ہمار ے معاشرے کے اندر دیگر بہت
سارے رواجوں کی طرح بھتہ خوری کا ناسور بھی ایک مستقل رواج کی حیثیت اختیار
کر چکا ہے پاکستان کے کچھ ایسے علاقے اور شہر بھی ہیں جہاں بھتہ خوری کے
رواج کی پاسداری نہ کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے فیصل
آباد،ملتان اور بالخصوص کراچی تو بھتہ خوری کی لعنت میں سرتک ڈوبا ہوا ہے
اور حالت یہ ہے کہ کراچی اور بھتہ خوری دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم
کی حیثیت اختیار کر چکتے ہیں یہاں یہ بات کہنہ قطعاً غلط نہ ہوگا کہ کراچی
بھتہ خوری کے بغیر نا مکمل ہے اور بھتہ خوری کراچی کے بغیر نامکمل ۔۔۔۔۔۔۔
دونوں میں کمال کی باہمی اہم آہنگی قائم ہے دونوں کے اتحاد کو ختم کرنے
کیلئے لاتعداد اتحادیوں کی کوششیں اپنی جگہ پر لیکن اس کے باوجود کوئی
اتحادی بھتہ خوری اورکراچی کے باہمی اتحاد کو ختم نہیں کر سکی دیکھنے والوں
کے سامنے تصویرکچھ اور ہے اور پس پردہ تصویر کچھ اور ہے واقفان حال تصویر
کے دونوں رُخ دیکھنے کیلئے بہت بے تاب رہتے ہیں اور اس وقت ان کے بے تابی
حقیقی بے سکونی اور بے چینی میں بول گئی جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ بھتہ
خوری کوختم کرنے والی طاقتیں درحقیقت خود بھتہ خوروں کی سرپرست ہیں دیگر
جرائم کو ختم کرنے کا اور جرائم پیشہ افراد کا محاسبہ کرنے کا قانونی اور
آئینی اختیار واحد ایجنسی پولیس کے پاس ہے اب یہاں پررائے میں تھوڑا ایسا
اختلاف آرہا ہے اگر پولیس اہلکار ناکہ لگا کر کسی گاڑی والے کے کاغذات چیک
کرنے کے بہانے اس کی جیب خالی کروا دیتے ہیں،تھانے میں داد رسی کیلئے آنے
والے سائل سے اسٹیشنری اور پٹرول کی آڑ میں پیسے نکلوالیتے ہیں ،دشمنوں کی
دشمنی کی آڑ میں ایک دوسرے کی مخالفت میں جب کسی شہری سے پیسے بٹور لیتے
ہیں توان کے اس غیر قانونی اوربے جواز لین دین کو کوئی طاقت بھتہ خوری قرار
نہیں دیتی اور نہ ہی ان پرکوئی طاقت انگلی اٹھاسکتی ہے اور اگر کوئی انگلی
اٹھاتا بھی ہے تو اس انگلی کیخلاف بے بنیادFIRدرج کرکے انگلی ہی کاٹ دی
جاتی ہے لیکن دوسرے طرف جب کوئی شہری بغیر وردی کے کسی سے بھتہ وصول کرتا
ہے تو اس پر قانون نافذ ہو جاتا ہے شاہد یہی دوہرا معیار ہمارے معاشرتی
نظام کے بگاڑکی ایک بڑی وجہ ہے یہیں بات ختم نہیںہوتی اسمبلی میں بیٹھے بڑے
بڑے سیاستدان چاہے وہ وزیروں کی شکل میں ہیں یا اپوزیشن کی شکل میں یہ لوگ
جب حکومت یا اپوزیشن میں نہیں ہوتے عوام میں ہوتے ہیں تو ان کو اسمبلی میں
بیٹھنے والے ہر فرد میں کوئی نہ کوئی غلطی نظر آتی ہے اور جب الزام لگانے
والے لوگ خود اسمبلی میںبیٹھے ہوئے ہوتے ہیں تو سیاہ و سفید میں کوئی فرق
یاتعمیز نہیںرہتی بڑے بڑے ٹھیکوں میں کمیشن لی جاتی ہے بھرتیوں اور تقرریوں
اور تبادلوں میں سیکرٹریوں کے ذریعے رشوت لی جاتی ہے یعنی اپنا حصہ لیا
جاتا ہے اس کو بھتہ خوری نہیں بلکہ حصے کا نام دیا گیا ہے کیونکہ بھتہ تو
غنڈے لیتے ہیں اسلحہ کی نوک پر۔۔۔ اور حصہ معزز طریقے سے ٹیبل ٹاک لیا جاتا
ہے اب بات ہو رہی ہے بھتہ خوری کی تو پتہ چلا کہ بھتہ خوری تو ہر جگہ موجود
ہے صرف طریقہ کار اپنا پنا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ بھتہ خوری کی
لعنت کو ختم کرنے کیلئے ہر آدمی کو نیک نیتی اور پوری ایمانداری کے تمام
جذبوں کے ساتھ اپنے اپنے گھر سے آغاز کرنا ہو گا تو بھتہ خوری کی لعنت کو
ختم کرنا پاکستان کیلئے کوئی بڑا چیلنج نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ بات سمجھنے کی ہے۔۔۔۔۔ |