پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ کے سیکریٹری جنرل ‘امین یوسف سے مکالمہ

آزادی صحافت کی جدوجہد کے ثمرات سے عام شہری فیض یاب ہوتا ہے کیونکہ جاننے اور آگاہی کا حق بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے لیکن عوام تک حقائق پہچانے اور جاننے کے حق کی جدوجہد کے لیے قربانیاں دینے والے وہ صحافی ہیں جنہوں نے آزادی صحافت کے مشن کے حصول میں اپنے معاشی تقاضوں کو بھی قربان کردیا۔ حالیہ دنوں میں ریاض ملک جیسے کرداروں کی وجہ سے اگرچہ ایک ورکنگ جرنلسٹ کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی ہے کیونکہ اس سے قبل کبھی بھی اس بڑے پیمانے پر صحافت جیسے مقدس پیشے کی نیلامی کی مثالیں نہیں ملتی تھیں جبکہ بحریہ ٹاﺅن کے ذمہ داروں میں سے ایک ریاض ملک نے بعض صحافیوں کو بے نقاب کرکے اپنے تئیںصحافت کا جنازہ ہی نکال دیا تھا، مگر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس،ورکنگ جرنلسٹس کے دفاع میںفوراً حرکت میں آئی اور اُس نے عامل صحافیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح کیا کہ مختلف اداروں،ایجنسیوں یا سرمایہ داروں کے مراعات یافتہ صحافیوں سے پی ایف یو جے کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ان نام نہاد صحافیوں کو جو مفاد پست عناصر کے پے رول پر کام کرتے ہیں، پی ایف یو جے جرنلسٹ تسلیم کرتی ہے۔ چونکہ اس اسکینڈل کی ذد میں آنے والے بعض اہم نام ”پی اےف یو جے“ کی ممبر شپ رکھتے ہیں اور انہی کالی بھیڑوں کی وجہ سے ایک عامل صحافی یا ورکنگ جرنلسٹ کی عزت نفس مجروح ہوئی جبکہ یہ مراعات یافتہ صحافی وہ ہیں جو پہلے ہی مختلف چینلز پر لاکھوں روپے کے پیکجز وصول کررہے ہیں۔ اس کے برعکس عام صحافی اس دور میں بھی مختلف مسائل کا شکار ہے۔ معمولی تنخواہوں پر انتھک محنت کرنے والے رپورٹرز، مدیران اور دیگر عملے کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتیں۔ جاب سیکورٹی کے علاوہ اُنہیں ہیلتھ، لائف انشورنس یا ہاﺅس رینٹ کی مد میں کوئی الاﺅنس نہیںدیا جارہا۔پی ایف یو جے نے سالہا سال کی جدوجہد کے بعد ساتواں ویج بورڈایوارڈتو نافذ کروادیا ہے لیکن اب بھی کئی اداروں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔ چینلز پر معمولی تنخواہیں پانے والے اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات کے علاوہ جاب سیکورٹی کا بھی مسئلہ درپیش ہے کیونکہ کسی بھی چینل نے اپنے ملازمین کو مستقل نہیں کیا ہے۔دوسری جانب پرنٹ میڈیا کے حالات اس سے بھی زیادہ ابتر ہیں۔ اس حوالے سے پی ایف یو جے کی جدوجہد مثالی ہے جس کے عہدیداران ورکنگ جرنلسٹس کے حقوق دلانے کی جدوجہد میں اخباری اور چینلز مالکان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں لیکن یہ ذمہ داران ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف عامل صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ پی ایف یو جے کے عہدیداران اخباری مالکان کی تنظیموں کی طرح پاور فل بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے بلکہ میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہوکر آتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اُن کا دل اپنے ساتھیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔پی ایف یو جے، کے موجودہ سیکریٹری جنرل امین یوسف بھی ورکنگ جرنلسٹ کی شناخت رکھنے والے ایسے صحافی ہیں جن کی تمام زندگی جدوجہد اور محنت سے عبارت ہے۔
 

image

شان دار تعلیمی، سیاسی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے امین یوسف کی پیدائش 15 جنوری 1961ءکو تلک چاڑی میں ہوئی۔ جامعہ عربیہ گورنمنٹ اسکول سے میٹرک کرنے کے بعدشہرکے تاریخی گورنمنٹ کالج حیدرآبادسے گریجویشن کیا اور بعد ازاں سندھ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹرز کیا۔ والد تجارت سے وابستہ تھے لیکن دس بھائی بہنوں میں امین یوسف واحد تھے جنہیں صحافت کا شوق ہوا اور وہ خاندانی کاروبار میں دلچسپی لینے کی بجائے صحافت جیسے کارِزارسے وابستہ ہوگئے۔ کالج میں لیڈری چمکانے کا خوب موقع ملا جہاں سے بغاوت اور اپنے حق کے لیے لڑنے کا درس لے کر 1987ءمیں باقاعدہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔ ابتداءحیدرآباد سے شائع ہونے والے ایک میگزین سے کی۔ 1988ءمیں انتخاب (حب)، سے وابستہ ہوئے اور پھر مختلف اداروں میں خدمات سرانجام دینے کے بعد 2000ءمیں پی ٹی وی جوائن کیا۔ 2005ءمیں ٹی وی ون،سے کنٹرولر نیوز کی حیثیت سے وابستہ ہوئے اور نیوز ون، کے علاوہ سرائیکی چینل وسیب،کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ سما ٹی وی، سے بھی منسلک رہے۔ امین یوسف کے کریڈٹ پر مشہور زمانہ ڈینئل پرل کیس کی انسائیڈ اسٹوری بھی ہے جو انہوں نے جیل جاکر کور کی۔ تنظیمی پلیٹ فارم سے امین یوسف کی جدوجہد90ءکی دہائی میں شروع ہوئی جب انہوں نے کے یو جے، جوائن کی۔ وہ اس تنظیم کے جوائنٹ سیکریٹری اور سیکریٹری جنرل بھی رہے۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس میں فنانس سیکریٹری کی نشست پر بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے اور ان دنوں سیکریٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ 1996ءمیں پریس کلب کے ممبران کو رہائشی پلاٹس تقسیم کرنے کا کارنامہ بھی انہی کی ٹرم کے دوران وقوع پذیر ہوا جبکہ پی ایف یو جے کے عہدیدار کی حیثیت سے ساتویں ویج بورڈ ایوارڈ کا نفاذ بھی ان کی جدوجہد کا ثمر ہے۔ پی ایف یو جے کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان،کراچی کے جوائنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے فن وثقافت کے شعبے میںبھی ان کی خدمات کا ذکر ضروری ہے، آرٹس کونسل کی تعمیر وترقی کے لیے حکومت سندھ سے حال ہی میں 12کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری، موجودہ انتظامیہ کی ایک بڑی کامیابی ہے جس میں امین یوسف کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

امین یوسف سے کیے گئے اس مکالمے میں جہاں آزادی صحافت کے لیے پی ایف یو جے کی جدوجہد کو موضوع بنایاگیا ہے وہیں حالیہ اسکینڈل اور صحافتی اصولوں پر اُٹھنے والے سوالات بھی زیر بحث آئے۔

٭ ریاض ملک کی جانب سے بعض صحافیوں کی بولی لگائے جانے کے دعوے اور اُن کو کی جانے والی ادائیگیوں کے معاملے نے ورکنگ جرنلسٹ کی عزت نفس کو خاصا مجروح کیا ہے۔ آپ نے ان کالی بھیڑوں کو صحافتی صفوں سے بے دخل کرنے اور میڈیا کا تشخص بحال کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟

﴿ پی ایف یو جے نے پہلے دن سے اس حوالے سے سخت موقف اختیار کیا ہے اور ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کی ہے جوکرپشن میں ملوث ہیں۔ خواہ اُن کا تعلق ہماری اپنی صفوں سے ہی کیوں نہ ہو۔ اس سارے معاملے کی چھان بین کے لیے ہم نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو میری سربراہی میں کام کر رہی ہے۔یہ کمیٹی باریک بینی سے ریاض ملک کے الزامات کا جائزہ لے رہی ہے اور شفاف انداز میں تحقیقات کی جارہی ہیں کہ یہ محض الزامات ہیں یا اس کا حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے۔ دیکھیں کرپشن تو ہرجگہ ہورہی ہے، ہماری فیلڈ میں بھی یقیناً ہے لیکن ہم اسے دوسروں کی طرح نظر انداز نہیں کرسکتے۔ محض چند کالی بھیڑوں کی وجہ سے ہم پوری صحافی برادری کا امیج خراب ہونے نہیں دیں گے اور بہت جلد ان عناصر کو بے نقاب کرکے ناصرف پی ایف یو جے سے بے دخل کیا جائے گا بلکہ دیگر سخت اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ اگر ہم اپنا احتساب نہیں کریں تو پھر دوسرے اداروں کی کرپشن پر سوالات کس طرح اُٹھاسکتے ہیں۔

٭ دیکھا جائے تو صحافی برادری پر اٹھنے والی انگلیوں میں زیادہ تر اینکرپرسن اس کرپشن میں ملوث نظر آتے ہیں جو صحافتی پس منظر نہ رکھنے کے باوجود صحافی کہلوانے پر بضد ہیں اور ان ہی کی وجہ سے میڈیا کا تاثر بھی خراب اُبھر رہا ہے، اس کی زد میں عام ورکنگ جرنلسٹ بھی آجاتا ہے۔

﴿ پہلی بات تو یہ ہے ہمیں ایک عامل صحافی کی تعریف معلوم ہونی چاہئے۔ ایک پروفیشنل جرنلسٹ اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک وہ اس پروفیشن کے تین تقاضے نہ پورے کردے جسے ہم ٹرپل E کہتے ہیں۔یعنی ایجوکیشن،ایکسپیرئنس اور ایتھیکس۔ تعلیم، تجربہ اور صحافتی اخلاقیات یا ضابطوں کی آگہی وشعور کے بغیر آپ صحافی کہلانے کے مستحق نہیں۔ مجبوری یہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح ابھی پاکستان میں صحافت کے حوالے سے اس حد تک پروفیشنل ازم نہیں آیا۔ یہ واحد شعبہ ہے جہاں کوئی بھی اٹھ کر جرنلسٹ بن سکتا ہے۔ دیگر شعبوں میں ایسا نہیں ہے۔ ڈاکٹر بننے کے لیے آپ کو MBBS کی ڈگری لینا ہوتی ہے۔ وکیل بننا ہے تو LLB لازمی ہے جب آپ بار کے ممبر ہوسکتے ہیں لیکن جرنلزم میں نان میٹرک، انٹرپاس سب کے لیے راستہ کھلا ہے۔ اگر کوئی وکیل یا ڈاکٹر اپنے پروفیشن کے اصولوں اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا لائسنس منسوخ کردیا جاتا ہے یا کچھ عرصے کے لیے پابندی لگادی جاتی ہے مگر ہمارے شعبے میں ایسا نہیں ہے۔ گنے چنے جرنلسٹ ہیں جنہوں نے ایم اے ماس کمیونی کیشن کیا ہے۔ زیادہ تر کم پڑھے لکھے ہیں۔ ان کو ضابطہ اخلاق میں لانے کے لیے کوئی سسٹم نہیں ہے۔ حالانکہ صحافت سب سے زیادہ حساس شعبہ ہے جس کا ہاتھ معاشرے کی نبض پر ہوتا ہے۔ آپ نے اینکر پرسنز کا سوال اُٹھایا ہے،میں آپ کی بات سے متفق ہوں کہ ان میں سے بیشتر کا صحافتی بیک گراﺅنڈ نہیں ہے لیکن تمام ایسے نہیں ہیں۔کچھ جینئن صحافی بھی ہیں جن کی بنیاد پرنٹ میڈیا ہے اور کئی سالوں سے وہ فیلڈ میں ہیں۔ یہ لوگ ضابطہ اخلاق کو بھی مانتے ہیں اور صحیح معنوں میں عامل صحافی ہیں جن کا ذریعہ معاش ہی صحافت ہے۔ جہاں تک” اداکار“ صحافیوں کا تعلق ہے تو ان کا معاملہ الگ ہے۔ اگر ایک چینل سے ان کا معاملہ بگڑتا ہے توہ دوسری جگہ چلے جاتے ہیں۔ ان کا احتساب عوام ہی بہتر کرسکتی ہے کیونکہ آج کے دور میں سچ کو چھپانا ممکن نہیں رہا۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافتی تنظیمیں اور ادارے اپنا قبلہ درست کریں اور پرفیشنل ازم کو فروغ دیں۔ ایسے عناصر کو اپنی صفوں میں جگہ نہ دیں جو کہ لفظ ”صحافت” کی حرمت سے بھی آگاہ نہیں ہیں۔
 

image

٭ تو کیا آپ اینکر پرسن کو صحافی مانتے ہیں؟

﴿ میں وضاحت کردوں کی عامل صحافی وہ ہے جس کا دارومدار صحافت پر ہو، کوئی سرکاری ملازم یا آمدنی کا کوئی اور ذریعہ رکھنے والا شخص اگر جرنلزم میں آگیا ہے تو پی ایف یو جے کا آئین اُسے صحافی تسلیم نہیں کرتا۔ بدقسمتی سے ایسے کئی لوگوں نے ہماری ممبر شپ بھی حاصل کرلی تھی کیونکہ یہ ایک ٹریڈ یونین کے طور پر رجسٹرڈ تنظیم ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان عناصر کو نکال باہر کریں۔دراصل یہی لوگ صحافت اور صحافی کی حرمت کو داغ دار اور بدنام کرتے ہیں۔ اداروں میں پرفیشنل ازم کو فروغ دینے کے لیے ہم نے صحافیوں کی تربیت کا بھی اہتمام کیا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد یہ ہونے والا ہے کہ صرف پی ایف یو جے کا ممبر ہی کسی اخبار یا چینل پر ملازمت کا اہل ہوگا۔ اینکر پرسن کے کردار پر ابہام ہے، ہم سب کو اداکار کہہ کر مسترد نہیں کرسکتے۔ کچھ اہل لوگ بھی ہیں، اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے برسوں محنت اور ریاضت کی ہے لیکن زیادہ تر ایسے ہیں جو راتوں رات اٹھ کر اینکر بن گئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انفوٹین منٹ یا انٹرٹین منٹ کا شو کنڈیکٹ کرنے والا شخص اینکر تو ہوسکتا ہے، صحافی نہیں کہلاتا اور یہ جتنے بھی پروگرامز چل رہے ہیں، انفوٹین منٹ کے زمرے میں آتے ہیں۔ کرنٹ افیئرز کے شوز کابھی جرنلزم سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ان میں وہ تحقیق شامل نہیں ہوتی جوکہ ایک خبر کی کھوج کے لیے صحافی کرتا ہے۔ مجھے 25 سال ہوگئے صحافت میں، اب تک سیکھ رہا ہوں۔ کبھی اپنے نام کے ساتھ سینئر جرنلسٹ نہیں لگایا۔ یہاں تو یہ صورت حال ہے کہ عمر کے تناسب سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کون کتنا سینئر ہے، چاہے اس شخص نے ساری زندگی کوئی تیر نہ مارا ہو مگر سینئر صحافی کہلوانے کا اپنا نشہ ہے۔ ہم سب کو مل کر صحافت کا تشخص بہتر کرنا ہوگا کیونکہ مجموعی طور پر ابتر صورت حال ہے۔اینکر پرسنز جن کی صلاحیت ایئرکنڈیشنڈ کمروں تک محدود ہے، چینلز پر لاکھوں روپے کے پیکجز لے رہے ہیں مگر ایک رپورٹر جس کی کل تنخواہ چند ہزار روپے ہوتی ہے، اُسے قت پر تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ ہم اس استحصال کے خلاف کام کررہے ہیں اور بہت جلد اس استحصال کا خاتمہ ہوگا۔

٭ آپ نے آزادی اظہار کی جدوجہد میں آمرانہ دور بھی دیکھا اور جمہوری حکومت کا رویہ بھی.... کیا یہ حقیقت نہیں کہ مشرف جیسے آمر کے دور میں میڈیا نے ترقی کی مگر جمہوری حکومتوں نے میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ مختلف حربے اور ہتھکنڈے آزمائے؟

﴿ آپ کی بات درست ہے کہ مشرف دور حکومت پاکستان میں میڈیا کی ترقی کے حوالے سے سنہرا دور تھا جب پرائیویٹ چینلز کو کام کرنے کی اجازت ملی لیکن اس دور میں بھی میڈیا پوری طرح آزاد نہیں تھا۔ ہمارے کئی ساتھی گرفتار کیے گئے جنہیں ہم نے احتجاج کے ذریعے اور دھرنا دے کر آزاد کرایا۔ دیکھیں آمر کوئی بھی ہو، خواہ وہ ایوب، ضیاءاور مشرف کی طرح وردی پہن کر آئے یا سول ڈکٹیٹر کے روپ میں جمہوریت کالبادہ اوڑھ کر آئے، ہم میڈیا کی آزادی اور اپنے حقوق کی جدوجہدسے دست بردار نہیں ہوں گے۔ اس جمہوری دور میں بھی پاکستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک ہے جہاں کئی صحافی صرف اس پاداش میں شہید کردئےے گئے کہ وہ حق اور سچ کی آواز بلند کرتے تھے۔ ہمارے ساتھی آئے روز پر تشدد کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں، اس کے باوجود ہم کسی دباﺅ میں آنے والے نہیں ہیں۔ ضیاءکے دور میں صحافیوں نے سب سے زیادہ مظالم سہے مگر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور نہ اپنے حقوق سے دست بردار ہوئے۔اس دور میں صحافیوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنا یا گیا۔ ہمارے چارساتھیوںخاور نعیم ہاشمی،اقبال جعفری،مسعود اللہ اورناصر زیدی کو کوڑوں کی سزا ئیں ہوئیں کیونکہ انہوں نے ایک آمر کے سامنے کلمہ حق کہا مگر اس کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں نے بھی کچھ کم زیادتیاں نہیں کیں۔ پی پی پی،ہو یا مسلم لیگ، سب نے میڈیا کو اپنے زیر اثر کرنے کی کوششیں کیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں کراچی کے 6 اخبارات پر پابندی لگی۔ نواز شریف کے دور میں ایک بڑے اخباری گروپ کو نشانہ بنایا گیا، ان پر کیسز بنائے گئے۔ موجودہ حکومت نے بھی پیمرا کی آڑ میں چینلز کو ڈرایا دھمکایااور میڈیا پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے مشرف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں چینلز کھلے جن کی وجہ سے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار میسر آیا، وہ شخص روایتی آمر نہیں تھا۔
 

image

٭ ہم اکثر آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں۔ کیا آزادی صحافت یہ ہے کہ آپ جس کی چاہیں پگڑی اچھالیں، جس کے گریبان میں چاہیں ہاتھ ڈال دیں جیسا کہ آج کل مختلف چینلز کے پروگراموں میں نظر آتا ہے۔ کیا اس کی کوئی اخلاقی حد یا ضابطہ اخلاق موجود ہے۔ اور اگر ہے تو اس پر چینلز عملدرآمد کیوں نہیں کرتے؟

﴿ اس حوالے سے ہتک عزت کا قانون موجود ہے، آزاد عدلیہ ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ یقیناً عدالت سے رجوع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ دیکھیں ضابطہ اخلاق تو موجود ہے لیکن بدقسمتی سے نان پرفیشنل لوگوں کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور میڈیا کے خلاف ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ جیسے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم نے آزادی صحافت کے لیے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور اس پر کوئی پابندی برداشت نہیں کریں گے لیکن جہاں عام آدمی کے حقوق کی بات آتی ہے تو اس کا احترام بھی لازمی ہے۔ پی ایف یو جے نے اس حوالے سے ایک 13 نکاتی ضابطہ اخلاق کی منظوری 1950ءمیں ہی دے دی تھی۔حال ہی میں پی ایف یو جے ،نے اس حوالے سے ایک ریزیولوشن بھی منظور کی ہے جس میں چینلز اور اخبارات کو زرد صحافت سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔لوگوں کی شکایا ت سننے کے لیے پریس کونسل بھی موجود ہے جس میں اخباری مالکان اور کارکن تنظیموں کے نمائندے موجود ہےں لیکن یہ پرنٹ میڈیا تک محدود ہے۔ اگر کسی کو شکایت ہے تو وہ پریس کونسل میں اپنی شکایت رجسٹرڈ کراسکتا ہے۔ جہاں تک الیکٹرانک میڈیا کے ضابطہ اخلاق کا سوال ہے تو اس حوالے سے لوگوں کی شکایات درست ہیں، جب کوئی بھی نان پروفیشنل بندہ اٹھ کر رپورٹر یا کیمرہ مین بن جائے گا جس کی بنیادی تربیت ہی نہیں ہوئی تو وہ کہاں سے اخلاقیات کا درس سیکھے گا۔ اخبارات میں تو یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی شخص اس فیلڈ میں قدم رکھتا تھا تو ٹرینی رپورٹر سے آغاز کرتا، پھر مختلف مراحل سے گزرکر سب ایڈیٹر، سٹی ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور پھر کہیں ایڈیٹر کے درجے تک پہنچتا تھا۔ آج کل تو معاملہ ہی اُلٹ ہے۔ کسی صحافی یا رپورٹر کو نیشنل انٹرسٹ کی پرواہ تک نہیں۔کیمرے کے سامنے جو چاہے بول دیتا ہے۔ ریٹنگ کے نام پر ایسے ایسے پروگرامز آن ایئر ہیں کہ شام کے اخبارات کا گمان ہوتا ہے جن میں ریپ، جرائم اور قتل وغارت کی خبروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔اب تو انڈین چینلز کی طرز پر ایسے چینلزبھی آ گئے ہیں جوسب کچھ دکھا رہے ہیں۔ مغرب میں اسے گٹر پریس کی اصطلاح کی طور پر لیا جاتا ہے۔ یہ آزادی ¿ صحافت کے مترادف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکٹرانک میڈیا پر جو کچھ دکھایا جارہا ہے، یہ صحافت نہیں بلکہ ایک بھیانک اور بھونڈا مذاق ہے۔ اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے چینلز خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

٭ پی ایف یو جے کی کوششوں سے ساتواں ویج بورڈ ایوارڈ نافذ العمل ہوچکا ہے لیکن کیا تمام اداروں نے اسے قبول کرلیا ہے؟کیا چھوٹے اخبارات یا ادارے اپنے ملازمین کو ویج بورڈ کے مطابق ادائیگیاں کرنے کے قابل ہیں؟

﴿ نیوزپیپرزایمپلائز کنفیڈریشن ایکٹ کے تحت حکومت پابند ہوتی ہے کہ وہ اخباری ملازمین کو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق ان کا حق دلائے۔ اس کے تحت ہر پانچ سال بعدایک بورڈ بنایا جاتا ہے جس میں صحافتی تنظیموں کے نمائندے اور اخباری مالکان مل کر کارکنوں کی تنخواہوں کا اسکیل طے کرتے ہیں، جب اس سارے عمل میں مالک اور ملازم شریک ہوتا ہے تو پھر اس پر عملدرآمد میں رکاوٹ کیوں؟ ہم نے بڑی جدوجہد کے بعد اخباری ملازمین کو ساتویں ویج ایوارڈ کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کیا اور لگ بھگ تمام بڑے اداروں میں یہ نافذ ہوچکا ہے، چند ادارے ایسے ہیں جو اسے نافذ کرتے ہوئے ہچکچارہے ہیں لیکن بالآخر ان کو بھی اس پر عملدرآمد کرنا ہے کیونکہ آج اگر وہ اپنے ملازمین کو جائز حق اور مراعات نہیں دیتے تو کبھی بھی بڑے اداروں میں تبدیل نہیں ہوسکتے، یہ کارکن ہی ہوتے ہیں جو کسی چھوٹے ادارے یا اخبار کو بڑا بناتے ہیں، جہاں تک چھوٹے اخبارات کے وسائل اور مشکلات کا معاملہ ہے تو میں ان مالکان سے سوال کرتا ہوں کہ اگر وہ اپنے بجٹ میں پیپر، پرنٹنگ اور دیگر اخراجات شامل کرتے ہیں تو اپنے کارکنوں کی تنخواہیں وقت پر اور مقررہ اسکیل کے مطابق ادا کرنے میں کیا حرج ہے۔ اگر وہ ویج ایوارڈ کے مطابق ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہیں تو اپنا اخبار بند کردیں۔ پی ایف یو جے نے اس حوالے سے سخت مو ¿قف اپنایا ہے اور اب آٹھویں ویج ایوارڈ کی تیاری ہورہی ہے۔ بدقسمتی سے اخباری مالکان اس حوالے سے قانون کی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں جبکہ حکومت سے اشتہارات کی مد میں اربوں روپے کافائدہ بٹور لیتے ہیں۔آپ نے چھوٹے اخبار وںکی مثال دی۔ اے پی این ایس، اور سی پی این ای، جیسی تنظیمیں جن پر بڑے گروپوں کی اجارہ داری ہے، وہاں بھی چھوٹے اخبارات کو کوئی نہیں پوچھتا۔یہ لوگ صرف ووٹ دینے کے لیے ہوتے ہیں۔ APNS میں ان کی کوئی آواز نہیں ہے۔ اگر چھوٹے اخبارات ویج بورڈ پر عملدرآمد کریں تو پی ایف یو جے، اُن کے حقوق کے لیے لڑے گی۔ بڑے اخبارات سرکاری اشتہارات کا کوٹہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں مگر چھوٹے اداروں کے حصے میں کیا آتا ہے؟ حال ہی میں حکومت نے APNS کے لیے 30 کروڑ کے فنڈز جاری کیے ہیں، اس سے جن اداروں نے فائدہ اٹھایا ہے ان کی لسٹ ہمارے پاس موجود ہے۔ ایک بھی چھوٹا اخبار نہیں ہے اس فہرست میں۔ ہم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آئندہ صرف اُن اخبارات کو سرکاری اشتہارات جاری کیے جائیں جہاں ویج بورڈ پر عملدرآمد ہورہا ہے ورنہ اُن کے اشتہارات کی ادائیگیاں روک دی جائیں۔ یہی صورت حال تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے کمیٹی بنائی ہے جس نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ سرکاری اشتہارات کو ویج بورڈ اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی سے مشروط کردیا جائے۔ کئی اخبارات اور چینلز پر ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ کارکنوں کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی نہ ہونا ہے ،اس حوالے سے ITNE (امپلی منٹیشن ٹریبیو نل فار نیوز پیپرز ایمپلائز)میں کئی مقدمات زیر سماعت ہے۔ اس ٹریبیونل نے مالکان پر واضح کردیا ہے کہ اخباری کارکنوں کو ان کا حق دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔پی ایف یو جے، نے ایک ریزیولوشن بھی منظور کی ہے جس میں وفاقی حکومت اوروزارت اطلاعات سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ نیوزپیپرزایمپلائز کنفیڈریشن ایکٹ کی دفعہ12کے تحت اجرت بورڈایوارڈ کے نفاذکے لئے چاروں صوبوں میں فوری طورپرممبران تعینات کرے۔مزیدبرآں آئی ٹی این ای میں کم ازکم پانچ انسپکٹرزتعینات کیے جائیں جواُجرت بورڈ ایوارڈکے نفاذ کے لیے اخبارات کے دفاترکی انسپیکشن کریں،اخباری کارکنوں کے حالات کار،تنخواہوں اوردیگرالاﺅنسز کے بارے میں زمینی حقائق اکٹھے کریںاورجوادارے اُجرت بورڈایوارڈپرعملدرآمدنہیں کررہے ان کی پراسیکیوشن کے لیے آئی ٹی این ای کے چیئرمین اورمتعلقہ ممبران کی عدالتوں میں باقاعدہ مقدمات دائرکریں جوکہ ایک قانونی اورآئینی تقاضا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے لیے بھی ہم قانون سازی کی کوششیں کررہے ہیں لیکن اس شعبے میں سو فیصد ملازمین کانٹریکٹ بنیادوں پر بھرتی کیے جارہے ہیں لہٰذا فی الحال ان پر ویج بورڈ لاگو نہیں ہوتا۔ ہماری اصل کوشش تو یہی ہوگی کہ ملازمین کو مستقل کیے جانے کے حوالے سے کوئی سسٹم متعارف کرائیں جس کے بعد ان کے پے اسکیل کا معاملہ طے کیا جائے۔ نیوز چینلز پر ابھی تک باقاعدہ سروس اسٹرکچر ہی متعارف نہیں کرایا گیا۔ پرچی سسٹم زوروں پر ہے۔ آپ کے پاس مضبوط پرچی ہے تو آپ کو جاب مل جائے گی اور کسی دوسرے کی چھٹی ہوجائے گی۔ یہ چیز ہمارے مد نظر ہے اور جلد ہی اس حوالے سے پی ایف یو جے اقدامات کرے گی۔حال ہی میں ہماری کوششوں سے قومی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈپریس آف پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے 400سے زائد کارکنوں کوجوکہ کانٹریکٹ اوریومیہ اجرت پرکام رہے تھے کوریگولر کیا جا چکا ہے جو کہ خوش آئند ہے۔

٭ آپ نے کے یو جے اور پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے صحافی کارکنوں کے حقوق دلانے کی طویل جدوجہد میں حصہ لیا، اس حوالے سے آپ کے براہ راست حریف اخباری اور چینل مالکان ہیں۔ اس جدوجہد کا آپ کے پروفیشنل کیریئر پر کتنا اثر پڑا، مالکان تو آپ کوسخت ناپسند کرتے ہوں گے؟

﴿ میرا خیال نہیں کہ اپنا حق مانگنا یا اس کے لیے جدوجہد کرنا قابل نفرت کام ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مجھے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور کئی مالکان مجھے اچھا نہیں سمجھتے ہوں گے لیکن میں ذاتی مفادات کی خاطر ہزاروں کارکنوں کی اُمیدوں اور توقعات کو نہیں توڑ سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک آدمی کی قربانی سے ہزاروں لوگوں کا بھلا ہوتا ہے تو ٹھیک ہے، یہ سودا مہنگا نہیں ہے اور میں تو شروع سے ہی اس باغی سوچ والا بندہ ہوں۔ مجھے کبھی ذاتی مفادات کی پرواہ نہیں رہی۔ میرا ضمیر مطمئن ہے۔ جہاں تک مالکان کی آنکھوں میں کھٹکنے کاسوال ہے تو پی ایف یو جے یا دیگر یونینز کا مقصد اخباری مالکان کو بلیک میل کرنا ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو آجر اور اجیر کے درمیان باہمی رابطے اور یک جہتی کا ذریعہ ہیں۔ ہم تو اپنے اداروں کے مالکان کے حقوق کی جنگ بھی لڑنے کو تیار ہیں۔ ہم سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ آزادی اظہار کی جدوجہد میں ہم نے مالکان کا ساتھ دیا جب کبھی حکومتوں نے اداروں کو براہ راست نشانہ بنایا، یہ کارکن ہی تھے جو سراپا احتجاج بن کر اپنے اداروں کو بچانے کے لیے آگے آئے لہٰذا یہ کہنا غلط ہوگا کہ ہمارے درمیان کوئی خلیج حائل ہے۔ ہم سب ایک ہیں اور اسی جذبے کے ساتھ آزادی صحافت کی جدوجہد میں ہمیشہ شانہ بشانہ رہیں گے۔
UMAR KHITAB KHAN
About the Author: UMAR KHITAB KHAN Read More Articles by UMAR KHITAB KHAN: 10 Articles with 20236 views Secretary General:Karachi Film & TV Journalists Welfare Association.
Executive Editor: Monthly Metro Live
Published from Karachi.
Ex Member:Central
.. View More