ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھا ئی ہے

اہل علم و دانش کے قلم خا موش کیو ں ہیں کیو ں گہر ا سکوت طا ری ہے غیو ر مسلم کی خو ا بگا ہو ں میں انہیں بیگنا ہو ں اور مظلو مو ں کا گرتا ہوا خون اور بے چا ر و بے بس تنہا زند گی موت کی و ادی میں سلگتی ، بلکتی اور کپکپا تی دکھا ئی کیو ں نہیں دے رہی ہے ۔ کیا ہم اپنے منصب اپنی ذمہ داریو ں اور اپنی احسا سیت سے محروم نہیں دکھا ئی دے رہے ہیں لمحہ فکریہ ہے یہ ہر مکتبہ فکر کے لیے علما ءو مشا ئخ ، سیاست دانوں ، بیو رو کریٹس ، ڈا کٹرز ، وکلا ئ،تا جر اور صحا فی برادری کےلیے تا ریخ گواہ ہے کہ ایک بیٹی کی آہ پر سرزمین عرب کا ایک 17 برس کا بہا در ، نڈر اور با غیرت نوجوان اٹھتا ہے کفر و شرک کے گر وہو ں میں سکتا طا ری کردیتا ہے ۔ کیا آج کا نام نہا د مسلمان مجا ہد بھی اسی ڈگر پر چلتے ہو ئے وہی آباءکی رمز اپنا ئے ہو ئے اپنے قدم آگے بڑھاتا ہے ۔ ملا لہ یو سفزئی ایک امید کی کرن کا نام ہے ایک روشنی ایک امن کی آشا اور ایک لا زوال خو شی کا نام ہے اور امن و تعلیم کے لیے سرگرم عمل15 سالہ طالبہ خو فزدہ ، فرسودہ اور نا امید سوچ کی مو ت کا نام ہے ۔ وہ لوگ جو مذہب کی آڑ لیکر عورت کی تعلیم و تربیت پر انگلی اٹھا تے ہیں جو عورت کےلیے شعور و آگہی اور پہچان کے ہی خلا ف نہیں بلکہ اللہ ،رسول اور قرآ ن کے بھی خلا ف ہیں ۔ پڑھی لکھی اور سوجھ بو جھ رکھنے والی خواتین کو بے حیا ئی و بے شرمی کا منبع سمجھنے والے کہا ں کے غیرت مند اور اہل ایمان ہیں جبکہ ایک مرد کی تعلیم ایک فرد کی تعلیم اور ایک عورت کی تعلیم پو رے معا شرے کی تعلیم سے تعبیر کی جا تی ہے ۔ مظلوم ، نہتی اور لا چار حوا کی بیٹی کو اپنی شدت پسندی اور انتہاپسندی کا نشانہ بنا نے والے واللہ مسلمان نہیں ہیں جس وادی میں ۸ برس سے خون اور آگ کی ہو لی کھیلی جا رہی ہے جہا ں پر ہنسی بھی مرجھا ئے ہو ئے پھول کی مانند دکھا ئی دیتی ہے جہا ں پر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیر ا چا رسو پھیلا ہوا ہے جہا ں پر امن کا خواب بھی دیکھنا گنا ہ تصور کیا جا تا ہے جہا ں پر اپنے پرائے کے خون کا حساب نہیں رکھا جا تا ہے اس جنگ و جدل اور مو ت کی وادی میں امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کا درس عام کرنے والی اور اپنی فطری آزاد ی اور خو دمختا ری کی خا طر علم جہا د بلند کر نے والی اس صنف نازک کو نشانہ نہیں بنا یا گیا بلکہ پو رے پاکستان کی سا لمیت اور بقاءو سلامتی کو نشانہ بنایا گیا ہے امن اور آشتی کی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس آواز کو بند کر نے کی کوشش کی گئی ہے جو اذان حق کےلیے بر سر پیکا ر ہے ۔ وہ لو گ مسلمان ہو نے کے لائق ہو سکتے ہیں جن کی نظر میں حلا ل حرام کی کوئی پہچان نہیں جنہیں جہاد اور فساد کے فرق کا بھی نہیں پتا جو شریعیت محمدی ﷺ سے ہٹ کر اپنی خود ساختہ شریعیت کو پر موٹ کر نے کے لیے مید ان عمل میں مصروف ہیں پا کستان کا روشن ضمیر اور اسلام پسند معا شرہ ایسے لو گو ں کو کیسے پسند کر سکتا ہے ان کےلیے نرم گو شہ رکھنے والو ں اور دل کے کسی آخری حصہ میں بھی ہمدردی کا پہلو سجا نے والو ں کو اپنی غیرت و حمیت کا ثبوت اب تو کم از کم دینا ہی چا ہیے اب تو ہو ش کے نا خن لینا ہو ں گے اب تو شعور و بیداری کا ثبوت دینا ہو گا یہ لوگ کسی بھی نرمی یا کسی بھی ہمدردی اور پیا ر کے لا ئق نہیں ہیں ان کا مر کز و محور اسلام سے بہت حد درجہ دور ہے اور جو ہما ری عزتو ں اور عصمتو ں کو سرعام نیلا م کرنے اور ہما رے بچے اور بچیو ں کو نشانہ بنا نے میں آڑ محسوس نہیں کرتے ہیں وہ ہر گز مسلمان نہیں ہیں ان لوگو ں کی جتنی بھی مذ مت کی جا ئے کم ہے ان کی جتنی بھی ملا مت کی جا ئے کم ہے ا نکی جتنی بھی تردید کی جا ئے کم ہے ۔ مسلمان تو جنگ کی حالت میں بھی بچو ں اور عورتو ں کو نشانہ نہیں بنا تے اسلام تو رات کے وقت گھو نسلے میں بیٹھے پر ندے کو بھی امان بخشتا ہے اسے بھی ما رنے کی اجا زت ہر گز نہیں دیتا ہے تو پھر کعبتہ اللہ سے مقدس خون بے دام بہا دینا کہا ں کی شریعیت ہے یہ محض فساد ہے من گھڑت سوچ کا تصا دم ہے اور اسلامی احسا س و تخیلا ت سے عا ری عمل کا نتیجہ ہے ۔ ہر محا ذ پہ ایسے افراد کے خلا ف آواز اٹھا نے کی ضرورت ہے جو اسلام میں رہتے ہو ئے بھی اسلام کی بدنامی اور بدنما ئی کا با عث بنتے ہیں جن کا وجود دنیا میں شر پھیلانے کا با عث بن رہا ہے بے خوف و خطر ایسی سوچ کے خلا ف متحد ہو جا ئیں ۔نیست و نابوت کر دیں ایسی سوچو ں کو جو اہل ایمان کو اپنے غیض و غضب کا نشانہ بنا رہے ہیں ان کی نظر میں ہر وہ انسان مجرم ہے جو حق کی خا طر آواز بلند کر نے والا ہے جو ان کی خلا ف شریعیت اورخلا ف فطرت طبعیت پر بات کر نے والا ہے ہر خو ف ہر اندیشہ اور ہر عذر سے بے پرواہ ہو کر ان لوگو ں کی نشاندہی کریں انہیں کسی قسم کی چھوٹ نہ دی جا ئے کیو ں کہ جو رات اللہ رب العزت نے قبر میں لکھ دی ہے اس سے ایک لمحہ بھی آگے پیچھے نہیں ہوا جا سکتا ہے ۔ فرمان با ری تعالیٰ ہے مفہوم لو گو ں کے خوف میں آکر حق گوئی سے نہ رکنا یا د رکھو ! خدا کے سوا نہ تو کوئی موت کو قریب کر سکتا ہے اور نہ کوئی رزق کو دور کر سکتا ہے۔
یہ جان، جان ہے اک دن تو چھو ڑ جا ئے گی
وطن کے نام کریں خود کو سر خرو کرلیں

جو انسان اللہ کی راہ میں چلتا ہے اس کا راستہ اپناتا ہے اس کے لیے خدا ئے بزرگ و برتر آسانیا ں اور کامیابیا ں پیدا فرماتا ہے ۔ آئیں آج رب کی با رگاہ میں یہ عہد کریں کے ملک پا کستان میں اتنگ اور تبا ہی و بربادی کی فصلیں بو نے والے ان نا سوروں کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکیں گے اور اپنے خفیہ اداروں اور سیکیو رٹی فورسز کا بھرپو ر ساتھ دیتے ہو ئے ان فرسودہ سوچوں اور نظریا ت کے مالک افراد کی نشاندہی کریں گے تا کہ انہیں ان کے جرمو ں پر قرار واقعی سزا دی جاسکے ۔ اور بد امنی کا یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا جا ئے ۔ قومی ایوارڈ یا فتہ پیکر ہمت و استقا مت اور امن کی آشاو سفیر ملا لہ یوسفزئی آج ان نام نہا د جہادیو ں کی ظلمت کا نشانہ بنے ہو ئے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ءہے ایسے دہستگرد ، انتہا پسندوں اور شدت پسندو ں کی سرکوبی میں کسی مصلحت کا شکا ر نہیں ہو نا چا ہیے جن کا حقیقی چہرہ اب پو ری قوم کے سامنے آچکا ہے انہیں اپنے بیگانو ں کی کوئی خبر نہیں ہے اب وقت آگیا ہے کہ حکومت وقت اور افواج پا کستان اسلام کے ان نام نہاد ٹھکیداروں کو ان کی پناہ گا ہوں ( save heaven ) میں نشانہ بنائیں تا کہ آئندہ اس قوم کے پھول جیسے بچو ں ، بچیو ں اور بیگنا ہ عوام کو اس ظلمت سے بچایا جا سکے ۔بیرونی قوتو ں کی گود میں پلنے والے یہ دہشت گرد محض اپنے ذاتی مفادات اور ہوس ذر کی جنگ میں مبتلا ءہیں جو ارفع کریم کی طبعی موت کےبعد پاکستانی قوم کی عظیم سپوت سفیر امن ملا لہ یو سفزئی کو بھی ہم سے چھیننا چا ہتے ہیں یہ تو وہ نایا ب ہیرے ہیں جن کہ لیے شا عر مشرق مفکر اسلام عا شق رسول ڈا کٹر محمد علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا
S M IRFAN TAHIR
About the Author: S M IRFAN TAHIR Read More Articles by S M IRFAN TAHIR: 120 Articles with 118763 views Columnist / Journalist
Bureau Chief Monthly Sahara Times
Copenhagen
In charge Special Assignments
Daily Naya Bol Lahore Gujranwala
.. View More