ان دنوں جب دنیا بھر میں پاکستان
کو ڈرون حملوں، اسامہ بن لادن، دہشت گردی کے خلاف جنگ ، طالبان اور خود کش
حملوں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، پنجاب یوتھ فیسٹیول میں نوجوانوں نے
یکجان ہوکردنیا کا سب سے بڑا سبز ہلالی پرچم بنانے سمیت آٹھ عالمی ریکارڈ
قائم کرکے روشن پاکستان کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے اس یکجہتی کا
مظاہرہ کرکے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے نوجوانوں کا تعلق دہشت
گردی سے ہے نہ وہ اس کی کسی شکل کی حمایت کرتے ہیں۔ نیشنل ہاکی اسٹیڈیم
لاہورمیں شاہی قلعے کی اس تصویر کو مکمل کرنے میں ایک ہزار 936 نوجوانوں نے
حصہ لیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے پاس تھا
جہاں3 دسمبر2011 میں تصویربنائی گئی تھی اور اسے ایک ہزار 458 لوگوں نے
بنایا تھا۔ نیشنل اسٹیڈیم میں ہی 24 ہزار 200 کے قریب طلباو طالبات نے دنیا
کا سب سے بڑاپرچم بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ہانگ کانگ
کے پاس تھا جہاں 2007 میں 21 ہزار 436 لوگوں نے پرچم مکمل کیا تھا۔گنیز بک
ورلڈ ریکارڈ کے نمائندے نے تمام اعدادوشمار اکٹھا کرکے باضابطہ طور پر ان
دونوں ریکارڈز کی تصدیق کی۔ریکارڈ بننے کے اعلان کے ساتھ ہی 70,000 سے زائد
افراد سے کچھاکچ بھرا سٹیڈیم تالیوں کی آواز اور پاکستان زندہ باد کے نعروں
سے گونج اٹھا۔پاکستانیوں نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میںقومی پرچم بنانے اور
تصویر بنانے کے علاوہ مزید چھ ریکارڈ بھی اپنے نام کئے۔
پنجاب یوتھ فیسٹیول میں لوگوں کے جم غفیر کا پرامن انداز سے عالمی ریکارڈ
قائم کرنا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے اور صرف مٹھی
بھر عناصر اس کے عالمی تشخص کو بگاڑنے میں مصروف ہیں۔ ان نوجوانوں نے اکٹھے
ہو کر نہ صرف دوسرے پاکستانیوں بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اتحاد
واتفاق کی طاقت سے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔ عالمی ریکارڈ
بنانے والے نوجوانوں میں مسلمان بھی تھے اور غیرمسلم بھی، سنی بھی تھے اور
شیعہ بھی۔ پنجابی بھی تھے اور بلوچی بھی، پٹھان بھی تھے اور سندھی بھی۔ غرض
پاکستان بھر کے افراد نے صوبائیت، زبان، نسل، ذات پات اور فرقہ سے بالاتر
ہوکرسبز ہلالی پرچم کو دنیا بھر میں لہرا ڈالا ۔ یہی جذبہ ہمیں روشن اور
خوشحال پاکستان کے راستے کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ اگر ہم نے زندہ قوم کی
حیثیت سے خود کو دنیا بھر میں منوانا ہے تو یکجہتی کا دامن ہاتھ میں مضبوطی
سے تھامنا ہوگا۔
آج دشمن ہمیں پارہ پارہ کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے وہی اصول اپنا
رکھا ہے جو آزادی سے قبل انگریزوں نے مسلمانوں کی آزادی غصب کرنے کے لئے
اپنایا تھا۔ ہمیں ذات پات برادریوں اور فرقوں میں تقسیم کرکے اس نے ہزار
برس ہمیں غلام بنائے رکھا۔ آج بھی وہ یہاں آگ اور خون کا کھیل جاری رکھے
ہوئے ہیں۔ یہ دشمن تقسیم کرو اور بھسم کرو کی پالیسی پر پھر سے گامزن
ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ وہ اس پھوٹ اور تقسیم کے لئے اپنے آلہ کار استعمال
کرکے خود کو نظروں سے اوجھل رکھے ہوئے ہے۔ آج ہم ایک ملک کے باسی آپس میں
دست و گریبان ہیں۔ ہم نے اپنے اپنے اصول تراش کرایک دوسرے کو مورودِ الزام
اور غلط ٹھہرانا شروع کردیا ہے۔ اس توں تکرار کی نوبت خون خرابے تک پہنچ
چکی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پنجابیوں اور ہزارہ کمیونٹی کے افرادکی ٹارگٹ
کلنگ کرکے بلوچوں سے لڑانے کی کوشش کی جارہی ہے تو دوسری طرف صوبہ خیبر
پختونخوا میں مٹھی بھر دہشت گرد مسلمانوں کو مسلمان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔
پنجاب میں فرقہ واریت عروج پر ہے تو سندھ نسلی فسادات اور ٹارگٹ کلنگ میں
سبقت لے گیا ہے۔ جن عناصر نے آگ اور خون کا کام شروع کررکھا ہے وہ باہر
بیٹھ کر صرف محو تماشا ہیں۔ دونوں جانب ہماری ہی لاشیں گر رہی ہیں اور ہم
اپنے ہی بھائیوں کی گردنیں کاٹ کر ہاہاکار مچا رہے ہیں۔
اگر ہم پاکستان کو ترقی کرنا اورپاکستان کے وجود کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں
توہمیں ہر چیز سے بالاتر ہوکر صرف قومی پرچم تلے اکٹھا ہونا ہوگا۔ پاکستان
ہی ہماری پہچان ہے۔ زندہ قومیں صرف اتحاد و اتفاق سے ہی پروان چڑھتی ہیں
اور دشمن صرف اسی وقت وار میں کامیاب ہوتا ہے جب وہ اس اتفاق اور یکجہتی
میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ ہر پاکستانی
انفرادی طور پر یہ سوچے کہ پاکستان نے اسے پہچان دی، پاکستان نے اسے آزادی
دی اور بہت سی نعمتوں اور حقوق سے نوازا مگر اس نے پاکستان کو کیا دیا۔ یہ
سوچ ہماری ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے کیونکہ ہم انفرادی ذمہ
داریوں کے احساس سے ہی اجتماعی ترقی اور پورے پاکستان کی ترقی کا ذریعہ بن
سکتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا ہر شخص ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ۔ تو اٹھئے
اوربجائے وہ چراغ بننے کے جو گھر میں ہی آگ لگا دیتا ہے اقبال کا وہ ستارہ
بن جائیں جوواقعی ملت کے مقدر کو روشن اور خوشحال کردیتا ہے۔ آیئے ہم بھی
اس چاچا پاکستانی کی طرح بن جائیں جو واہگہ بارڈر پر ہر روز پاکستان کا
پرچم لہراتا۔ اس کا اپنا کوئی ذاتی گھر نہ تھا مگر وہ پورے پاکستان کو گھر
سمجھتا رہا۔ اس کا اصل نام تو مہردین تھا مگر چاچا پاکستانی کہلوانے پر اسے
فخر رہا۔ اس کااوڑھنا بچھونا اور لباس صرف سبز ہلالی پرچم تھا۔ وہ اس عمر
میں بھی قومی علم بلند کرتا رہا جب وہ اپنا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا تھا۔
اس نے خود کو پاکستان کے لئے وقف کردیا تھا اور آخری خواہش بھی اس کی یہی
تھی کہ اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر لحد میں اتارا جائے۔ اسی طرح کی ایک
شخصیت چاچا کرکٹ بھی ہے وہ بھی پاکستان کی پہچان بلکہ شان ہے۔ یہ وہ لوگ
ہیں جو صحت مند اور روشن پاکستان کی علامات ہیں۔آیئے ہم بھی پاکستان کی
علامت بن جائیں۔ اے نوجوانوں اٹھ کھڑے ہوں اور جس طرح آپ نے دنیا کی سب سے
بڑی تصویر اور پرچم بنا ڈالا اسی طرح یکجہتی، ایثار اور قربانی کے جذبے سے
لیس ہو کرہر میدان میں پاکستان کا وقار اور پرچم بلند کرنے کے لئے جت
جائیں۔ |