[۷اپریل2011ءبروزجمعرات مفکر
اسلام خلیفہ مفتی اعظم علامہ قمرالزماں اعظمی رضوی اور مولانا محمد شاکر
علی نوری شب ۱بجے دفتر رضا اکیڈمی (مالیگاؤں)پر تشریف لائے، اس موقع پرمفکر
اسلام نے رضا اکیڈمی کی خدمات کا جائزہ لیا،شہر کے ابھرتے ہوئے قلم کاروں
نیز امام احمد رضا سمینار میں مالیگاؤں سے نمائندگی کرنے والے مقالہ نگاروں
کی حوصلہ افزائی کی۔ آپ کے دست مبارک سے پروفیسر عبدالمجید صدیقی، غلام
مصطفی رضوی، عتیق الرحمن رضوی، وسیم احمد رضوی اور مختار عدیل کی گل پوشی
عمل میں آئی۔ پروفیسر عبدالمجید صدیقی نے اپنے مقالہ ”امام احمد رضا اور
علم معاشیات“ کی بابت بعض احوال گوش گزار کیے، اسی محفل میں مفکر اسلام نے
رضا اکیڈمی کی خدمات کے تناظر میں کام کے کئی نکات ذکرکیے اور رضا اکیڈمی
کی دینی، علمی، تعمیری خدمات کی ستائش کی، آپ نے کام کے اصول و طرق پر بھی
صراحت کے ساتھ روشنی ڈالی۔ مفکر اسلام کا خطاب ایسا ہے کہ اسے عام کیا جائے
اور ہمارے ارباب بصیرت کو چاہیے کہ اس میں جو لائحہ عمل دیا گیا ہے اس پر
عمل کی سبیل نکالیں-ادارہ]
السلام علیکم! آئیے ہم اور آپ درود شریف پڑھ لیں....
مجھے بے پناہ خوشی ہے کہ میں آج رضا اکیڈمی میں حاضر ہوں۔ اس سے پہلے بھی
تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں لیکن تفصیل کے ساتھ اکیڈمی کے کام کو دیکھنے اور
جائزہ لینے کا موقع نہیں ملا۔
یقینی طور پر آج جو چیلنجز ہمارے سامنے ہیں، جو مسائل ہیں اور جو دشواریاں
ہیں اس کے مقابلے میں رضا اکیڈمی نے جو کام کیاہے وہ انتہائی قابلِ قدر ہے،
قابلِ فخر ہے۔ مختلف مراحل میں لٹریچر کے اعتبار سے، تدریسی میدان میں یا
تعمیر کے میدان میں، یہی تین میادین ہیں کہ جن میں دنیا میں کام ہو رہا ہے
اور یہاں سے تینوں میدانوں میں کام کیا گیا ہے۔ کتابیں بھی شایع کی گئیں،
مساجد کی تعمیر کا پروگرام بھی ہے، اور تعلیم کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ خداے
واحدہ قدوس اس کو مزید ترقیوں سے نوازے۔
رضا اکیڈمی اب ایک بہت ہی معروف نام ہے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ
پاکستان میں بھی، انگلستان میں بھی لوگ اس نام سے واقف ہیں اور اسے جانتے
ہیں اور بہت سی جگہوں میں یہاں کی کتابوں کے یا کاموں کے حوالے دیے جاتے
ہیں، پاکستان کی بہت سی تحریروں میں آپ کے کاموں کا حوالہ موجود ہے۔ اس سے
یہ اندازا ہوتا ہے کہ تحریر ایک بہت ہی موثر قوت ہے، پوری دنیا میں اپنے
مشن کو اور پیغام کو پہنچانے کے لیے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ”نوجوان
رائٹرز“ اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں ع
اللہ کرے زورقلم اور زیادہ
خداکرے یہ مزیدکام کریں۔اورحضرت ہمارے بزرگ مصنف اور مدبر (پروفیسر
عبدالمجید صدیقی) جنھوں نے ابھی خطاب فرمایا ”معاشیات“ کے حوالے سے، ان کی
نگرانی میں مزید کام ہوتا رہے۔ بہ ظاہر معاشیات(Economics) کا لفظ ایسا ہے
کہ جس کا تعلق عام طور سے ان لوگوں سے متعلق ہے جو دنیاوی علوم حاصل کرتے
ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں کوئی گوشہ تشنہ نہیں ہے۔ امام اہل
سنت(اعلیٰ حضرت) کی تحریروں میں اور فتاویٰ جات میں تلاش کیا جائے اور
یقینا آپ نے (تلاش) کیا ہوگا تو سیکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے ”علم
معاشیات“ پر روشنی پڑ سکتی ہے اور مسلمانوں کی معیشت کے حوالے سے قوم کو رہ
نمائیاں مل سکتی ہیں۔ امام اہل سنت کا یہ سب سے بڑا عظیم کراماتی سسٹم ہے
کہ کسی بھی موضوع پر آپ ان کی زندگی اور ان کی تحریروں میں تلاش کریں تو آپ
کو مواد میسر آئے گا۔ اور بہت ہی Athentic اور بہت ہی بنیادی اور بہت ہی
دلائل کے ساتھ۔ اس لیے معاشیات کے (موضوع پر)یقینا آپ (پروفیسر صدیقی)نے
دلائل فراہم کیے ہوں گے، اور ہماری نظر سے بھی کچھ مضامین گزرے ہیں ان سے
اندازا ہوتا ہے کہ انھوں نے موجودہ Banking System کو فتاویٰ کی روشنی میں
کسی نہ کسی شکل میں عطا فرمایا یعنی آج کی بینکنگ کا نظام یہ کہ غیر سودی
بینک ہوتی ہیں، جس میں سود کی بنیاد پر کوئی کام نہیں ہوتا، بلکہ جتنے بھی
شیئر ہولڈرز ہوتے ہیں بینک میں ، اکاؤنٹ ہولڈرز ہوتے ہیں ان میں سرمایہ ان
کے اکاؤنٹ کے اعتبار سے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اور بینک کے اخراجات کے لیے
شیئر ہولڈرز کی اپنی استطاعت کے مطابق کوئی فیس مقرر کر دی جاتی ہے جس سے
بینک کے اخراجات نکلتے ہیں اور بینک کا نظام چلتا ہے۔
مضاربت کے قانون کے پیش نظر اعلیٰ حضرت کی تحریروں میں اس کی بہت سی مثالیں
مل جائیں گی کہ بینکوں کو مضاربت کے ضابطوں کے پیش نظر چلایا جائے۔ اور
یقینا آج جہاں جہاں بھی اسلامی بینکاری کا Concept موجود ہے وہ اسی بنیاد
پر ہے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ” التدامن “(Al-tadamon)نام کی ایک تحریک کویت
سے چلی تھی، کویت پہ حملے سے پہلے ۔ اور بعض مغربی ملکوں نے ”تدامن“ کے
حوالے سے بینکاری کا سسٹم شروع کیا تھا، اور میں اس کا ایک رکن تھا مشیر
مذہبی کی حیثیت سے تھا، لیکن اس کے بعد کویت پر حملہ ہو گیا اور سارا
منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس وقت میں نے مطالعہ کیا تھا امام اہل سنت کی
تحریروں کا ”تدامن“ کے حوالے سے، جو بحثیں کی گئیں ہیں اور جو مواد پیش کیے
گئے ہیں، جو جدید بینکاری کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں اور ضابطہ بھی بن سکتے
ہیں۔ اور یقینا آپ نے اس میں اس کا مکمل طور پر خیال رکھا ہوگا، ایسے ہی جو
بھی موضوع ہو اور جو بھی عنوان آپ تلاش کریں امام (اہل سنت) کے فتاویٰ جات
میں کوئی نہ کوئی گوشہ عنوان سے متعلق میسر آئے گا۔ یہ ایک عظیم کام ہے۔
عجیب بات ہے کہ جتنا بھی ان کی زندگی کے بارے میں سوچا جائے! جس نئے گوشے
پہ !! کچھ نئے گوشے خود بہ خود پیدا ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور یقینا
صدیوں تک ان کی حیات پر کام ہوتا رہے گا اور کام کا یہ وسیع دائرہ پھیلتا
رہے گا۔
مجھے خوشی ہے کہ آپ نے کتابیں لکھوائیں، تحریر فرمائیں، حاصل کیں اور لائب
ریریوں میں انھیں بھیجا، اس لیے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ لائب ریریوں میں
ہمارا لٹریچر پہنچایا جائے اور لوگ اسے پڑھیں۔ ایسے ہی آپ (رضا اکیڈمی)نے
شب براءت کے موقع پر بڑی تعداد میں کتابیں نصف قیمت پر تقسیم فرمائیں، ابھی
بھی یہ کام جاری ہے۔
کتابوں کے ذریعے یقینی طور پر ہم ذہن بدل سکتے ہیں، فکر میں تبدیلی ہو سکتی
ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دلائل کی روشنی میں اپنے موقف کو ثابت
کریں اور اپنے مسلک کو ثابت کریں، اور اپنی شرعی حیثیت کو ثابت کریں اور اس
سلسلے میں ہم مفلس نہیں ہیں۔ امام اہل سنت نے صدیوں تک کا سرمایہ ہمیں
فراہم کر دیا ہے، چناں چہ غالباً میں نے اِسی شہر میں کبھی کہا تھا کہ ”اگر
کوئی ایسی شخصیت ہوتی جو اساطیری ہوتی یعنی جس کی شخصیت صرف روایات کے اندر
پنہاں ہوتی، اس سے کوئی کام نہ ہوتاتو اس کو پہچاننا دشوار ہوتا، مگر امام
اہل سنت کو پہچاننے کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ تم میری بات سنو یا اپنے
بزرگوں کی۔ ان کی تحریروں کے ذریعے سے ان کو پہچاننے کی کوشش کرو“ اور جو
بھی اخلاص کے ساتھ ان کی تحریریں پڑھے گا ان کی عظمت کا اعتراف کرنے پر
مجبور ہو گا، اور اگر وہ مکمل طور پر ان کے سامنے سر خمیدہ نہ ہو جائے تو
بھی ا ن کی عظمت کا اعتراف کرے گا۔ اور ایسا دنیا کے بہت سے لوگوں نے کیا
ہے۔
امام اہل سنت پر ہمارے نوجوان ساتھی(غلام مصطفی وغیرہ) جو کام کررہے ہیں یہ
بہت قابل قدر ہے۔اور رضا اکیڈمی نے یقینی طور پر مختصر سی مدت میں اپنی
حیثیت منوا لی ہے۔ اور اپنے نام کو متعارف کرا لیا ہے۔ اور جب کوئی نام
متعارف ہو جاتا ہے تو کام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ان
شاءاللہ آئندہ بھی بہتر کام ہو گا۔ اس سلسلے میں مَیں ہوں یا علامہ شاکر
صاحب ہیں یا دوسرے لوگ جہاں کہیں بھی ہیں جس تعاون کی ضرورت پڑے گی ان
شاءاللہ ہم اس کے لیے حاضر ہیں،کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں، تعمیرات کے
سلسلے میں یا ”لفظوں کا بوجھ“ جو میں تحریکوں میں ڈال دیتا ہوں کے حوالے سے
اگر کہیں کوئی ضرورت پڑے تو میں حاضر ہوں -ان شاءاللہ۔ اور میں ان خدمات کے
لیے تیار ہوں، میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے مجھے حکم
دیا اور میں یہاں حاضر ہوا اور آپ سے ملاقات کر کے مجھے خوشی ہوئی۔ لیکن!
جتنا کام ہوا ہے اس سے کئی ہزار گنا ہمیں کام کرنا ہے، ہم بہت دیر میں
بیدار ہوئے ہیں، بہت دیر میں ہم جاگے ہیں، جب لوگ بہت آگے بڑھ چکے تھے تو
اس کے بعد ہم میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے، ابھی ہم
نیند سے کبھی کبھی اٹھ جاتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں، یہ کیفیت ہمارے اندر
پیدا ہو گئی ہے۔ہمیں پوری قوم کے اندر Awerness پیدا کرنی ہے، بیداری پیدا
کرنی ہے اور ایک نہیں ہزاروں قلم کار پیدا کرنے ہیں، اور ایک بات میں اکثر
کہا کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے اندر جو کام غیروں نے کیا ہے
اگر ہم اس کو الگ کر دیں یا اس خلا کو ہم پُر کر دیں تو بقیہ ۴۱صدیاں صرف
ہماری ہیں، کسی اور کی نہیں۔ حدیث کا میدان ہو، فقہ کا میدان ہو، تفسیر کا
میدان ہو، علم کلام کا میدان ہو، تاریخ کا میدان ہو، کوئی بھی میدان ہو یہ
خلا جو ہے صرف 1857ءکے بعد شروع ہوا ہے، اور اب تک جاری ہے، اس کو اگر ہم
نے پُر کر لیا تو 14صدیاں ہماری ہیں، دوسروں (باطل فرقوں)کے لیے کوئی جاے
پناہ نہیں ہے۔ سارے ماخذ ہمارے ہیں، ساری لائب ریریاں ہماری ہیں، سارے
مصنفین ہمارے ہیں، سارے محدثین ہمارے ہیں،سارے رائٹرز ہمارے ہیں۔1857ءکے
بعد یہ جو ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ تمام اکابر اہل سنت جو
لکھتے تھے، جو ماحول پر غالب تھے، جو بولتے تھے، جن کی تدریسی صلاحیتیں
مسلم تھیں، جن کی درس گاہیں تھیں، اور درس گاہوں کے اپنے اسالیب تھے، وہ سب
کے سب منظر سے ہٹا دئیے گئے، اور اس کے بعد سے ہم مسلسل پس ماندگی کی طرف
مائل ہیں۔ ہم 1857ءسے لے کر اب تک جو دنیا نے تحریریں پیش کی ہیں اس کو
نکال دیں تو تاریخ میں ابن خلدون سے لے کر اور ابن ہشام تک صرف ہم نظر آئیں
گے۔ ایسے ہی حدیث کے میدان میں آج سے لے کر امام بخاری تک یا امام مالک تک
صرف ہم نظر آئیں گے۔ فقہ میں امام اعظم تک ہم ہی نظر آئیں گے، یہ سارے کام
ہمارے ہیں اور ہمیں اپنے کام کا رشتہ جوڑنا ہے۔
ایسے ہی میں نے دیکھا کہ ”تاریخ دعوت و عزیمت“ یقینا آپ نے دیکھی ہو گی!
تاریخ دعوت و عزیمت میں اس ظالم (مصنف) نے یہ کیا کہ ہمارے اپنے عظیم
داعیانِ دین کا تذکرہ کیا ہے، اور بعد میں اس نے سید احمد کو، اسماعیل
دہلوی کو اور اپنے کو جوڑ دیا ہے، اس نے پیوند کاری کی ہے، اس نے ”نامحرم “
افراد کو ”حریم دعوت“ میں شامل کر دیا ہے۔ جو اس میں داخل ہونے کے قابل
نہیں تھے، یہ کام ہمیں پھر کرنا ہے، اس لیے ہمیں ضروری ہے کہ ہم تاریخ دعوت
و عزیمت اس طرح مرتب کریں کہ اس میں امام اہل سنت ہوں، حضرت مفتی اعظم ہند
علیہ الرحمةوالرضوان ہوں، اور دوسری شخصیات ہوں، تا کہ ہمارا رشتہ دعوت و
تبلیغ کا یہاں سے لے کر سرکار دو عالم (ﷺ) تک قائم ہو۔ یہ بھی ایک Topicہے،
جس پہ سوچیے گا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اور آپ کو کامیابیوں سے نوازے۔
رضا اکیڈمی خدا کرے کہ مزید کام کرے۔ یقینا ہمارے پاس وہ وسائل تو نہیں ہیں
جو دوسروں کو پاس ہیں، نہ وہ ذرائع ہیں اور نہ سرمائے کی فراوانی ہے۔ لیکن
ایک بات مسلم ہے کہ اگر حق ہمارے ساتھ ہے تو کامیابی ہمیں ملے گی اور وسائل
سرکار اقدس کے صدقے میں خود بہ خود پیدا ہو جائیں گے۔ السلام علیکم
ورحمةاللہ وبرکاتہ |