میں اسیّ کی دہائی میں سیدوشریف
کے ایک سکول کی طالبہ تھی صبح اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر سکول جاتی اور
دوپہر میں بلا خوف و خطر واپس آتی پختونوں میں عورتوں کی عزت و احترام کا
جو تصور ہے وہی ہمارا محافظ ہوتا تھا ۔ اپنے سکول سے دوسرے سکولوں میں کھیل
، تقاریر، نعت، قرآت اور ڈریس شوز کے مقابلوں میں جانا ایک معمول کی
کاروائی تھی ۔سکول ہی کی طرف سے سیروتفریح کے لیے جانے میں بھی سیکیورٹی کے
کوئی مسائل آڑے نہیں آتے تھے اور یہ سب کچھ کرتے ہوئے نہ شرعی حدود کو
پارکیا گیا نہ پختون روایات کو ۔ دو تین سال پہلے مجھے اپنے ہی سکول میں
بطور مہمان مقرر جانے کا موقع ملا تو میں نے لڑکیوں میں تعلیم کے لیے وہی
جوش و خروش دیکھا جو کسی بھی دوسری جگہ پر ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ سب کچھ بیان
کرنے کا مقصد سوات کا اصل چہرہ دکھانا تھا ۔سازشوں اور کم علم بلکہ’’ بے
علم عالموں‘‘ نے سوات کے چہرے کو جس طرح بگاڑا اس نے نہ تو وادی سوات کو
کوئی نیک نامی بخشی اور نہ اسلام کو۔ میرے اِن جملوں سے یہ نہ سمجھا جائے
کہ میں کسی نئے روشن خیال اسلام کی داعی ہوں۔ میں تو حضرت محمد öکے لائے
ہوئے دین او ر اصولوں کو روشن خیالی کی سب سے بڑی دلیل سمجھتی ہوں ،جس دین
نے ظلم اور جہالت کی بنیادیں ہلادی تھیں جس نے علم کو مردوں کے لیے مخصوص
اور عورتوں کے لیے ممنوع نہیں کیا بلکہ دونوں پر فرض قرار دیا اورجس نے
متنبہ کیا کہ جب قیامت کے دن زندہ درگور کی جانے والی لڑکی سوال کرے گی کہ
اُسے کس گناہ کی پاداش میں زندہ دفن کیا گیا ۔جہاں حضرت عائشہ(رض) مردوں کے
لیے بھی علم کا سرچشمہ تھیں اورحضرت حفصہ(رض) ان گنے چنے چند لوگوں میں سے
تھیں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ پھر آج خود کو طالبان کہنے والوں نے کس
طرح اللہ کی اِن حدود کو پار کیا۔ ملالہ یوسف زئی خود کو دوپٹے میں ڈھانپ
کر رکھنے والی ایک چھوٹی سی لڑکی کیسے اور کس مذہب کی رو سے واجب القتل
قرار دی گئی کیونکہ اسلام تو کسی ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل
قرار دیتا ہے۔ علم کو تو رب ِکائنات نے ہی شرف انسانیت قرار دیا اور وجہ
سجودملائک بھی ،عبادت گزار معصوم عن الخطائ اور خواہش سے آزاد تو فرشتے تھے
آدم نہیں لیکن مسجود آدم ہو ا فرشتے نہیں ۔ ملالہ ، شازیہ ، کائنات یا کوئی
بھی عورت یا بچی کیا اسی آدم کی اولاد نہیں جسکے علم کی توقیر سجدہ مَلک سے
کروائی گئی اور اس واقعے پر بحیثیت مسلمان ہم سب کا ایمان ہے ۔جس واقعے کو
طالبان نے اپنے اس ظالمانہ فعل کے لیے بطور تو جیہہ پیش کیا یعنی حضرت موسیٰ
(ع) و خضر (ع)کا واقعہ جس میں حضرت خضر (ع)نے بحکم خدا ایک بچے کی جان لی
کہ نیک والدین کی اولاد ہونے کے باوجود اس نے مستقبل میں گمراہ اور بُرا
بننا تھا ،یہ علم تو موسیٰ (ع) کو بھی نہیں تھا تب ہی تو وہ باوجود وعدے کے
اس فعل پر چپ نہ رہ سکے اور بول اٹھے کہ حضرت خضر (ع)نے ایسا کیوں کیا ۔توکیا
طالبان پر بھی نعوذباللہ حضرت خضر (ع)کی طرح کوئی وحی آئی تھی اور ہم عام
لوگ حضرت موسیٰ (ع) کی طرح اس سے بے خبر تھے۔ قرآن کی خود ساختہ تو ضیح کو
اسلام نے حرام قرار دیا ہے تو پھر یہ کیسا علم ہے جو طالبان نے حاصل کیا ہے
اور جس کی بنا پر وہ خود کو عالم کہتے ہیں۔ کیا اسلام نے عورت، بچے اور
بوڑھے کے قتل اورکھیتیوںاور باغوں کو جنگ میں بھی جلانے سے منع نہیں کیا تو
پھر امن میں کیسے معصوم بچیوں کو گناہ گار سمجھا گیا اور کیا گناہ کی سزا
دینا ہر خاص و عام کا کام ہے یا ریاست کا کہ جس کو چاہے یہ ذمہ داری تفویض
کرے۔ کچھ لوگ ملالہ کے کچھ انٹرویوز کا حوالہ دیتے ہیں جس میں اُس نے داڑھی
اور برقعے سے خوف کا اظہار کیاتھا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ دونوں چیزیں سوات
کے معاشرے میں انتہائی قابل احترام سمجھی جاتی ہیں وہاں آپ کو کوئی لڑکی یا
عورت بغیر چادر یا پردے کے نظر نہیں آئے گی مردوں کی اکثریت داڑھی اور ٹوپی
کے ساتھ ہوتی ہے لیکن دکھ تو یہی ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شعائر
اسلام کو لوگوں کی نظروں میں خوفناک بنایا گیا، تو ایک بچی کا خوفزدہ ہونا
کوئی انہونی بات ہے کیونکہ وہ جن حالات سے گزری اسکو وہی جان سکتی ہے ۔
ملالے کے ساتھ ہمدردی کو کچھ لوگ جو خاص رنگ اور وجہ دینے کی کوشش کر رہے
ہیں اس کی منطق سمجھ میں نہیں آرہی۔ اگر یہ واقعہ ملالے کے ساتھ نہیں کسی
بھی بچی کے ساتھ پیش آتااور اسکی پیشانی اور گلے پر پستول رکھ کر گولی ماری
جاتی تو بھی یہ واقعہ اتنا ہی افسوسناک ہوتا جتنا اب ہے۔ اسلام اور پختون
روایات کے بالکل خلاف ملاریڈیو یعنی مولوی فضل اللہ جس نے اس واقعے کی ذمہ
داری قبول کی ہے، ضروری ہے کہ اُس کی دینی اسناد بھی چیک کی جائیں اور
اسلام دشمن اور غیر ملکی قوتوں سے اس کے روابط بھی کیونکہ بحیثیت مسلمان
اور پختون اُسے خود بھی اس طرح کے فعل پر خود کو قابل سزا سمجھنا چاہیے۔
نجانے کتنی ملالہ کتنی شازیہ اور کائنات اور کتنے محمد، احمد اور
عبدالرّحمٰن بغیر کسی جرم کے اس کی دہشت گردی کی نظر ہو چکے ہیں جن معصوموں
کا خون اسلام نے حرام قرار دیا تھا۔ وہ اسلام اور پختونیت کی کسی کتاب میں
سے یہ شق نکال کر دکھائے کہ کسی نے قتل نہ کیا، فساد نہ کیا، ارتداد نہ کیا،
زنانہ کیا تو وہ کس جرم میں واجب القتل ہو گیا۔ اُس سے پو چھا جائے کہ ا س
کی غیرت نے عورت بلکہ بچی پر ہاتھ اٹھانا کیسے گوارا کیا ۔ یہاںلوگوں کا یہ
خیال ضرور قابل توجہ ہے کہ کارندے اگر چہ پاکستانی ہیں لیکن منصوبہ ساز
کوئی اور ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ملالہ اور اس کے ساتھ زخمی ہونے والی بچیوں کو
صحت اور زندگی عطاکرے کہ زندگی اور موت کا مالک وہ ہے کوئی دہشت گرد نہیں
اور اس زمین کے ہر بیٹے اور بیٹی کی حفاظت کرے۔ پاکستان اللہ کے نام پر
بننے والی مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے یہاں اسلام کو اسلام رہنے دیا جائے
طالبان برینڈ، مشرف برینڈ یا کسی اور برینڈ میں نہ ڈھالا جائے۔ قانون کی
حکمرانی، حکمرانوں کا خلوص اور عوام کی ایمانداری اب بھی اس ملک کو اٹھا کر
سربلند کر سکتی ہے یہ وطن محمد مصطفے صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اسلام برتنے
کے لیے بنا تھاجس نے عورت کے لیے مرد کی طرح تعلیم کو فرض قرار دیا تھا اس
کے حصول پر اُسے قابل قتل نہیں گردانا تھا۔ کسی صوفی محمد، فضل اللہ اور
طالبان یا کسی غیر ملکی ایجنڈے کے پنپنے کے لیے نہیں۔ |