ملالہ یوسف زئی پاکستان کی تمام
بچیوں کے لیے رول ماڈل ہے ملالہ با ہمت،نڈر اور جرات مند بچی ہے ملالہ نے
اس وقت شہرت حاصل کی جب طالبان سوات اور اس کے ارد گرد گرلز سکولوں کو
نشانہ بنا رہے تھے اور ان پر بمباری کر رہے تھے لوگوں نے اپنی بچیوں
کوتعلیم دلوانا چھوڑ دیا تھا اورطالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے بچے کھچے
سکولوں میں یونیفارم تک کی پابندی ختم کر دی گئی تھی بچیوں کے سکولوں میں
حاضری نہ ہونے کے برابر ہو گئی لیکن ملالہ نہ تو سفاک طالبان کی دھمکیوں سے
ڈرنے کے لیے تیار تھی اور نہ ہی تعلیم کو ادھورا چھوڑنا چاہتی تھی ملالہ
آنکھوں میں حسین خواب سجائے علم کی روشنی سے منور ہو کر پاکستان کے لیے کچھ
کرنے کا عزم کیے ہوئے تھی اس نے گل مکئی کے نام سے سوات کی ڈائری لکھنا
شروع کر دی جب ملالہ کی لکھی ہوئی ڈائری بی بی سی میں چھپی تو اس نے
سوات،پاکستان اور پوری دنیا میں ہلچل مچا دی اور دنیا کی توجہ اپنی اور
سوات کی جانب مبذول کروائی نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا نے ملالہ کو بھر پور
کو ریج دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی یہ
2011میں انٹرنیشنل چلڈرن ایوراڈ حاصل نہ کر سکی جو 245ممالک میں سے چنی گئی
پانچ بچیوں میں پاکستان سے نامزد کی گئی تھی لیکن بد قسمتی سے جو 2011میں
انٹرنیشنل چلڈرن ایوارڈ حاصل نہ کر سکی اس کے بدلے میں حکومت پاکستان نے 19
دسمبر 2011کو ملالہ کو پاکستان کا پہلا امن ایوارڈ دیا جس کی وجہ سے یہ
بچوں میں بے حد مقبول ہو گئی اور قبائلی علاقوں سمیت پورے پاکستان میں
خصوصاٰ خواتین کے لیے تبدیلی کی علامت بن گئی ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا
پاکستان کی تمام بچیاں ملالہ کی طرح جرات مند اور بہادر ہیں ؟ کیا ہماری
خواتین اور بچیاں گھروں ،سکولوں،کالجوں ،یونیورسٹیوں اور دفاتر میں خود کو
محفوظ سمجھتی ہیں ؟کیا لاہور،کراچی،اسلام آباد،پشاور اور کوئٹہ میں خواتین
گھر کا سودا سلف اور شاپنگ کر سکتی ہیں؟ہمارے ارد گرد کتنی معصوم بچیاں آئے
روز کسی نہ کسی درندگی کا نشانہ بنتی ہیں کتنی ملالاﺅں کو ونی کر دیا جاتا
ہے ہمارے ہر گلی ،محلے اور چوکوں میں ہر آنے جانے والی عورت کو گھورا جاتا
ہے اور ملالہ جیسی کئی بچیاں سیلاب زدہ علاقوں میں بے سرو سامانی کے عالم
میں اپنے عزیزو اقارب کے ساتھ کسی مسیحا کی منتظر ہوں جن کا دکھ اور تکلیف
ناقا بل بیان ہو،سوات ،مالا کنڈ اور دیگرقبائلی علاقوں میں درجنوں ملالہ
یتیم ہو گئی ہوں لاہور ایف آئی اے کی بلڈنگ ہونے والے بم دھماکے میں شہید
ہونے والے اہلکار کی ملالہ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ اب بھی منتظر ہو کے
بابا چوڑیاں کب لائیں گے بابا چوڑیاں کب لائیں گے تو پھر ایک ملالہ کے لیے
ہی نہیں پاکستانی معاشرے بلکہ بیمار معاشرے کی صحتیابی کے لیے دعا کیوں نہ
کی جائے پھر کیوں نہ یہ دعا کی جائے کے پاکستان میں پیدا ہونے والی ہر بچی
ملالہ جیسے عزم کے ساتھ آنکھ کھولے ارفاءکریم جیسا دماغ رکھے بلا جھجک
سکول،کالج،یونیورسٹی اور مدرسوں میں جا کر علم کی روشنی سے منور ہوایسیے
معاشرے کے لیے دعا کی ضرورت ہے جہاں عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے
جہاں اسے اس کے جائز حقوق دیے جائیں جہاں عورتوں کو گھورا ناجا تا ہووہ
آزاد جہاں چاہیں اپنی مرضی سے سفر کر سکیں ،شاپنگ کر سکیں تعلیم حاصل کر
سکیں دفاتر میں کام کر سکیں ےقینا ہمیں ایسی ہی دعا کرنی چاہیے۔ پاکستانی
معاشرے میں ہر عورت کسی نہ کسی شکل میں ملالہ ہے جس میں جینے کی جستجو ہے
لیکن وہ کسی نہ کسی صورت میں بے بس اور لاچار نظر آتی ہے۔بہر کیف ذکر ملالہ
کا تھا تو اللہ عز و جل ملالہ یوسف زئی اور شازیہ کو تندرستی دے۔اور اس کے
موجود دیگر بچیاں جو ابھی تک خوف میں مبتلا ہیں انہیں تعلیم جاری رکھنے کا
حوصلہ دے- |