ایک طرف اسکول” جیوفل ہرسٹ“
پرقبضہ کی کوشش ناکام تو دوسری طرف پکنک پر نہ جانے والی طالبات کا اسکول
سے نام خارج
کراچی میں سرکاری اسکولز کی تعداد 3609 جن میں سے 2530 پرائمری ہیں۔ اِن
تمام میںسے 40اسکول مکمل بند جبکہ 18 تو ایسے ہیں جو بغیر کسی چھت اور چار
دیواری کے ہیں۔
ایک کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالت زار کی رپورٹیں روزانہ اخبارات کی شہہ
سرخیاں بنی ہوتی ہیں تو دوسری طرف غیروں کے ایجنڈے پر کار فرما این جی
اوزبھی ایسے حالات میںاِن اسکولوں میں مداخلت سے اپنے مذموم مقاد کی تکمیل
کرتی نظر آتی ہیں ۔تعلیم کے بغیر انسان کی زندگی جہالت کے اندھیروں میں
جینے کے سوا کچھ بھی نہیںہوتی ۔ تعلیم ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جہاں سے
انسان علم سیکھ کر اپنے ملک وقوم کو ترقی اور عروج کی منزلوں پر پہنچ سکتا
ہے۔ لیکن یہ ایسی صورت میں ممکن ہے جب انسان کو صحیح اور معیاری تعلیمی
ماحول اور تعلیمی ادارے میّسر آئیں۔ انسان کا پہلا تعلیمی مرحلہ پرائمری
اسکول ہے جو بڑے اور میٹرک کے تعلیمی اداروں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتا ہے اور ان تعلیمی اداروں کی عمارت پرائمری اسکولز جیسے ستونوں پر
قائم ہوتی ہے۔ اگر اِن ستونوں میں ہی مضبوطی نہ ہو اور اِن میں کھوکھلا پن
،بے حیائی اورغیر اسلامی تہذیب و تمدن کی عملی تعلیم دی جانی لگے تو یہ ستو
ن کھوکھلے پن کی وجہ سے اپنا بوجھ بھی نہیں اُٹھا سکتے اور نہ ہی ایسے
تعلیمی اداروں کی عمارت پرکوئی اور عمارت کبھی کھڑی کی جاسکتی ہے ۔ موجودہ
حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ بھی تعلیم ہے۔جو اب سنگین صورتحال اختیار کر چکا
ہے۔
شہر کراچی میں گزشتہ دنوں ایک نجی کمپنی کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے
رپورٹ کے مطابق سرکاری اسکولز کی تعداد 3609 ہے۔ جن میں سے 2530 پرائمری
اسکولز ہیں۔ اِن تمام اسکولوں میںسے 40اسکول مکمل بند ہوچکے ہیں۔ جبکہ 18
اسکولز تو ایسے ہیں جو بغیر کسی چھت اور چار دیواری کے چل رہے ہیں۔ ان
اسکولوں میں طلباءکھلے آسمان اور درختوں کے سائے تلے پڑھنے پر مجبور ہیں۔
ایسے ہی کئی اسکول لیاری، بن قاسم ٹاﺅن سمیت دیگر ٹاﺅنز میںبھی موجود ہیں۔
اِس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ِان سرکاری اسکولوں میں تحقیق شدہ نصاب
تعلیم، معیاری تعلیم کی فراہمی، طلبہ کے ساتھ تشدد اور مار دھاڑ والا
معاملہ، دفتری مسائل کا حل، اساتذہ کی اچھی تنخواہیں اپنی جگہ ایک الگ
موضوع ہیں، مگر بعض اساتذہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی نصاب تعلیم پر کوئی
خاطر خواہ عبور ہی نہیں رکھتے۔
سرکاری اسکولوں کی حالت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ گورنمنٹ اسکولوں پر قبضے
بھی کئے جانے لگے ہیں۔جب کہ اِس سے پہلے تو یہ صورت حال صرف گورنمنٹ اساتذہ
پر اثر انداز ہونے تک ہی محدود تھی ۔سرکاری اسکول پر قبضہ کی تازہ مثال
گذشتہ دنوں بھی دیکھنے میں آئی ۔گزشتہ دنوںگرومندر پرواقع سرکاری ”اسکول
جیوفل ہرسٹ“ پرقبضہ کی کوشش کو اہل محلہ، اساتذہ،طلبہ وطالبات ، والدین اور
محکمہ تعلیم کے افسران کے احتجاج نے بچا لیا۔لینڈمافیا کی جانب سے اسکول کو
گرانے کی کوشش کی جارہی تھی ۔اس احتجاج میں جماعت اسلامی کراچی کے امیرمحمد
حسین محنتی بھی شریک تھے جن کی ذاتی کاوشوں سے یہ قبضہ کی کوشش ناکام ہوئی
۔اگراسکول بلڈنگ کی تعمیر و مرمت کا سلسلہ جاری رکھا جاتا توآج یہ نوبت
نہیں آتی۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکومتی ایوانوں پر تو کروڑوں خرچ کئے جاتے
ہیں مگرایک طرف تعلیمی اداروں کی عمارتیں کھنڈرات کی صورت اختیار کرتی جا
رہی ہیںتو دوسری طرف سرکاری اسکولز میںاین جی اوز کی مداخلت اور کھلی”
فاحشانہ سرگرمیاں“جاری ہیں۔ اگر اس مذکورہ اسکول کو مخدوش قرار دے کر تالہ
لگادیاجاتاتواس سے 1200 طلبہ کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگ جاچکاہوتا۔دوسری
مثال کراچی کورنگی نمبر 11میں واقع گورنمنٹ بوائز پرائمری قسم العلوم اسکول
کی ہے ۔یہ اسکول 1989ءمیں قائم کیاگیاتھا۔20سال تک یہ اسکول جامعہ قاسم
العلوم کی عمارت میں چلتا رہا۔خدمت کی آڑ میں یہ اسکول ایک ”این جی او“کو
دے دیا گیا۔اس این جی او نے گورنمنٹ اسکول ہونے کے باوجودمحکمہ تعلیم کے
تمام قوانین اور اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے من چاہے قواعد وضوابط
طلباءپر نافذ کر دئے۔اس گورنمنٹ اسکول میں ہیڈ ماسٹر کا تقرر نہیں ہونے دیا
جاریااور تمام داخلی و خارجی معاملات اس این جی کا مینیجر ہی ا نجام دے رہا
ہے ۔”نان کوالیفائیڈ “لڑکیاں رات گئے تک اسی اسکول میں قیام کرتی ہیں ۔یہ
لڑکیاں اور مذکورہ این جی اوانہی حرکات کی وجہ سے رابعہ گرلز کالج اور
المددکوچنگ سینٹرسے نکالے جاچکے ہیں ۔ظلم یہ کے اس اسکول کے لڑکے اسکول
ٹائم کے بعد اسی جگہ اسکول کی طالبات کو کراٹے اور بیڈمنٹن سکھاتے ہیں ۔اس
کے علاوہ اس اسکول کے مﺅسس کی بیٹیوں کو صرف اس وجہ سے اسکول سے خارج کر
دیا جاتا ہے کہ وہ مخلوط پارٹی کے ساتھ پکنک مناتے نہیں جاتی ۔آخر ایساکہاں
کا قانون ہے کہ این جی او کے نوجوان لڑکے اسکول کی طالبات کو کراٹے اور
بیڈمنٹن سکھائیں....؟اسکول کی اُن طالبات کوجن کے والد نے یہ اسکول بنایا
تھااُس کی ہی بیٹیوں کو اس وجہ سے اسکول سے خارج کر دیا گیا کہ اُن کے ساتھ
یہ شرعی اصولوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے ان کے ساتھ پکنک پر نہیں گئیں ۔یہ
صرف دو مثالیں ہیں مگر کیا یہ دو ہی اسکولوں میں ہوا ....؟
کراچی کے تعلیمی ماحول نہ ہونے کے برابر ہے۔ کلاس رومز کی حالت انتہائی
خراب ہے۔ دیواروں پر دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ اسکول کی عمارتیں انتہائی خستہ
حالی کا شکار ہیں۔ گذشتہ برسوں کی طرح آج بھی طلبہ کرسیاں نہ ہونے کی
بناءپر نیچے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔فرق صرف اتنا ہے
کبھی ہماری حکومتیں مضبوط نہیں ہوتی تھیں، مگر آج کرپشن نے تعلیمی معیار کا
بیڑا غرق کردیا ہے۔ بیت الخلاءمیّسر نہیں ہیں، اگر ہیں بھی تو نہ ہونے کے
برابر۔ اساتذہ کرام کی پڑھانے میں دلچسپی بالکل نہیں ہے۔جبکہ اعلیٰ
عہدیداران کی سستی کی وجہ سے اساتذہ کی غیر حاضریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ جس
کے تحت سرکاری اسکولز میں طلبہ کی تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔
طلبہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے بل بوتے پر میٹرک کے امتحانات میں پاس تو
ہوجاتے ہیں مگر آگے ان کا مستقبل ان تعلیمی اداروں کی بناپر اس قدر تاریک
ہوچکا ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔جو ہیںبھی ان اسکولز میں چیک اینڈ بیلنس
کا کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا۔آڈٹ کا شعبہ بھی نہیں ہے۔ شاید ان مسائل
کی وجہ سے بہت سے اسکولز طلبہ اور اساتذہ دونوں سے خالی ہیں۔ جن میں کلفٹن،
ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، گلستان جوہر اور کئی دیگر اہم علاقوں کے
اسکولز شامل ہیں۔ ان اسکولز کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔
سرکاری اسکولز کی انہیں وجوہ کی بناءپر پاکستان میں بڑی تعداد میں پرائیوٹ
اسکولز اور اکیڈمیوں کو جنم دیا۔ ان پرائیویٹ اسکولز نے طلبہ کو اچھا ماحول
اور تعلیم تو دینا شروع کی مگر صرف ان کو جو فیس ادا کرنے کے پابند ہوں۔ جن
کے پاس فیس ادا کرنے کی سکت نہیں ہے وہ سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کریں۔
یعنی پاکستان میں تعلیم وہی شخص حاصل کر سکتا ہے، جس کے پاس وسائل ہیں۔
اس کے برعکس دیگر ممالک میں ایسی صورتحال دیکھنے کو نہیں ملتی۔ وہاں یکساں
تعلیمی پالیسی کا نظام موجود ہے۔ جسے ماننے کا ہر خاص وعام پابند ہے۔ مگر
پاکستان میں امیر اور غریب کی تعلیم و تربیت کے بہت بڑے امتیاز نے پاکستان
میں بہت سی برائیوں کو جنم دیا ہے۔ لہٰذا ہماری حکومت اور تعلیمی پالیسی
تشکیل دینے والے اداروں کو اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں
تشکیل دیں جن سے غریب ہو یا امیر بلا کسی تفریق کے تعلیم جیسے زیور سے
آراستہ ہو سکے اور اس مسئلے کے حل کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ جس
کے ذریعے وطن عزیز کے ہر شہر سے پرائیویٹ اسکولز کا خاتمہ بھی ہو سکے اور
تعلیمی نظام مل سکے۔ تعلیم کو سستا اور معیاری بنایا جائے۔سرکاری اسکولز کی
خستہ حال عمارتوں کو مرمت کیا جائے۔اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنایا جائے
اور چیک اینڈ بیلنس پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔تاکہ ان سرکاری اسکولز میں
اپنی تعلیمی پیاس بجھانے والے مستقبل کے یہ معمار پڑھ لکھ کراور اچھے انسان
بن سکیں۔اچھے تعلیمی ماحول میںرہ کر اپنے ملک وقوم کا نام پوری دنیا میں
روشن کرواسکیں۔دنیا میںحکومت اور قانون کا نظام عوام واقوام کے اس لیے رائج
کیا گیا تاکہ عوام کی مشکلات، پریشانیوں اور مسائل کا ازالہ ہوسکے اور
ریاستوں سے لاقانونیت اور افرا تفری کا خاتمہ ہوسکے اور ہر چیز اپنی حدود
میں آجائے۔ پاکستان میں تو معاملات کچھ الگ رہے ہیں۔ ہر پانچ سے دس سال بعد
عوام میں امید کی ایک نئی کرن جاگ اٹھتی ہے کہ اب کوئی ان کی مشکلات و
پریشانیوں کو دور کرنے والا آئے گا جو کہ ایماندار، دیانتدار اور اپنی ذمہ
داریوں کو نبھانے میں مخلص ہوگا۔ لیکن عوام کی امیدوں پر اس وقت پانی پھر
جاتا ہے۔ جب حکومت اپنا اصلی روپ نمودار کرتی ہے اور عوام کے مسائل کا حل
تلاش کرنے کے بجائے مزید اضافہ کردیتی ہے۔اگرسوات میں تعلیمی اداروں کو بند
کروانا دہشت گری ہے تو کراچی میں بھی وہی اصول ہونا چاہیے ۔کراچی میںبھی
تعلیم کی سہولیات بہم پہنچانے کے بجائے اسکولوں کو مخدوش قرار دے کر تالے
لگانا بھی دہشت گردی ہے ۔ کراچی جیسے” جاگتے “شہرمیں کرپٹ اور تعلیم دشمن
عناصرتعلیم جیسے اہم شعبے کو بھی نہیں بخشتے۔ |