یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی
نہیںنہ ہونی چاہئے کہ ذات کے اعتبار سے انسان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں
اور شناخت کے اعتبار سے اپنے نظریات وعقائد کے باعث ایک دوسرے سے منفرد اور
ممتاز بھی ہیں۔انسانی معاشرے میں اُس وقت امن و امان قائم رہ سکتاہے جب
تمام انسانی گروہ فراغ دلی ، خندہ پیشانی ، انفرادیت اور شناخت کے ساتھ
ساتھ دوسروں کی ذات اور شناخت کو بھی تسلیم کریں۔ کسی ذات کا قتل اور اس کی
زندگی چھین کر اپنے مقام کے متمنی اپنی شناخت کاقتل بھی خود ہی کر رہے ہوتے
ہیں۔دنیا کے جس خطّے میں بھی کسی گروہ نے جب اپنے تسلط اور دھونس کی خاطر
لوگوں کی ذات اور شناخت کے قتل کا سلسلہ شروع کیا تو اُسے جلد یا بدیر منہ
کی کھانی پڑی۔
مثال کے طور پر تاجِ برطانیہ کو ہی لے لیجئے اگر تاجِ برطانیہ ہندوستانیوں
کی ذات اور شناخت کو نہ کچلتا تو برطانیہ کو اِس ذلت و رسوائی کے ساتھ بر
صغیر سے نہ نکلنا پڑتا جس کے ساتھ وہ نکلاہے۔یہ اُس دور کی بات ہے جب
برطانوی سامراج اپنے عروج پر تھی۔وہ اپنے سوا کسی کی ذات و شناخت کے احترام
کا قائل نہیں تھا۔چنانچہ فوجی چھاونیوں سے لے کرکچّی بستیوں تک ہر طرف
ہندوستانیوں کی ذات و شناخت کا قتل عام ہورہاتھا۔اگر ایک طرف جنرل ڈائر
جیسے لوگ ہندوستانیوں کے کشتے پشتون سے لگارہے تھے تو دوسری ہندوستانیوں کی
دینی شناخت کو ختم کیاجارہاتھا۔برصغیر میں جب تاجِ برطانیہ کمزور پڑ گیاتو
اُسے ہندوﺅں کی مدد کی ضرورت پڑی۔ برّصغیر میں مسلمانوں کی افرادی قوت کو
توڑنے کے لئے ایک طرف تو ہندو مسلم فسادات شروع کرائے گئے ۔دوسری طرف ”عظیم
ہندوستان“ اور” انسانیّت سب سے بڑا مذہب ہے“کے نعرے لگاکر، ہندو مسلم بھائی
بھائی جیسی سازشیں کرکے مسلمانوں کی ذات اور شناخت کو قتل کرنے کا بازار
گرم کیاگیا۔
پاکستان بننے کے بعد جب اِس مقدس سر زمین پرتسلط اور دھونس کی بساط بچھائی
گئی تو بنگالیوں کی چیخیں بلند ہوگئیں۔ایک طرف تو انہیں بنیادی حقوق سے بھی
محروم کیاگیا۔انہیں غدّار اور ملک دشمن کہاگیا۔ان پر شب خون مارا گیا
اورقیامِ پاکستان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے بنگالی اپنی ذات
اور شناخت کی بقاءکے لئے ہمیشہ کے لئے ہم سے الگ ہوگئے۔
آج باقی ماندہ پاکستان میں ہمارے بلوچ ہمارے ہی خلاف صف آراءہیں ۔دوسری طرف
پاکستان کے سب سے بڑے شہر جو ایک لحاظ سے دینی و دنیاوی علوم کاپاکستان کا
سب سے اہم شہر بھی ہے ۔اس شہر میںدینی علوم کے محافظوںعلماءاور
طلباءپرکراچی شہر میں رہنا تنگ کیاجارہا ہے ۔سوچی سمجھی سازش کے تحت پہلے
ان لوگوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جو کسی بھی طرح سے مسجد ومدرسہ کی حفاظت کر
سکتے ہیںاور وہ کوئی غیر نہیں انہی مدارس و مساجد سے وابستہ علماءو
طلباءہیں۔اسی سازش کے تحت ذہنی ”ٹارچر“کرنے کے لئے مختلف مسائل کوزیرِ بعث
لا کر سیاسی زبان استعمال کر کے علماءو طلباءکو ھدف ِ تنقید بنایاجاتاہے۔
کبھی بانی پاکستان محمد علی جناح کے مسلک و مشرب تو کبھی نظریہ پاکستان پر
بعث کی جاتی ہے ۔برملاطور پر یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ ذات اور شناخت کا قتلِ
عام جاری ہے۔ مذہبی طبقہ کی انفرادیت کو کچلنے کے لئے علماﺅ طلباءکی ٹارگٹ
کلنگ کی جارہی ہے۔پاکستان سے باہر تو ہیں ہی مگر پاکستان میںموجود بھی بہت
سارے ایسے ”دماغ “او ر ”قلم “اپنے اپنے کام سر انجام دے دے رہے ہیں جوان کو
تفویض کئے گئے ہیں ۔ مذہب اورمذہبی شناخت کے حامل لوگوںدیگر بھی بہت سارے
”لشکر“ اور” ٹولے “سرگرمِ عمل ہیں ۔شاید انہیں اتنا شعور بھی نہیں کہ ذات
اور شناخت کے جس گھناونے جرم میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ
اپنے لئے مزید فرتوں کے بیج بو رہے ہیں ۔
جس طرح تاجِ برطانیہ سے یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ بتاو آخرفتح کس کی ہوئی
؟کیا ہندوستانیوں کی ذات اور شناخت مٹ گئی۔ اسی طرح آج قیام ِ پاکستان کے
65سال گزرنے کے بعد تحریکِ پاکستان کے شہیدوں کے لہوکو بھلانے کی کوشش کرنے
والوں سے بھی پوچھاجاسکتاہے کہ اِن پر ہی آپ کا نزلہ ہر دفعہ کیوں گرتا ہے”
مفتی صاحب“! اور یہ بھی تو ظاہر ہے جب اذیت کی انتہا کر دی جائے تو کبھی
کبھی پلکوں سے آنسو بھی چھلک کر بغاوت کی راہ ہو لیتا ہے جسے فراز نے کہا
تھاکہ
پلکوں کے بندھن کو توڑ کر دامن پہ آگرافراز
اک آنسو میرے صبر کی توہین کر گیا
آنسوﺅں کو توہین سے بچا لیجئے کیوں کہ توہین کسی مذہب ،جماعت ،گروہ ،نسل
یاعالم دین کی ہو وہ اُن کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے ۔ |