ضرورت مندوں کی دعائیں ،انکی
التجائیں خالق و مالک ربّ عزوجل پوری فرماتاہے ۔اس کی بارگاہ میں اُٹھنے
والا ہاتھ کبھی خالی نہیں لوٹتا۔منگتوں کی اپنی اپنی طلب طلب ہوتی ہے ۔کوئی
دنیا کے مال ثروت تو کوئی دنیا کی جاء وحشمت ،کوئی فرحت و شادمانی تو کوئی
رفعت و کامرانی کا طالب لیکن یہ دیوانے جو اللہ اور شعائر اللہ سے محبت
کرنے والے ہیں ان کی کیا بات ہے ۔خیر
عاشق تو عاشق ہوتا ہے جس چیزسے عشق و محبت ہوجائے ۔اس کی طلب بڑھ جاتی ہے
اور پھر وہ عاشق کے جس کاعشق بامراد،جس کی محبت باعث ِخیروبرکت سبحان اللہ
سبحان اللہ!!!۔جیسا کہ عازم مکہ و مدینہ ۔
پہلے زمانوں میں لوگ حج و عمرہ کا شرف پانے کے لیے ،پیادہ ،جانوروں پر
سوارہوکر صحرا، نخلستان ،جنگل وبیابانوں سے ،راستے کی گرمی و سردی ،تنگی و
تکلیف ،برداشت کرتے ہوئے اپنی پاک زمین ،اپنی راحتو ں،محبتوں ،سعادتوں و
برکتوں کے منبع مکہ و مدینہ کی جانب بڑھے چلے جاتے ،یہاں تک کہ جن لمحوں ،جن
ساعتوں کے لیے بے تاب تھے ،جن مناظر کے لیے نظریں بے تاب تھیںوہ لمحے آگئے
۔خوابوں کو تعبیرمل گئی۔عشاق کی تو عیدہوگئی بلکہ عیدوں کی عید ہوگئی۔لوگ
بحری جہازوں کے ذریعے طویل،سخت ترین سفر کرکے جوق درجوق حجاز مقدس کے لیے
دنیابھر سے دیوانہ وار سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے پہنچتے ۔
صفۃالصفوۃ میں منقول ہے کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچیس حج
پیادہ سفر کرکے کیئے ۔تفسیر مظہری میں حضرت مغیرہ بن حکیم صنعانی کے متعلق
مذکور ہے کہ یمن سے پیدل چل کر حج کرتے تھے ۔دوران سفر کسی مقام پر کھڑے
ہوکر ثلث قران (دس پارے تلاوت کرلیتے )۔پھر قافلے سے جاملتے ۔اسی طرح ہمارے
بزرگان دین کی سیرت ایسے سبق آموز واقعات سے بھری پڑی ہے۔جن میں عبادت و
ریاضت اور رضائے الہی کے لیے جستجوکے ذریں نکات موجود ہیں۔
یہ تانتا ،یہ ذوق وولولہ سال بھر جاری و ساری رہتا ہے ۔یوں تو ہر عاشق ،ہر
مومن مسلمان کے دل کی آواز ہے۔لیکن کچھ ایسی ساعتیں ہیں کہ ان ساعتوں کے
شرف پانے کے لیے ،ان برکتوں ،سعادتوں کو پانے کے لیے جہاں بھر سے مسلمان
گھر بار چھوڑکراس جانب نکل پڑتے ہیں وہ ماہ رمضان المبارک اور ماہ ِ
ذوالحجہ ہیں ۔کہ جس میں زائرین کثیر تعداد میںاس پاک دھرتی ،اس مقدس قطعہ
ارض کی جانب محوسفر ہوتے ہیں ۔عمرہ کے ساتھ ساتھ ایک اہم ارکان اسلام میں
سے ایک اہم رکن حج مبارک ہے ۔آج بھی کسی حاجی صاحب سے ملاقات ہوجائے تو
ملاقات کرکے رشک بھر ی نظروں سے اس کی قسمت پر رشک بھرے الفاظ نکلتے ہیں ۔دل
کی دھڑکنیں بے ربط ہوجاتی ہیں ۔آس و امید بھری نظروں سے خیالوں ہی خیالوں
میں ان وادیوں ،ان قابل قدر ،صاحب شرف مقامات میں گم ہوجاتے ہیں ۔
جس کے پاس ظاہری اسباب نہیں بے اختیار کہ اُٹھتاہے ۔
ڈاڈا ہاں غریب آقا کول میرے ذر نہیں
اُڑ کے میں آواں کیویں نال میرے پر نہیں
تساں تے ہیں ڈیرامیتھوں بڑی دور لالیا
صدلومدینے آقاکرومہربانیاں
آہ!ماہِ شوال المکرم،پھر ذی قعدہ اور اس کے بعد ماہ ذالحجہ ۔اس مقدس ماہ کے
آنے سے پہلے ہی چار سو اک فضاء بن جاتی ہے ۔اک ماحول بن جاتاہے ۔اک سماں
بند جاتاہے۔جوصاحب حیثیت ہیں اپنے حلال کمائیوں سے خرچ کرکے عازم حج ہوتے
ہیں ۔
حج کے لغوی معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔ارکانِ اسلام میں حج پانچواں اہم رکن
ہے۔ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج بھی ایک اہم رکن ہے اور اس کی فرضیت کا
انکار کرنے والادائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس مسئلے پر امت میں کوئی اختلاف
نہیں۔حج ٩ ھ کو فرض ہوا۔حج زندگی میں ایک بار ہرمسلمان پر فرض ہے مگر اس
پر کہ جو اسکی استطاعت رکھتا ہو۔
حج کی فرضیت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا
وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْن()فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ
وَمَنْ دَخَلَہ کَانَ اٰمِنًا وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ
اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ
الْعٰلَمِیْنَ (۔۔۔۔۔۔ پ٤،آل عمران:آیت ٩٦،٩٧)۔
ترجمہ ئ کنزالایمان: بے شک سب میں پہلا گھرجو لوگوں کی عبادت کو مقررہواوہ
ہے جو مکہ میں ہے برکت والااور سارے جہان کا رہنما۔
اُس میں کھلی ہو ئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ۔اور جو اس
میں آئے امان میں ہو۔اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے ۔جو اس تک
چل سکے ۔اور جو منکر ہوتواللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے ۔
اور فرماتا ہے :
( وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ) (۔ پ٢، البقرۃ:آیت:١٩٦) .
ترجمہ ئ کنزالایمان :اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا کرو۔
یہ حکم ہے ربّ کا اپنے بندوں کے لیے ۔جس جس نے اس کے حکم کی پیروی کی فلاح
و کامرانی نے اس کے قدم چومے ،دنیا و آخرت کی برکت و سعادتیں اس کے دامن
میں آئیں ۔قلبی راحت و سکوں اس کا مقدر بنا ۔
محترم قارئین:حج ِ بیت اللہ کی حاضری ،مناسک حج کی ادائیگی ،شعائر
اللہ(اللہ کی نشانیاں) کے جلوں سے آنکھوں کو ٹھنڈاکرنا ۔خوش بختی ہی خوش
بختی ہے ۔ یہ اسی فرض کی ادائیگی ہے جس کے متعلق ہم بے کسوں کے کس ،ہم بے
بسوں کے بس ،شفیع روزشمار احمد مختار ؐ کافرمانِ عظمت نشان :''حج کرو کہ حج
گناہوں کو دھو دیتاہے ۔جیسے پانی میل کو'' (رواہ الطبرانی )
آہ!اے کاش !ابکہ میری کاش کاش نہ رہے ۔اے رحیم سن لے ہماری عرضی کو۔سن لے
ہماری عرض گزاری کو۔ |