قوم کے معماروں کو سلام

ہماری قوم میں دن منانے کی روایت چل نکلی ہے شاید دن منانے کو ہی ہم نے اصل مقصد بنا لیا ہے اوراصل مقصد سے کوسوں دور ہو گئے، گاہے ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے توگاہے باپ کا ،کبھی مزدوروں کا عالمی د ن منایا جاتا ہے تو کبھی پولیو کے خلاف عالمی دن منا کراس دن کے متعلق تقاریب،سیمینارزاور ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ،مختلف فورم پر اس دن کے حوالے سے بات کی جاتی ہے حال ہی میں حکومت پاکستان نے بھی نبی کریم ﷺکی شان اقدس کے خلاف گستاخانہ فلم کے خلاف ”یوم عشق رسول “منایا، یقینا پاکستان میں بسنے والے اسلام پسندوں کے لئے ایک گونہ خوشی کا مقام تھا کہ جہاں لبرل اور سیکولر طاقتیں اس ملک کو سیکولر ریاست بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں وہیں اسلامی اقدار اور روایات کے امین بھی کسی درجے میں موجود ہیں ، ماناکہ چوہدری شجاعت دین کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں گاہے گاہے ان کے بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن کسی کو اے این پی کے حاجی صاحب کے بارے میں یقین نہ تھا کہ وہ واقعی غلام ”احمد‘ ‘ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے گستاخانہ فلم کے ہدایتکار کے قتل پر خطیر انعامی رقم کا اعلان کر کے تہلکہ مچا دیں گے ،باتوں باتوں سے بات نکل پڑی ،بات ہو رہی تھی دن منانے کی تومغرب کی اندھی تقلید میں جہاں ہم نے رسم ورواج کے کئی کارخانے کھول رکھے ہیں انہی میں سے ایک کارخانہ جو بہت چل رہا ہے وہ ہے دن منانے کا کارخانہ گذشتہ دنوں اساتذہ کا عالمی دن منایا گیا جسے ”سلام ٹیچر ڈے“ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے پورے ملک روایتی جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ،”قوم کے معمار کی توقیر ہے لازم“کے بینر آویزاں تھے اور ریلیاں نکالی گئیں ہر ضلع میں سے اساتذہ کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار ز کا انعقاد ہواجس میں استاتذہ کے کردار و عمل پر روشنی ڈالی گئی-

یقینا کسی بھی قوم کی تعمیروترقی میں تعلیم کا کلیدی کردار ہوتا ہے اور تعلیم کی چکی کے دو پاٹوں میں سے ایک پاٹ استاذاور دوسرا پاٹ ٹیچر ہے اگر ان میں سے کسی ایک میں خرابی ہو تو تعلیمی پہیہ جام ہو جاتا ہے ،جہالت کی بنجر زمینیں نفرت کے خارزار اُگانے لگتی ہیں حسب سابق امسال بھی جب پانچ اکتوبر کو عالمی دن منایا جا رہا تھا تو اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر چارسدہ کے ایک کالج میںطلباءنے ایک پروفیسر کی پٹائی کر کے اسے زخمی کر دیا جس پر پختون فیڈریشن اور اسلامی جمیعت طلبہ کے دو گروپ باہم دست بگریباں ہوئے جس کے نتیجے میں کئی زخمی ہوئے ۔کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آج قوم کے معمار کی توقیر نہیں رہی،ایک وہ وقت تھا جب استاذ کے حکم کو حرف آخر سمجھا جاتا اور استاذ کے پیٹھ پیچھے بات نہیں کی جاتی تھی ،معاشرتی بے حسی نے جہاں اور جرائم کو جنم دیا وہیں یہ جرم بھی عام ہوتا جا رہا ہے کہ استاذ کی بے توقیری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ہمیں اپنا سکول کا زمانہ یاد ہے کہ جب استاذ کی کرسی پر بیٹھنے کو بھی سوءادب سمجھا جاتا اور ایک آج کا زمانہ ہے کہ الامان و الحفیظ۔

ایک استاذ کے مقام کو کو ئی کیا جانے استاذ صرف نقوش سکھلانے والا نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہاتھ طالب علم کی نبض پر ہوتا ہے استاذ کا مرتبہ اور مقام کوئی حضرت علیؓ کے اس فرمان عالی شان سے سمجھے”جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوںچاہے تو مجھے آزاد کردے یا بیچ ڈالے “ایک استاذ کی کتنی فضیلت ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺکا صحابہ کرام ؓکی دو مجلسوں پر گزر ہوا جو دو حلقوں میں منقسم تھے ایک حلقہ تعلیم و تعلم کا تھا تو دوسرا ذاکرین کا ۔صاحب نبوت ﷺ نے دونوں کی تعریف فرمائی تاہم تعلیم و تعلم کے حلقے میں جا بیٹھے اور فرمایا ”میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں “ استاذ کا مرتبہ و مقام اگر کسی نے سمھجنا ہو تو وہ امام مالک کے اس عمل کو دیکھے ،جب وہ درس حدیث کے دوران بار بار ایک بچے کی آمد پر کھڑے ہوتے اور بیٹھتے ،شاگردوں کے استفسار پر معلوم ہوا دوران درس حدیث ایک بچہ بار بار آتا جاتا میں اس کے احترام میں کھڑا ہو جاتا تھا کہ وہ میرے استاذ کا بیٹا ہے ۔استاذکی مثال آئینہ کی سی ہے جس میں طلباءاپنا چہرہ دیکھتے ہیں ،آ ج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے عصری اداروں میں موجود قوم کے معمار دشنام طرازی کا بازار گرم کئے رکھتے ہیں، طلباءکے سامنے سگریٹ بیڑی تو معمول ہے ،اس کا اثر معصوم طلباءکے ذہن پر نقش نہیں ہوگا۔۔َ؟

عصر حاضر میں اساتذہ قوم کی کس ڈگر پر راہنمائی کر رہے ہیں یہ ہر کوئی جانتا ہے، اساتذہ اپنی مراعات کے حصول کے لئے ہڑتال کرتے ہیں اس میں حرج کس کا ہوتا ہے ،اداروں میں پڑھنے والے بچوں کا اس میں کیا قصور ہے ؟یقینا اساتذہ کواپنی مشکلات کے حل کے لئے احتجاج کرنا چاہیئے یہ ان کا بنیادی حق ہے تاہم اپنے ”حق “کی وصولی کے لئے بچوں کا حق ضایع کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔۔۔؟حکومت وقت کو چاہیئے کہ وہ اساتذہ کے جا ئز مطالبات پورے کرے کیونکہ ایک استاذ جب ذہنی طور پر مطمئن ہو گا تو وہ طلباءکی صیح تربیت کر سکے گا لیکن اگر استاذ کی معاشی ناﺅ ہچکولے کھا رہی ہو تو تعلیمی منجدھار میں وہ صیح معنوں میں اپنا فریضہ ادا نہیں کر سکے گا ،کبھی کبھار مجھے ارفع کریم رندھاوا کی غیر معمولی ذہانت پر رشک آنے لگتا ہے ،جب اس کے لکھے ہوئے جملوں پر غور کرتا ہوں تو میرا وجود لرز اٹھتا ہے کہ اتنی کم عمری میں اتنی بڑی باتیں اسے کس نے سکھلا رکھی تھیں یقینا اس نے مائیکرو سافٹ پروفیشل بننے کا کم عمری میں ہی اعزاز حاصل کیا ،لیکن پھول کھلنے سے قبل ہی مرجھا گیا، اس کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ملک میں حقیقی علم کی شمع روشن کی ہی نہیں ورنہ پروانے اس پر ضرور آتے ،ہم نے چور ڈاکو کو تو اعزاز دیا ،ہم نے پولیس کو یہ اعزاز دیا بخشا کہ اس کی گاڑی کے آ گے ”police“کی نمبر پلیٹ لگا ئی جسے دیکھ کر ہر کوئی اسے سیلوٹ کرتا ہے ،صحافی کی گاڑی کے آگے ”press“کی پلیٹ لگادی ایسے ہی استاذ کی گاڑی کے آگے ”TEACHER“پلیٹ ہونی چاہیئے تھی جسے دیکھتے ہی پتہ چل جائے کہ یہ استاذ کی گاڑی ہے “۔ آج نہ تو اپنے پیشے سے مخلص استاذ موجود ہیں نہ تعلیم کی تڑپ رکھنے والے شاگرد، تعلیم کا وہ اعلی معیار جس کی بدولت ہم دنیا کے ساتھ مقابلہ کر سکےں تنزل کی طرف گامزن ہے ۔تعلیمی میدان میں سیاسی مداخلت نے مزید الجھاﺅ اور مسائل کے انبار کھڑے کر رکھے ہیں ۔خادم پنجاب نے اس معاملے میں اپنی سی کوشش تو کی ،جس کی بدولت آج پنجاب میں تعلیمی انقلاب برپا ہے، ہونہار طالبعلموں کی حوصلہ افزائی ،ہر سال اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پراچھا نتیجہ دینے والے اساتذہ کی اپ گریڈیشن ، پولیو ویکسین جیسی مہموں میں اضافی خدمات نہ لینااور مراعات میں اضافہ یقینا تعلیمی ترقی کی جانب مستحسن اقدام ہے ۔دیگر وزرائے اعلی کو بھی اپنی توجہ اس طرف مبذول کرنی چاہیئے ۔اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پرتمام اساتذہ نئی امیدوں اور نئے جذبوں کے ساتھ تعلیمی میدانوں میں اتریں اپنے فرائض منصبی میں دقیقہ فر و گذاشت کمی نہ کریں اور نونہالان قوم کی صیح ڈگر پر راہنمائی کریں ۔یقینا یہ نوجوان اس ملک کا سرمایہ اور مستقبل ہیں آ ج اگر اساتذہ اپنے” حقوق “ کی خاطر انہیں قربانی کا بکرہ بنائیں گے تو آنے والے کل میں تعلیم کے چمن میں پھولوں کی بجائے ہر سو جہالت و نفرت کے کانٹے ابھریں گے جن سے دامن بچانا مشکل ہوگا ،آخر میں اساتذہ کرام کے عالمی دن کے موقع پر میں اپنے ان تمام اساتذہ کو سلام پیش کرتا ہوں جن سے مجھ نا چیز کو زندگی کے کسی موڑ پر استفادہ کاموقع ملا۔ جو اساتذہ زندہ ہیں اللہ تعالٰی ان کے علم و عمل میں ترقی عطا فرمائیں اور جو فوت ہو چکے ہیں اللہ تعالٰی ان کے درجات کو بلند فرماتے ہوئے اپنے جوار رحمت میں جگہ نصیب فرمائیں ’آمین‘۔قوم کے معمار وں کو سلام ۔
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 35094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.