ڈاکٹر مان اپنى کتاب ” اصول علم
نفسيات “ ميں کہتا ھے : اپني ذات کے دفاع ميں رد عمل کى ايک قسم يہ بھى ھے
کہ سارى برائيوں اور برے خيالات کو دوسروں کے سرتھوپ ديا جائے تاکہ اپنا
نفس جو قلق و اضطراب ميں مبتلا ھے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے - قياس بر نفس
يہ بد ترين قسم ھے اور جب اس قسم کا دفاع اپنے آخرى مرحلہ پر پھنچ جاتا ھے
تو پھر وہ شخص نفسياتي مريض ھو جاتا ھے - اس قسم کا دفاع کبھى کسى جرم کا
نتيجہ ھوتا ھے - مثلا جب ھم کسى جرم کا ارتکاب کرتے ھيں تو ھمارے اندر يہ
احساس جاگ اٹھتا ھے اور ھم اپنے نفس سے دفاع کے لئے اسى قسم کا جرم دوسروں
کے لئے ثابت کرنے لگتے ھيں -
حضور سرور کائنات صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم جب مدينہ منورہ پھنچے تو مدينہ
والوں ميں سے ايک شخص پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کى خدمت ميں
مشرف ھو کر بولا: اے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم !يھاں کے لوگ بہت
اچھے اور بھت نيک ھيں يہ کتني اچھى اور مناسب بات ھے کہ سرکار يھاں قيام
پذير ھوئے ! پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمايا : تم
نے صحيح بات کہى ھے -
تھوڑي ہى دير کے بعد ايک دوسرا شخص ( وہ بھى مدينہ ھى کا تھا ) آيا اور اس
نے کہا : اے خدا کے رسول صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم !يھاں کے لوگ بھت ہى پست
و فرو مايہ ھيں - بڑے افسوس کى بات ھے کہ آپ جيسى عظيم شخصيت ان لوگوں کے
درميان ميں سکونت اختيار کرے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اس سے
بھى فرمايا : تم سچ کہتے ھو !
ايک صحابى بھى وہاں پر تشريف فرماتھے آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم کے
دو متضاد قولوں پر تصديق کرنے سے بھت متعجب ھوئے اور ان سے رھا نہ گيا پوچھ
ھی ليا : حضور صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم آپ نے دونوں کى تصديق کر دى
حالانکہ دونوں کے قول متضاد تھے ؟
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا : ان دونوں نے اپنى اپنى ذات
پر قياس کرتے ھوئے کہا تھا - جس کے اندر جو صفتيں تھيں اس نے اسى کے مطابق
بات کى انھوں نے جيسا تصور کيا ويسا کہا - يعنى ھر ايک کى بات اس کے اعتبار
سے سچ تھى -
البتہ يہ بات ضرور ذھن ميں رکھنى چاھئے کہ جس بد گمانى سے روکا گيا ھے وہ
انحراف فکرى اور برائى کى طرف ميلان نفس اور اس پر اصرار ھے - اور جو چيز
حرام ھے وہ بد گمانى پر اثر مرتب کرنا ھے - ورنہ ھزاروں خيالات جو دل ميں
پيدا ھوتے رھتے ھيں اور قلب سے عبور کرتے ھيں اور ان پر کوئى اثر مرتب نھيں
کيا جاتا کيونکہ وہ سب غير اختياري ھيں اور ان کو روکنا انسان کى طاقت سے
باھر کى چيز ھے لھذا اس کو مورد تکليف نھيں قرار ديا جا سکتا يعني ان سے
ممانعت نھيں کى جا سکتى -
بہرحال چونکہ بد گمانى کرنے والوں کى تلخ زندگى کا سر چشمہ يھى بد گمانى ھے
اس لئے اس بات کى تلاش و جستجو کرنى چاھئے کہ آخر يہ بيمارى کيسے پيدا ھوتى
ھے ؟ اور بيمارى کى تشخيص کے بعد اس کے علاج و معالجہ کى طرف توجہ کرنى
چاھئے!- |