اللہ عزوجل !جو بدیع السموات
والارض ہے ،جس کی وحدانیت اور صمدیت کاعَلَم عرش و فرش پر لہررہاہے ۔ دنیا
کے میدان و کوہساروں میں ،لالہ زار اور مرغزاروں میں اس کی بادشاہی کا
چرچاہے ۔
اس نے اپنے گھر کی تعمیر کے لیے جس خطہ کو پسند فرمایاوہ حجاز کی ایک وادی
،غیر ذی زرع تھی ۔اُجاڑ ۔سنسان ،جہاں نہ پانی تھا ،نہ آبادی تھی ۔جہاں ایک
ایساسلسلہ کوہ تھا، جس کی سیاہی مائل پہاڑیاں ۔روئیدگی کی قوت سے یکسر
محروم تھیں ۔جس کی پتھریلی چٹانوں سے پانی کا کوئی چشمہ نہیں اُبلتاتھا ۔اس
خطہ کو اپنے گھر کے لیے متخب فرمایا۔اور جسے ربّ عزوجل اپنی نگاہِ کرم سے
نواز دے، تو وہی خطہ رشک ِ صد فردوس بن گیا۔سارے جہاں کی رونقیں اور زندگی
کی ساری رعنائیاں سمٹ کر یہاں جمع ہوگئیں ۔اس علاقہ کو ایسی بے پایاں
مقناطیسی کشش بخش دی جاتی ہے کہ شرق و غرب میں بسنے والے اربابِ قلوب ِ
سلیمہ کھچے چلے آتے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔
وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ
ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ (پ١٧،سورۃ الحج۔آیت٢٧)
ترجمہ ئ کنزالایمان :اور لوگوں میں حج کی عام ندا کرد ی۔ وہ تیرے پاس حاضر
ہوں گے، پیادہ اور ہر دبلی اونٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہیں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور مدنی چینل کے ناظرین : اس آیت کے تحت تفسیرِ
خزائن العرفان میں منقول ہے : حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابوقبیس پہاڑ پر
چڑھ کر جہان کے لوگوں کو ندا کر دی کہ بیت اللہ کا حج کرو !، جن کے مقدور
میں حج ہے ۔انہوں نے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا
لَبَّیْکَ اَللّہُمَّ لَبَّیْکَ ۔ حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ اس
آیت میں اَذِّنْ کا خِطاب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے چنانچہ
حَجَّۃُ الوداع میں اعلان فرما دیا اور ارشاد کیا کہ اے لوگو! اللہ نے تم
پر حج فرض کیا تو حج کرو !
سبحان اللّٰہ !یعنی اس عظمت و شان والے گھر کا چرچاہوا۔جو چرچاتاقیامت رہے
گا۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اور مدنی چینل کے ناظرین : اس گھر کو کعبۃ اللہ
اور بیت اللہ اور خانہ ئ کعبہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔
آئیے !اس گھر کی فضیلت اور ظہوراسلام سے کے بعد حالات کے بارے میں جانتے
ہیں ۔
بابرکت ،عظمت و شان کا محور ،خانہ خداعزوجل ۔جس پر نظر پڑتے ہی فضل و کرم
کے دریچے واہ ہوجاتے ہیں ۔ان فضأوں ان نظاروں میں رحمت الہی کاچھماچھم نزول
ہوتاہے ۔بختوں کی ویران کھیتی آباد اور خوش بختی کے سبزہ سے لہلہااُٹھتی ہے
۔ظہوراسلام سے قبل بھی کعبۃ اللہ زادھااللّٰہ شرفاوتعظیمامرجع خلائق
تھا۔کفار کے لیے بھی محترم تھاکہ انہوں نے اس میں اپنی عبادت اور عقیدتوں
کا ساماں کررکھاتھا ۔کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے۔ جن کی وہ عبادت کیا کرتے
تھے ۔لات ،منات ،عزی اور وہ انکی تعظیم کیا کرتے تھے ۔اہل عرب نے اپنااپنا
الگ خدابیا نالیاتھا ۔کچھ کعبہ کے اندر کچھ کعبہ کے باہر نصب تھے ۔سب سے
بڑے بت کا نام ہبل تھا ۔ چار سو بت پرستی کی وبا پھیل چکی تھی۔ کعبہ کے ارد
گر تین سو ساٹھ بٹ نصب کردیے گئے تھے ۔یہ بت پرست گمراہی کی دلدل میں اس
قدر دھنس چکتے تھے کہ تاریکیوں نے ان کے دلوں و دماغ کو ظلمت کدہ بنا دیا
تھا۔ انہوں نے اپنی اولادوں کے نام بھی بتوں کے نام پر رکھ دیے ۔جیسے
زیدلات ،یتم لات ،عبد العزٰی وغیرہ۔یہ وہی کعبہ ہے کہ جہاںسرداران کفار آکر
بیٹھاکرتے تھے ۔ بھلا وہ بد بخت ،راہِ ضلالت کے راہی کعبۃ اللہ سے کیونکر
فیضیاب ہوسکتے تھے کہ جس کا کعبہ ہے وہ اسی کی معرفت سے نابلد تھے ۔
جب ابرہہ نے کعبۃ اللہ پر حملہ کیا، تو سرورکونین نانائے حسین ،ہم سب کے
سکھ و چین میٹھے میٹھے مصطفی ؐ کے دادا عبدالمطلب جو اس وقت کعبہ کے متولی
تھے بڑا ہی تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا:'' لوگوں کو فرمایا:ا ے لوگو!تم
اپنی حفاظت کرو۔یہ جس کا گھر ہے وہ اس کی خوداس کی حفاظت فرمائے گا۔''
ابرہہ کے ناپاک عزم کو ربّ تعالیٰ نے پرندوں کے ذریعہ خاک میں ملادیا جس کا
ذکر سورۃ فیل میں موجودہے ۔
یہ عمارت سب عمارتوں سے افضل ،یہ مقام سب مقاموں سے افضل ۔یہ عرفان و معرفت
کا سرچشمہ ہے جیسا کہ :ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ(پ٤،ال عمران ،آیت
٩٧)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کنزالایمان :اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابرا ہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ |