ہندوستان کہنے کو تو دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہاں سب امن ہے اور نہ ہی
قومی یکجہتی۔ جتنا بڑا ملک اتنے بڑے مسائل لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگ یہ تاثر
دینے کی کوشش میں مسلسل مبتلا رہتے ہیں کہ بھارت میں ایسا کچھ نہیں جبکہ آج
بھی وہاں دو درجن سے زیادہ آزادی کی زندہ تحریکیں موجود ہیں جن سے بھارت کے
200 سے زیادہ اضلاع متاثر ہیں ۔ شدید ترین متاثرہ علاقوں میں سے آسام کی
ریاست بھی شامل ہے اور یہاں اکثر اوقات حکومت اور باغیوں میں جھڑپیں جاری
ہی رہتی ہیں لیکن ہمارے میڈیا کی چونکہ تمام تر توجہ اپنے ملک میں چلنے
والی غیر حقیقی تحریکوں پر رہتی ہے لہٰذا یہ خبریں پاکستانیوں تک پہنچ پاتی
ہے اور نہ ہی باقی دنیا تک۔ ابھی حال ہی میں ان تازہ جھڑپوں میں وہاں 78
افراد مارے گئے آسام میں تین لاکھ لوگ کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں
جبکہ اس کے چار اضلاع میں کسی بھی مشکوک شخص کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کا
حکم ہے۔ تین کروڑ کے اس علاقے میں لوگ انتہائی غریب ہیں جبکہ علاقہ معدنی
ذخائراور چائے کی دولت سے مالا مال ہے لیکن مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس
دولت میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور یہ بھارت کے دیگر علاقوں کی ترقی پر خرچ
ہو رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کی تازہ جھڑ پیں بوڈوز کے ساتھ ہوئیں جو کہ
سالہا سال سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور اسی لیے بدترین سیاسی تشدد
اور ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں اورکیمپوں کو گھر سے بہتر سمجھ رہے ہیں۔
آسام کوئی اکیلا صوبہ نہیں جو علیحد گی کا مطالبہ کر رہا ہے یہی مطالبہ
جھار کنڈ ، نا گالینڈ، سکم، گجرات اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے لوگوں کا ہے۔
یہاں تک کہ خالصتان کی تحریک جسے بظاہر تو 1984 میں کچل دیا گیا تھا اب تک
کسی نہ کسی صورت میں زندہ ہے اور انٹرنیٹ پر اس کا جھنڈا اور مواد اب بھی
موجود ہے یعنی سوچا جائے تو یہ لوگ بھی وقت کے انتظار میں ہیں اور موقع
پاتے ہی یہ تحریک پھر موثر ہو سکتی ہے۔ اس وقت بھارت میں جو تحریکیں بڑے
زور و شور سے چل رہی ہیں ان میں ایک جھارکنڈ بھی ہے اس صوبے میں پچھلے دنوں
560 بارودی سرنگیں پکڑی گئیں ہیں ظاہر ہے اُس کو بچھانے والے دہلی کے دوست
تو نہیں تھے یقینا وہ اُن فوجیوں کے لیے تھیں جو ان صوبوں میں کسی بھی شخص
کو گولی مار دیتے ہیں ۔ بھارتی حکومت نے2006 میں نکسلائٹ تحریک کو بھارت کی
یکجہتی کے لیے سب سے بڑا اندرونی خطرہ قرار دیا جو کم از کم نو صوبوں میں
عملی طور پر بر سر پیکار ہیں جن میں کرناٹک، اڑیسہ، چھتیس گڑھ، آندھراپر
دیش ، مہاراشٹرا، جھار کنڈ، بہار، اتر پر دیش اور مغربی بنگال شامل ہیں
بھارتی حکومت نے 2011 میں دعویٰ کیا کہ یہ تحریک 180 اضلاع سے گھٹ کر80
اضلاع تک محدود ہو گئی اور ان کی کاروائیوں میں بھی پچاس فیصد کمی آئی ہے
جبکہ سنٹرل ریزرو فورس کے چیف وجے کمار نے اپنی ریٹائرمنٹ سے صر ف دو دن
پہلے کہا کہ اِن علاقوں میں مائونواز نکسل باڑی اس لیے طاقتور ہیں کہ یہاں
حکومت کہیں نظر نہیں آتی یہاں کی ایک نسل نے اِنہی نکسلائٹ کو اپنے معاملات
طے کرتے دیکھا ہے اور یہ کہ چھتیس گڑھ کو جیتنے کے لیے انہیں یہاں کے لوگوں
کے دل جیتناہونگے۔ انتیس ستمبر 2012 کا یہ اخبار ی بیان بھارت سرکار کے ان
دعوئوں کی قلعی کھول دیتا ہے کہ وہ اِن صوبوں میں مرکز گریز قوتوں کو قابو
کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جبکہ 1967 میں بے زمین کسانوں میں زمینوں کی
غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف ایک چھوٹے سے گائوں نکسل باڑی میں اٹھ کھڑے ہونے
والے اس چھوٹے سے مائو نواز گروہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے پچیس سال سے
وہ عملاََ اس علاقے میں حکمران اور منتظم ہیں۔
بھارت جو دوسرے ملکوں میں حالات بگاڑنے میں بھر پور دلچسپی لے رہا ہے اگر
اپنے ملک کے حالات بہتر بنانے پر اپنی توانائیاں صرف کرتا تو شاید اس کے
اپنے سمیت پورا علاقہ امن میں رہتا۔ ہاں اس کی خارجہ پالیسی کی داد دینا
پڑتی ہے کہ ابھی تک اقوام متحدہ کا ویسا کوئی کمشن بھارت نہیں پہنچا جیسا
کہ بلوچستان میں تشریف لایاحالانکہ بھارت کے نقشے پر نظر ڈالیں تو یہ لوگ
ایک بہت بڑے علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں اور باوجود حکومتی دعوئوں کے مکمل
طور پر متحرک ہیں اور اپنے مسائل سے اپنے ہی وسائل کے ذریعے لڑرہے ہیں اگر
چہ بھارت کی طرف سے اکثر اوقات یہ غیر منطقی دعویٰ بھی سنائی دے دیتا ہے کہ
انہیں پاکستان، بنگلہ دیش اور چین امداد فراہم کر رہے ہیں لیکن بھارت میں
کچھ سچ بولنے والے یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ اندرونی طور پر پیدا شدہ
اندرونی مسئلہ ہے اور صرف اور صرف وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے ہے
۔صرف چھتیس گڑھ اور جھار کنڈ میں ایک ٹریلین ڈالر کے ثابت شدہ معدنی ذخائر
موجودہیں ۔آسام چاول اور چائے کی وسیع پیداوار کے باوجود بھارت کی مجموعی
معاشی ترقی سے کہیں پیچھے ہے اور محض محدود صنعتیں اسکی مرکزی حکومت کی طرف
سے نظر اندازی کی غماز ہیں ۔ ایک مغربی تجزیہ نگار کے تجزیے کے مطابق غربت
یہاں اپنی آخری حدوں کو چھورہی ہے اور یہی وہ ساری وجوہات ہیں جنہوں نے
بھارت کے اِن صوبوں کے لوگوں کو ہتھیار پکڑا دئیے ہیںاور یہی بندوق بردار
بھارتی ترقی اور جمہوریت کی اصل حقیقت بھی بتا دیتے ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہاں
یہ سب چلتا رہے گا جب تک بھارت خاص کر پاکستان کے خلاف ہتھیاروں اور جنگی
تیاریوں پر لگایا جانے والا پیسہ ان بھوکے ننگے نکسل باڑیوں کے روٹی کپڑے
پر نہیں لگائے گا اوردوسروں کے گھر میں آگ لگانے پر جو دولت خرچ کی جارہی
ہے وہ اپنے لوگوں پر خرچ نہیں کرے گا ۔40.44 بلین امریکی ڈالرز کی خطیر رقم
کا دفاعی بجٹ کسی نکسل باڑی کو نہ تو کھانے کو دے سکتا ہے نہ پہننے کو اور
نہ ہی ممبئی، کلکتہ، آگرہ اور دہلی میں سڑک کنارے رات بسر کرنے والے مزدور
کو۔ لہٰذا یہ طے شدہ امر ہے کہ یہ ہتھیار اٹھتے رہیں گے جب تک کہ اِن لوگوں
کی انسانی ضروریات پوری نہ ہونگی ۔سہولیات پر تو شاید سمجھوتہ ممکن ہو
ضروریات پر نہیں ہوتا۔ |