کعبہ اور تاریخ ِ کعبہ (حج قسط۲)

اور اس طر ح
وقت گزرتا چلا گیا۔کعبہ اپنی رحمتیں لوٹاتارہا۔۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی گئی ہے کہ -: ''کعبہ معظمہ زمین کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے بنایا گیا تھا۔جبکہ یہ زمین کا حصہ ہے ،یہ کعبہ پانی پر ایک چٹان کی مانند تھا اس پر دو فرشتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے تھے،جب اللہ عزوجل نے زمین بنانے کا ارادہ فرمایا تو اسی سے اسے پھیلادیاتو اسے زمین کے وسط (یعنی درمیان )میں کردیا۔(تفسیردرمنثور،پارہ 4 سورت آل عمران ،تحت آلایۃ96: )

اللہ عزوجل کے مکرم فرشتے لبیک کی نداکے ساتھ اس مقدس گھر کاطواف کیاکرتے تھے۔حضرت آدم علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو جب خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم ہوا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے زمین کے اس مرکز کی نشان دہی فرمائی ،تواس طرح پہلی مرتبہ کعبہ معظمہ کی بنیاد حضرت آدم صفی اللہ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام نے رکھی، جہاں آج خانہ کعبہ بنفس نفیس موجود ہے ۔(پارہ 1 سورت البقرہ ، آلایۃ127)

پھر جب حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں طوفان آیا تو خانہ کعبہ کے آثارو نقوش بھی باقی نہ رہے ۔

صدیوں کے مراحل طے ہونے کے بعد اسی بنیاد پر دوبارہ تعمیر کی سعادت حضرت ابراہیم خلیل اللہ نبیناوعلیہ الصلوٰۃ السلام اور ان کے شہزادے حضرت اسماعیل ذبح اللہ علیہ السلام کے حصے میں آئی،حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے دست مبارک سے تعمیرفرماتے ۔جبکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے دست مبارک سے پتھر اٹھااٹھاکر اپنے والدمحترم کو دیتے ،اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں ارشادفرمایا-:
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ O
اور جب اٹھاتاتھا ابراہیم اس گھر کی نیویں(بنیادیں )اور اسمٰعیل ۔۔
(پارہ 1 سورت البقرہ ، آلایۃ127۔ترجمہ -: کنزالایمان)

ان ادوار کے بعد بھی تعمیر کعبہ کا سلسلہ جاری رہا چنانچہ : ایک دفعہ قبیلہ عمالقہ اور جرہم نے اسے بنایا پھر دوبارہ قصئی ابن کلاب نے اس کی تعمیر کی ۔جس میں چھت درخت مقل کی لکڑی کی بنائی جس پر تختوں کے بجائے خرمے کی لکڑی ڈالی۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر شریف پچیس برس کی تھی تو پھر قریش کو اس کی تعمیر کرنی پڑی اس کی وجہ یہ ہوئی ۔ سیلاب وغیرہ سے کعبہ کی دیواریں دیواروں کو گزند پہنچا لہذا سرداران قریش نے جمع ہو کر ولید ابن مغیرہ کو امیر تعمیر مقرر کیا اور کعبہ کو منہدم کر کے دوبارہ بنایا۔نیز اول یہ کہ تعمیر ابراہیمی سے چند گز زمین چھوڑ کر اسے حطیم قرار دیا ۔جس میں اب بھی کعبہ کا پرنالہ گرتا ہے۔ نیز بجائے دو کے ایک ہی دروازہ رکھا اور وہ بھی زمین سے اتنا اونچا کہ جسے چاہیں جانے دیں اور جسے چاہیں نہ جانے دیں۔ کہ خانہ کعبہ کے اندر لکڑی کی ستونوں کی دو صفیں بنائیں ہر صف میں تین تین ستون تھے، چوتھے یہ کہ اس کی بلندی دگنی کر دی ۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کعبہ معظمہ دوبارہ بنایا جس کو بنیاد ابراہیمی پر مکمل کیا۔ قریش کے فرقوں کو دور کیا ۔حطیم کوخانہ کعبہ میں داخل کیا اور اس میں زمین سے متصل شرقا غربا دروازے رکھے۔ دیواروں پر نہایت قیمتی ریشمی غلاف چڑھایا، جس کا رواج اب بھی جاری ہے۔کعبہ معظمہ کو سب سے پہلے غلاف پہنانے والے کا نام اسعد ہے جو یمن کا بادشاہ تھا۔ اسی نے مدینہ منورہ کو آباد کیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کے شوق میں اس نے یہیں سکونت اختیار کر لی ،اس کی قوم کے کچھ لوگ بھی یہیں بس گئے۔(ملخصا سیرت ابن ہشام)

ہرمسلمان کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ اپنی آنکھوں کو زیارت کعبہ سے پرنور کرے ۔اپنی دل کی دنیا کو فرحت و شادامانی سے سرفراز کرے ۔وہ آنکھیں کتنی پیاری آنکھیں ہیں جو کعبۃ اللہ کے جلوے لوٹتی ہیں ۔ان بہاروں ،ان روح پرور فضاؤں سے اکتساب فیض کرتی ہیں ۔قابل رشک ہیں ،خوش بخت ہیں وہ مسلمان جو یہ سعادت پاتے ہیں ۔آہ!اشکوں کی جھڑی ،دل مضطرب ،اے اللہ !تو ہمیں بھی اپنے گھر کی باادب حاضری نصیب فرما۔ہمیں بھی اپنے مہمان بندوں میں شمار فرما۔

کعبے کے در کے سامنے مانگی ہے یہ دعافقط
ہاتھوں میں حشر تک رہے دامن مصطفی فقط
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 541790 views i am scholar.serve the humainbeing... View More