مرکزِ علم وفضل ۔۔۔ کوفہ

سیدناامامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کا وطن کوفہ ہے۔ اس لیے غیر مقلدین یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ کوفہ والوں کو حدیث کا علم نہیں تھا نیز کوفہ میں صرف ایک دو صحابہ رہتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ آئیے اس پراپیگنڈہ کا تجزیہ کرتے ہیں۔

علامہ کوثری مصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، '' عہدِ فاروقی ١٧ھ میں امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے حکم پر شہر کوفہ آباد کیا گیا اور اسکے اطراف میں فصحائے عرب آباد کیے گئے۔ سرکاری طور پر یہاں مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کا تقرر ہوا۔ انکے علمی مقام کا اندازہ اس مکتوب سے کیا جاسکتا ہے جو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اہلِ کوفہ کو تحریر کیا تھا۔ اس میں تحریر تھا ،
''عبداللہ بن مسعود کی مجھے یہاں خاص ضرورت تھی لیکن تمہاری ضرورت کو مقدم رکھتے ہوئے میں ان کو تمہارے پاس بھیج رہاہوں''۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے کوفہ میں خلافتِ عثمان کے آخر وقت تک لوگوں کو قرآن پاک اور دینی مسائل کی تعلیم دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس شہر میں چار ہزار علماء اور محدثین پیدا ہوگئے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جب کوفہ پہنچے تو اس شہر کے علمی ماحول کو دیکھ کر فرمایا،'' اﷲ تعالیٰ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کا بھلا کرے کہ انہوں نے اس شہر کو علم سے بھر دیا''۔(مقدمہ نصب الرایہ)

غیرمقلدین کے پیشواابن تیمیہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ '' اہلِ کوفہ نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی تشریف آوری سے قبل ہی حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے ایمان ، قرآن، تفسیر، فقہ اور سنت کا علم حاصل کرلیا تھا''۔ ( منہاج السنۃ ج ٤ :١٤٢)

علامہ ابن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں، '' بیعتِ رضوان والے تین سو صحابہ اور غزوہ بدر میں شریک ہونے والے ستر صحابہ کرام کوفہ میں آباد ہوئے''۔ (طبقات ابن سعد ج ٦:٩ ) ان اکابر صحابہ کے علاوہ اور بھی بہت سارے صحابہ کرام کوفہ میں آباد ہوئے۔ مشہور تابعی حضرت قتادہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں، '' حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہزار پچاس صحابہ اور چوبیس بدری صحابہ کوفہ میں تشریف فرماہوئے''۔( کتاب الکنیٰ و الاسماء ج ١ : ١٧٤)

حافظ ابن ہمام اور محدث علی قاری رحمہما اللہ نے کوفہ میں تشریف فرما ہونے والے صحابہ کرام کی تعداد پندرہ سو تحریر فرمائی ہے۔ ( فتح القدیر ج ١ : ٤٢ )

ان روشن دلائل کے باوجود اگر کوئی کوفہ کو ایک یا دو صحابہ کا مسکن کہے تو اسے اپنی عقل پر ماتم کرناچاہیے۔ اب رہا یہ اعتراض کہ '' اہلِ کوفہ حدیث نہیں جانتے تھے''، اسکے جواب میں محدثین کی گواہیاں ملاحظہ فرمائیے۔ابن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ''میں جب کوفہ پہنچا تو وہاں حدیث کے چار ہزار طلبہ موجود تھے''۔ (تدریب الراوی : ٢٧٥)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کے شیوخ میں سے امام عفان بن مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ '' جب ہم کوفہ پہنچے تو وہاں چار ماہ قیام کیا۔ احادیث کا وہاں اتنا چرچا تھا کہ اگر ہم چاہتے تو ایک لاکھ سے بھی زیادہ احادیث لکھ سکتے تھے۔ مگر ہم نے صرف پچاس ہزارحدیثوں پر اکتفا کیا۔ ہم نے کوفہ میں عربی زبان میں غلطی کرنے والا اور اسکو روا سمجھنے والا کوئی نہیں دیکھا''۔ ( مقدمہ نصب الرایہ :٣٥)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے انکے بیٹے نے پوچھا، حصولِ علم کے لیے ایک استاد کی خدمت میں رہوں یا دوسرے شہروں سے بھی علم حاصل کروں؟ فرمایا، سفر اختیار کرو اور کوفیوں ، مصریوں، اہلِ مدینہ اور اہلِ مکہ سے علم لکھو۔ ( تدریب الراوی : ١٧٧)

امام احمد رحمہ اللہ نے اہلِ کوفہ کا ذکر سب سے پہلے کرکے علم و فضل کے حصول کے لیے کوفہ کی اہمیت واضح فرمائی۔ حدیث اور رجال کی کتب دیکھیں تو اکثر راوی کوفہ کے نظر آتے ہیں۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے تذکرۃ الحفاظ کی صرف پہلی جلد میں کوفے کے تقریباً سو(١٠٠) حفاظِ حدیث کے اسمائے گرامی لکھے ہیں جن میں سے اکثر صحاح ستہ بلکہ صحیحین کے راوی ہیں۔ کیا اسکے باوجود کوئی یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ کوفہ والوں کو حدیث کا علم نہیں تھا۔

امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں '' جو جنگوں کا علم سیکھنا چاہے وہ اہل مدینہ سے حاصل کرے اور حج کے مسائل اور مناسک سیکھنا چاہے وہ اہل مکہ سے سیکھے اور جو فقہ کا علم حاصل کرنا چاہے اسکے لیے کوفہ ہی ہے''۔( مناقب للموفق : ٣٦٣)

یہ بات ہم پہلے تحریر کرچکے کہ علم فقہ کی بنیاد حدیث کے علم ہی پر ہے۔ اس لیے کوفہ کو حدیث و فقہ دونوں علوم کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اسکا سب سے بڑا ثبوت امیرالمومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی ہے جنہوں نے طلبِ حدیث کے لیے بہت سے اسلامی شہروں کا سفر کیا لیکن کوفہ اور بغداد تو وہ کثرت سے جاتے رہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، ''میں دوبار مصروشام گیا، چار مرتبہ بصرہ گیااور میں ہرگز نہیں گن سکتا کہ میں کوفہ اور بغداد کتنی مرتبہ گیا''۔ (مقدمہ فتح الباری )

شارح بخاری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں، ''جب امام اعظم کے وصال کے اسّی(٨٠) سال بعد کوفہ کا یہ حال تھا کہ امام بخاری جیسے احادیث کے بحرِ ناپیدا کنار اپنی تشنگی بجھانے کے لیے اتنی بار کوفہ گئے جس کو وہ اپنے محیّر العقول حافظے کے باوجود شمار نہیں کر سکتے تو اسّی سال پہلے تابعین کے دور میں کوفے کے علم وفضل کا کیا حال رہا ہو گا؟''۔
(مقدمہ نزھۃ القاری شرح بخاری :١٦٦)

حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سو اکابر صحابہ کرام کی برکت سے کوفہ علم و فضل کا ایسا مرکز بن گیاتھا جس کی بناء پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے کوفہ کو رُمْحُ اللّٰہ(اﷲ کانیزہ)، کَنْزُالْاِیْمَانْ (ایمان کا خزانہ) اورجُمْجُمَۃُ الْعَرَبْ (عرب کاسر) کے القاب سے یاد کیا۔حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے کوفہ کو قُبَّۃُ الْاِسْلَام (اسلام کا گھر) قرار دیا۔ جبکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے کوفہ کو ایمان کا خزانہ ، اسلام کا سر اور اﷲ تعالیٰ کی تلوار کا لقب دیا۔ (طبقات ابن سعد ج ٦ : ٥)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382196 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.