نہیںملتی اور جن کا واحد مشغلہ لوٹ مار ہے پھر حکمران ہو گی اور عام آدمی کے حصے میں پچھتاوہ اور موجودہ مسائل اور عذابوں کا ”سٹیٹس کو “ ہو گا جو ہماری زندگی کی بچی کھچی خوشیوں کو بھی لوٹ جائے گا۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 575 Articles with 452507 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More