شامل مِرا لہو بھی بہارِ چمن میں ہے!

آل مہاراشٹر انٹر کالیجٹ تقریری مقابلے میں اعزازی انعام یافتہ تقریر

کوئی کوئی بہت دل چسپ باب ہے اس میں
کہیں کہیں سے شجاعت کی داستاں سن لو
آزادی انسانی سرشت و فطرت کا لازمہ رہی ہےجب بھی اس حق کو غصب کرنے کی جسارت کی گئی،شمع شبستانِ آزادی کے پروانوں نے اپنے لہو کاہر ہر قطرہ بہا کر شمع آزادی کو فروزاںرکھاسر زمینِ ہند جہاںقدرتی وسائل سے مالامال ہے ہیں حسنِ فطرت اور مناظر قدرت سے گل زار بھی ہےصدیوں تک انگریزاس کشتِ لالہ زار کو للچائی نظروں سے دیکھتا رہاپھر وہ دور بھی آیا جب تجارت کے بہانے انگریز ہندستان آئے اور اپنی سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کر دیے۔

جہاں تک مغلوں کا سوال ہےانہوں نے حکومت و امارت کے ساتھ ساتھ اہلِ ہند کے دلوں پر بھی حکومت کییہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو اپنے اصل رنگ ڈھنگ میں باقی رکھالیکن جب تن کے گورے من کے کالے یہاں کے سفید و سیاہ کے مالک بن بیٹھےتو سارے چمن کو اجاڑ کر رکھ دیاایک شامِ غم نمودار ہوئیاور آزادی کا سہاگ لٹ گیاچشمِ فلک اور اورارضِ ہند نے جور و ستم کا وہ دورِ حزیں بھی دیکھا کہ خون پانی سے ارزاں ہوگیااور ساری خاکِ ہند خاک و خون میں نہا کر سرخ ہو گئی۔
ایک ہنگامہ محشر ہو تو اس کو بھولوں
سیکڑوں جانوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے

خون کی ندیاں بہیں عورتیں بیوہ بچے یتیم اور بوڑھے بے سہارا ہوئےصنفِ نازک کی عزت و عصمت کو پامال کیا گیاظالم حکومت کے خلاف احتجاج کے نتیجے میں بے دریغ قتل و غارت گری مچائی گئیالغرض چمن کی تباہی کا فسانہ ہند کے ماتھے کا کَلنک بن گیاشمع آزادی کے پروانے غلامی کی زنجیریں توڑنے کو مستعد ہو گئےملت اسلامیہ کے جیالوں نے اپنے تن،من اور دھن کی بازی لگادی۔

حضرات!انگریزی قبضہ کے بعد سے آزادی کی صبح تک کی تاریخ میں ہمارے اسلاف کی قربانیاں جگہ جگہ نظر آئیں گی کہیں نواب سراج الدولہ کی جاں فشانیاں ہیں تو کہیں شیرِ میسور کی جواں مردیہند کی آبرو پہ کٹ مرنے کا درس ہمیں ان سے ملتا ہے۔

عزیزانِ گرامی!چراغ سے چراغ جلنے کی روایت قدیم رہی ہے مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں تحریکِ آزادی کے چراغ میں تیل علمائے اسلام نے ڈالاجس سے کئی چراغ روشن ہو گئےاور انقلاب کی ایک نئی تاریخ رقم ہوئی چناچہ حریت کے بطلِ جلیل امام المنطق والحکمت علامہ فضل حق خیرآبادی نے سب سے پہلے انگریزی حکومت کے خلاف ایک فتویٰ جہاد مرتب کیاجہاد کی اہمیت و افادیت اور ضرورت سے لوگوں کو آگاہ کیا اور دہلی کی جامع مسجد میں انگریزی مظالم کے خلاف وہ تاریخی اور ولولہ انگیز خطبہ ارشاد فرمایا کہ جذبات بیدار ہوئےحریت کے نعرے سے پوری فضا گونج اٹھی اورپژمردہ حوصلوں کو مہمیز لگی فتوائے جہاد پر جن علما نے دست خط کیے ان میں صدرالصدور دہلی مفتی صدرالدین آزردہ،مفتی کفایت علی شہیدکافی مرادآبادی،علامہ فیض احمد رسوا بدایونی،مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبرآبادی،مفتی عنایت احمد کاکوروی وغیرہ شامل ہیں۔

حضرات!فتوائے جہاد کی اشاعت کی بعد پورے ہند میں انگریزوں کے خلاف شورش کھڑی ہو گئی مسلمان سر سے کفن باندھ کر نکلےصرف دہلی میں 90 ہزار مجاہدین یک جا ہو گئےاودھ،شاہ جہاں پور،روہیل کھنڈ اور آگرہ ان کے اہم مراکز تھےروہیل کھنڈ کے محاذ پر علامہ رضا علی خاں بریلوی اور جنرل بخت خان تنظیم حریت کے تحت مجاہدین کی قیادت کر رہے تھےتو آگرہ میں مجلسِ علما کے پرچم تلے فاتح نصرانیت مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور دلاور جنگ مولانا احمداللہ شاہ مدراسی مجاہدین کی رہنمائی اور قیادت کر رہے تھےگویا ہند کی بوجھل فضا میں انقلاب کی لہریں مرتعش ہوگئی تھیں۔

حضرات! فکر و نظر کے بواب جب وا ہوتے ہیں تو چشمِ بصیرت یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ کاروانِ آزادی کے قافلہ سالارانقلاب 1857ءکے مجاہدین ہی تھےجن کی حدی خوانی نے کاروانِ آزادی کو تیز گام کیااہلِ ہند کے دلوں میں انقلابِ آزادی کی روح پھونکیلیکن افسوس!صد افسوس!!!
جب پڑا وقت گلستاں پہ لہو ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

گلستانِ ہند کی آب یاری ہمارے اسلاف نے اپنے خون سے کی ہےاس باغ و بہار کی سرزمین پر ہمارے بزرگوں نے اپنے لہو سے تخم ریزی کی ہےآپ ذرا تاریخ کا مطالعہ کریں!انگریزی حکومت کے خلاف ہمارے اسلاف نے کیا کیا قربانیاں پیش کی ہےاستخلاصِ وطن کے لیے کیسی کیسی مصیبتوں کا سامنا کیاکوئی اسیرِ انڈومان ہواکسی نے دار و رسن کو چوماکوئی شوریدہ فضاوں میں اجل سے آہنگ ہواکسی کو قیدِ تنہائی کا کرب جھیلنا پڑاتو کسی کے مال و متاع اور علمی سرماے کو تباہ برباد کردیا گیالیکن!یہ بھی کارخانہ قدرت کا نظام رہا ہے کہ جب بھی شب کا دامن ستاروں کے خون سے سرخ ہوتا ہےتو افق پر صبحِ امید نمودار ہوتی ہےخزاں کے بعد بہار ضرور آتی ہےاور سارا چمن مہک اٹھتا ہے
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

چناںچہ یہ خزاں رسیدہ چمن بھی 1947ءمیں پر بہار ہوگیاصبحِ امید نمودار ہوئینخلِ تمنا بار آور ہوئی اور آزادی کے گیت ہمالہ کی گود سے لے کر کنیا کماری کی وادیوں تک سنے جانے لگے۔

حضرات!آزادی کے بعد بھی ہم نے ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہےایک طرف سائنس و ٹیکنا لوجی کے میدان میں ترقی یافتہ اقوام کے مقابل اپنا لوہا منوایا ہےتو دوسری طرف دفاعی میدان میں اپنی خدمات انجام دیں جب بھی ہند کی سرحد و سیما کے تحفظ کی بات آئی ہم نے اپنے لہو کا ایک ایک قطرہ بہارِ چمن کی خاطر نثار کر کے دشمنوں کے حوصلے اکھاڑ دیےکبھی خان عبدالغفار خان کی شکل میں تو کبھی شہید عبدالحمید کی شکل میں ہم نے اپنی وفا داری کا ثبوت دیاذرا غور کرو!خدا را ذرا غور کرو!خود ہمارے اپنے شہر (مالیگاؤں)کے شہداے آزادی کی قربانیوں کو!مگر آج بھی ان شہیدوں کی یاد گار ان کی عظیم قربانیوں کے مٹتے نقوش پر مرثیہ خواں ہےنوحہ کر رہی ہےآج ضرورت اس بات کی ہےکہ نسلِ نَو کو ہمارے اسلاف کی قربانیوں اور ان کے دینی و علمی اور سماجی کارناموں سے روشناس کرایا جائے تاکہ ان کے ذہن و فکر پر حوصلہ افزاں نقوش مرتب ہوکم تری کا احساس جاتا رہےاور عمل کی ہر گام پر کام یابی کے نئے طور جلوہ بار ہواور نئی تجلیاں نگاہوں کو خیرہ کر سکے۔
تعمیر کی جانب صفتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ گلشن بھی ہمارا
Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 86 Articles with 134880 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.