میرے سامنے میز پر ایک تصویر پڑی
ہے جس میں ایک نیلی آنکھوں والی گول مٹول سی ننھی پری نے اپنے کندھے پر
بستہ لٹکایا شاید اسکول کی طرف گامزن ہے۔ اِس معصوم کی تصویر دیکھ کر کلیجہ
منہ کو آ رہا ہے کیوں کہ یہ وہ ہی بچی ہے جس کا نام ملالہ یوسف زئی عرف گل
مکئی ہے جسے دن دیہاڑے اسکول سے واپسی 9 اکتوبر منگل کے روز تقریباً بارہ
بجے شریف آباد اور گلاہ کے مقام پر دو نقاب پوشوں نے شناخت کے بعد فائرنگ
کی جس کی زد میں اِس کی دو سہیلیاں شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی جو اب
قدرے بہتر اور اپنے گھروں میں ہیں لیکن قوم کی یہ بیٹی راول پنڈی سے
برطانیہ علاج کے لیے روانہ کر دی گئی۔ پچھلے پانچ دنوں سے مسلسل وینٹی لیٹر
پر رہنے والی بچی اِس کڑی آزمائش سے لڑ رہی ہے ہر لب پر اس کی صحت یابی کے
لیے دعائیں ہیں صرف پاکستان ہی نہیں سعودی عرب، افغانستان، بھارت سمیت
مختلف ممالک میں بھی اِس معصوم کی صحت یابی کے لیے دعائیں مانگی گئیں۔
ملالہ یوسف زئی کون ہے، اِس کے والدین کا تعلق پس ماندہ ضلع شانگلہ سے ہے
جو کافی عرصے پہلے مستقل طور پر سوات منتقل ہوئے ضیاءالدین یوسف زئی کے ہاں
وادی سوات کے مین شہر مینگورہ میں 12 جولائی 1998 کوآنکھ کھولی، اگر ملالہ
نام کی تاریخ دیکھی جائے تو زیادہ دور کی بات نہیں، 1880 میں برطانوی افواج
نے افغانستان کے علاقے میوند پر حملہ کیا تو افغانوں نے اِس حملے کی شدید
مزاحمت کی، 27 جولائی 1880 کو میوند میں جنگ شروع ہوئی تو تمام مقامی مرد
اس جنگ میں کود پڑے، اس دن 19 سالہ ملالے کی شادی تھی، شادی کے دن جنگ شروع
ہونے پر ملالے کے والد اور منگیتر بھی اِس جنگ میں شامل ہو گئے۔ روایات کے
مطابق ملالے اپنے خاندان کی دیگر عورتوں کے ہمراہ میدان جنگ کے اطراف میں
زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھی ایک موقع پر طاقت ور برطانوی افواج نے
افغانوں پردباﺅ بڑھایا تو ملالے نے اپنے اشعار کے ذریعے افغان فوجوں کا
حوصلہ بڑھایا، اِس موقع پر کہا اگر تم نے اِس جنگ کے میدان میں شکست کھائی
تو میں کبھی تمہیں معاف نہیں کروں گی، اسی جنگ کے دوران افغان فوج کا پرچم
بردار زخمی ہو گیا تو ملالے آگے بڑھی اور اِس نے پرچم تھام کر دوبارہ
لہرایا، افغان فوج نے ایک لڑکی کو پرچم تھامے دیکھا تو اِن میں ایک نیا
جذبہ پیدا ہوا اور انہوں نے دشمن پر دوبارہ تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے۔
دشمن نے ملالے کو نشانہ بنایا اور اُسے شہید کر دیا جنگ ختم ہوئی تو میوند
کی ملالہ افغانوں کی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار بن چکی تھی یہی وجہ
ہے کہ آج پاکستان اور افغانستان کے پختون بڑے شوق اور فخر سے اپنی بیٹیوں
کا نام ملالے کے نام پر رکھتے ہیں۔ افغانستان میں یہ نام ملالے یا ملالئی
کے نام سے پکارا جاتا ہے اور پاکستان میں اسے ملالہ پکارا جاتا ہے، اِسی کی
نسبت سے ضیاءالدین یوسف زئی نے اپنی اِس بچی کا نام ملالہ یوسف زئی رکھا،
سوات آپریشن کے دوران جب دہشت گردوں نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی لگائی تو
اُس وقت علم جہاد بلند کرنے والی سوات کی ننھی بچی ملالہ یوسف زئی نے بی بی
سی کو گل مکئی کے فرضی نام سے ڈائری لکھنا شروع کی جس میں وہ دہشت گردوں کی
طرف سے ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کرتی رہی، ایک طویل مدت تک بی بی سی کو
اپنے ننھے منھے دماغ میں آنے والی سوچ کو الفاظ میں ڈھال کر ڈائری کی صورت
میں لکھ کر بھیجتی رہی، اِس کے اِسی عمل نے اِسے دنیا بھر میں مشہور کر دیا،
ڈائری میں کچھ اِس طرح لکھتی کہ آج ماما گھر میں نہیں تھی میں نے ناشتہ
تیار کیا اور بھائیوں کو کروایا پھر اسکول چلی گئی اپنی کتابوں کو چادر میں
چھپا کر اسکول جاتی ہوں کہیں طالبان کو پتہ نہ چل جائے، سوات آپریشن کے بعد
بھی اِس بچی نے اپنی جدوجہد جاری رکھی، 2009 میں ہی چائلڈ اسمبلی کا قیام
عمل میں لایا گیا ملالہ کو اِس کی خدمات کے پیش نظر اِس کا سپیکر بنایا گیا،
بچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر 2012 میں ملالہ کو ہالینڈ کی غیر
سرکاری تنظیم کی جانب سے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا، 245
ممالک میں سے 5 بچیاں نامزد ہوئیں جن میں ایک ملالہ تھیں وہ ایوارڈ تو حاصل
نہ کر سکی لیکن اِس کی شخصیت میں مزید نکھار آنے لگا، حکومت پنجاب اور خیبر
پختونخوا کی جانب سے اسے مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ اِس کے بعد حکومت
پاکستان کی جانب سے قومی امن ایوارڈ کا اعلان کیا گیا، وزیراعظم ہاﺅس بلا
کر اسے ایوارڈ سے نوازا گیا، پھر 23 مارچ 2012 کو تمغہ شجاعت سے بھی اِس
بچی کو نوازا گیا، یوں چھوٹی سی عمر میں اِس بچی نے وہ کر دکھایا جو بڑے
بھی نہ کرپائے۔
ضیاءالدین یوسف زئی کو کہاں معلوم تھا کہ 1880 میں ایک ناقابل فراموش کردار
بننے والی ملالے 9 اکتوبر 2012 میں ایک بار پھر تاریخ میں زندہ و جاوید بن
کر ابھرے گی، واقعی ہی اِس عظمت و شجاعت کے پیکر نے یہ ثابت کر دیا کہ
مجاہدہ کا راستہ کوئی مصیبت نہیں روک سکتی، ظالمان نے نہ جانے کیا سوچ کر
اِس ننھی پری کو ختم کرنے کی ٹھانی لیکن اللہ رب العزت کو یہ منظور نہ تھا
دو ایسے نشانے باز جن کا نشانہ کبھی خطا نہ گیا، اُنہوں نے اپنا ہر ٹارگٹ
با خوبی انجام دیا، طالبان کے مطابق اِسی لیے ہم نے اِن نشانے بازوں کو
ملالہ کو مارنے کے لیے بھیجا لیکن الحمد اللہ وہ آج بھی زندہ ہے اور زندہ
رہے گی، صرف وہی نہیں بلکہ آج ہر پاکستانی بچی ملالہ بن چکی ہے۔ ایک
روزنامے پر چھپنے والی تصویر کو میں نے دیکھا سٹریچر پر پڑی ملالہ کی بند
آنکھیں جیسے مجھ سے سوال کر رہی ہوں کہ آخر میرا قصور کیا تھا یہ کہ میں نے
اللہ رب العزت کی طرف سے اتاری گئی، پہلی وحی کا پہلا لفظ ”اقرائ“ پر کام
کر رہی تھی؟ کیا یہ کہ حضرت محمد کی حدیث ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و
عورت پر فرض ہے“ اِس پر عمل کر رہی تھی؟ اِس معصوم کی جان کے پیچھے پڑے خون
خوار درندے اِس پرحملے کے بعد حضرت خضرؑ اور ایک صحابیؓ کے عمل کو جواز بنا
کر پیش کرتے ہیں۔ مجھے گن آتی ہے ایسی سوچ رکھنے والوں پر جو ان ظالمان کا
ساتھ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف آفرین ہے ہماری سوچ پر وہاں ملالہ زندگی اور
موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اور ہماری مذہبی اور لبرل تنظیمیں آپس میں دست و
گریبان ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ ملالہ کو میڈیا نے اتنی کوریج دی تو کیا ڈرون
حملوں میں مرنے والے انسان نہیں دوسری طرف لبرل اپنے جواز پیش کر رہے ہیں۔
میں سوال کرتا ہوں، اُن لوگوں سے جو کہتے ہیں کہ عافیہ صدیقی پر میڈیا نے
اتنا واویلا کیوں نہیں مچایا تو کیا امریکہ کے پاس اِس وقت صرف عافیہ صدیقی
ہی قید ہے، اُس کے علاوہ ہزاروں عورتیں آج بھی اُن کی قید میں ہیں
توپاکستان میں بھی کئی عورتوں پر بربریت کی ایسی خبریں ہمارے سامنے ہیں کہ
دل خوف میں کانپ جاتا ہے لیکن عافیہ صدیقی پر ہی اتنا شور کیوں مچایا جا
رہا ہے۔ اِس لیے کہ عافیہ صدیقی ایک انٹرنیشنل شخصیت تھی جس نے کئی کارنامے
سرانجام دیے۔ اِسی طرح ملالہ یوسف زئی ایک ایسی ہونہار بچی ہے جس نے دنیا
بھر میں پاکستان اور پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کیا، ہمیں ڈرون حملوں
میں شہید ہونے والے بے گناہوں کا بھی دکھ ہے، شدید کرب میں مبتلا ہیں لیکن
ننھی پری ملالہ کو نشانہ لے کر مارنے کی ناکام کوشش کی گئی جب کہ ڈرون
حملوں میں بے گناہ حادثاتی طور پر مارے جاتے ہیں لیکن اِس بات سے ہرگز یہ
مطلب نہ نکالا جائے کہ ہمیں اُن کا دُکھ نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا پر بھی اِس
بچی پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، فلاں کے لیے کام کر رہی ہے فلاں کا مہرہ ہے
افسوس صد افسوس اُس نے ایسا کیا کر دیا ہے جس سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان
پہنچا ہو، علم کی شمع روشن کرنے کا بیڑہ اٹھایا ، اسی پاداش میں علم دشمنوں
نے اِس آواز کو دبانے کی ایسی ناکام کوشش کی کہ آج پاکستان میں ہر طرف سے
ملالہ کی ہی آواز آ رہی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ایک رپورٹ
میرے سامنے پڑی ہے جس میں درج ہے کہ ملالہ کے مسئلے پر بات کرنے والے
صحافیوں اور اینکر پرسنوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ اگر ملالہ بچ گئی تو
اُسے دوبارہ مارنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن انشاءاللہ ہم صحافی قلم سے جہاد
کرتے رہے ہیں اور انشاءاللہ کرتے رہیں گے موت تو ایک دن آ کر رہے گی تو اِس
سے کیا ڈرنا، 14 سالہ معصوم بچی نے اِسے پیار سے اپنے گلے لگایا تو کیا ہم
اِس سے ڈر جائیں؟ نجانے کیوں میرا قلم دکھ میں میرا مزید ساتھ نہیں دے رہا،
مجھے خوف ہے، ہم یوں ہی آپس میں دست و گریباں رہیں گے اور وہ ظالمان ہمارے
گھروں میں داخل ہو جائیں گے، اگر آج ہم نے ملالہ کا درد اپنی بیٹی کا درد
نہ سمجھا تو کل آپ کی بیٹی بھی اُن کا ہدف بن سکتی ہے۔ اِس امر کی اشد
ضرورت ہے کہ قبائلیوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائیں۔مےںبارود کی بارش
میں علم کی شمع روشن کرنے والی عظیم مجاہدہ کو سلام پیش کرتا ہوں اگر
پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہو تو ملالہ کا ساتھ دو، اُس کے لیے
اپنے ہاتھ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اٹھاﺅں، میری دعا ہے اے اللہ ملالہ
کو جلد سے جلد صحت یاب کر اُس کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق دیں پاکستان
کی حفاظت فرما ہمیں دہشت گردوں سے نجات عطا فرما، اِن کو نیست نابود کر
دیں، آمین۔
آخر میں احفاظ الرحمن صاحب کی نظم کا کچھ حصہ
پھول کس کے ہیں، تارے کس کے ہیں
جیت کس کی ہے، ہار کس کی ہے
زندگی کی نوید کس کی ہے
ہے خزاں کس کی آنکھ میں پیوست
الفتوں کی بہار کس کی ہے |